یہ ہمارے مولویوں کا دعوی ہے۔ اور اسے ایک کلیشے کے طورپرمشہورکررکھا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے، شریعت کے نفاذ کی بات چھڑتے ہی مہذب دنیا اور عورتوں میں تشویش کی لہردوڑ جاتی ہے۔ 'اسلامی نظام' جب جہاں کہیں آیا ، اس کے قواعد و ضوابط ، تعزیرات کا پہلا نشانہ عورت ہوتی ہے۔ عورت پر کنٹرول اسلامی سماج کا بنیادی ستون ہے۔
اسلام میں آئیڈیل عورت وہ ہے، جو خاموش طبع، غیرمتحرک، اور اطاعت گزار ہو۔ جب اسلام اور شریعت عورت پرکنٹرول کی شدت اور سختی سے حامی ہے، تو پھر 'بے مثال حقوق' بے معنی ہوجاتے ہیں۔۔۔ ایک بے بس فرد کی ذات کیا معنی رکھتی ہے۔ جس کو مذہب، سماج، ریاست، قوانین سخت سوشل کنٹرول میں رکھیں؟ سب سے پہلا حق تو آزادی ہوتا ہے۔۔۔انسان سمجھنا ہے، جس کا اسلام میں نام و نشان نہیں ہے۔ اسلام میں عورت مرد کی تابع اور ملکیت قرار پاتی ہے۔ اور اس میں ساری شریعت اور مسلمانون کے سارے فرقے متفق ہیں، چنانچہ سعودی عرب اور ایران مین کوئی فرق نہیں، اسی طرح داہش اور طالبان میں کوئی فرق نہیں تھا۔۔ جہاں عورت کا کردار ہے۔
عورت کے ایسے ہی ' حقوق ' ہیں جیسے کسی غلام کے ہوتے ہیں۔۔۔جب آزادی فکروعمل ہی نہیں، خود اپنے جسم، اپنی زندگی پرکوئی حق نہیں، تو پھر حقوق کیا کیا مطلب رہ جاتا ہے۔۔ ہر جگہ عورت کو دوسرے نمبر پر، مطیع اور ضمنی قرار دیا گیا ہے۔ تخلیق کائنات کی اولین خدائی حکمت میں عورت کے جنم کا خیال ناپید تھا۔۔۔ مرد کو خدا نے اپنے مقدس ہاتھوں سے بنایا، جب کہ عورت کی مجبوری سے تخلیق کرنا پڑی۔۔۔ وہ بھی مرد کی پسلی سے۔۔ اسلام مطالبہ کرتا ہے، عورت کو مرد کے مقابل مغلوب اور مطیع ہونا چاہئے۔۔ عورت صرف بیوی ہے، ماں ہے ، بیٹی ہے، وہ مرد کی طرح انسان نہیں ہے۔ عورت کو چھپا کررکھنا ہے گھر میں بند رکھنا ہے۔ اور مردانہ آبادی سے زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ رکھنا ہے۔ کیونکہ 'نامحرم' کا خطرہ ہروقت معاشرے میں موجود ہے۔
عصمت فروشی کا سب سے بڑا سبب معاشی عوامل کی بجائے عورت کی جنسی بھوک کوقرار دیا گیا۔ شرعی عدالتوں کی تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جہاں مردوں کے مقابلے میں عورت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اسلام میں مرد صاحب ارادہ ہے، عورت صاحب ارادہ (will) نہیں ہے۔ اسلام میں عورتوں اور بچوں کو مال و متاع کے زمرے میں گنا گیا ہے۔ وقت مباشرت کی دعا ہے، " اے اللہ، تو ہی میری مدد کر، مجھے بغیر ذلت اور نقصان کے اس عمل سے نکال لے" اب اس پر بندہ کیا تبصرہ کرسکتا ہے۔۔۔
“