ملحدین (علی عباس جلالپوری وغیرہ) کے مطابق زمانہ جاہلیت میں لوگ معبد کے گرد سات مرتبہ چکر لگاتے تھے، فقراء ننگے پیر جبکہ امراء جوتوں سمیت طواف کرتے تھے۔
ملحدین کے مطابق اسلام میں سات کا عدد مقدس اور متبرک سمجھا جاتا ہے جیسا کہ سات زمین اور سات آسمان، ماں کے پیٹ سے زمین کے پیٹ میں آنے تک زندگی کی سات منزلیں، قرآن کی سات منزلیں، سبع مثانی، سبعہ احرف یعنی قرآن کی سات قراتیں، سعی کے سات چکر، جمرات کو سات کنکریاں مارنا، عیدین کی سات تکبیریں اور سات برس کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کی ترغیب دلانے کا حکم، قومِ عاد پر سات رات طوفانِ باد وباراں، جس برتن میں کتا منہ ڈالے اسے کم از کم سات مرتبہ دھونے کا حکم، اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات حصہ دار، ان کے مطابق سات کے عدد کا یہ مقدس ہونا اسلام سے پہلے کے کفار سے اخذ کیا گیا ہے جو سات ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔
اس پہ سوال یہ ہے کہ اس بات کا تاریخ اور آرکیالوجی سے کونسا مستند ثبوت ہے کہ اسلام سے پہلے کفار سات بار طواف ہی کرتے تھے اور اس سے کم نہیں۔ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مکہ اور مدینہ منورہ میں سات ستاروں کی پوجا کی جاتی تھی۔ مکہ و مدینہ کے کفار کے نزدیک کچھ ستارے مقدس تھے لیکن مکمل ستاروں کی پوجا مکہ و مدینہ میں کبھی نہیں کی گئی۔ ہم نے اس معاملے کی بہت تحقیق کی۔ اس میں ہمیں یہ بات تو ملی ہے کہ اسلام سے قبل کفار اپنے بتوں اور کعبہ کا طواف کرتے تھے لیکن یہ بات کہیں بھی نہیں ثابت کہ وہ یہ طواف سات بار کرتے تھے۔ اگر کوئی ملحد اس کا ثبوت فراہم کر دے تو ہم اس معاملے کی مزید تحقیق کریں گے۔
یہودیوں میں نذر و قربانی کے لیے ایک ضروری شرط یہ تھی کہ اس کو مذبح کے سامنے سات مرتبہ پھیرا جائے۔ ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ خداوند کے حضور یعنی بیت اللہ کے سامنے لا ئی جائے۔ جب کہ یہود جو کہ اہل کتاب ہیں وہ جانور کو مذبح کے گرد سات بار طواف کراتے تھے تو یہ بات ایک اور چیز کی وضاحت کرتی ہے کہ سات بار طواف کا تصور اسلام سے قبل کے ستارہ پرستوں کا نہیں بلکہ ان سے بھی پہلے کے یہود کا ہے، اور اسلام اسی رب کی طرف سے ہے جس نے بنی اسرائیل کی طرف وحی کی۔ پھر کیونکر یہ تصور کفار سے اخذ کیا گیا جب کہ وہ اس سے بھی پہلے اس رب کی طرف سے ہے جس نے یہودیت اور اسلام دونوں کو شریعت عطا کی۔ پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ تصور ستارہ پرست کفار سے اخذ کیا گیا۔
خانۂ کعبہ کے گرد طواف کے سات پھیرے اور اس میں رمل دراصل ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ طریقۂ نذر و قربانی کی نقل ہے۔ اور یہ تصور ستارہ پرست کفار کی نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جس کا سلسلہ بنی اسرائیل اور اب مسلمانوں میں جاری ہے۔ جیسا کہ زبور میں مذکور ہے:
’اَے یہوواہ! مَیں تیرے مذبح کا طواف کروں گا‘
”مَیں بے گُناہی میں اپنے ہاتھ دھوؤں گا اور اَے [یہوواہ]! مَیں تیرے مذبح کا طواف کروں گا۔“ (زبور ۲۶:۶)
کیا ہم آج کل داؤد کے نمونے کی نقل کر سکتے ہیں؟ جیہاں۔ ہم بھی یسوع کی قربانی پر ایمان ظاہر کرنے اور ’صاف ہاتھوں اور پاک دل‘ کے ساتھ یہوواہ کی حتیالمقدور خدمت کرنے سے اپنے ہاتھ بے گُناہی میں دھو کر خدا کے مذبح کا طواف کر سکتے ہیں۔—زبور ۲۴:۴۔
مصری مذہب میں سات روحوں کی کہانی موجود ہے، ہندومت کی پوتھیوں میں سات دیویوں کا ذکر آیا ہے۔ قدیم بابلی تہذیب بھی سات روحوں پر ایمان رکھتی تھی۔ قدیم ایرانی اعتقادات میں بھی سات کا عدد مقدس ہے (امیشا سپنتا)۔
ہندو مت میں دولھا اور دلہن کیلئے آگ کے چاروں جانب سات طواف ضروری قرار پائے۔ سات پردوں میں چھپ
جانے (کے محاورے) کا آغاز ہوا۔ سات تووں سے منہ کو کالا کرنے والی لوک کہانیاں سنائی دیں۔ الف لیلوی داستان سات سفر کے قصے لائی۔ اور ان تخلیقی سیاروں کی تعداد بھی سات شمار کی جاتی ہے جو زمین پر اپنی برقناطیسی لہریں بکھیرتے رہتے ہیں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ سات کا عدد دنیا کی اکثر تہذیبوں میں اہمیت رکھتا ہے۔ اگر مسلمانوں نے سات کے عدد کی اہمیت بابل یا ستارہ پرست کفار سے اخذ کی تو پھر ہندو، مصری مذہب اور دنیا کی کئ ان تہذیبوں میں بھی یہ عدد خاص اہمیت کیوں رکھتا ہے جو بابل اور ستارہ پرست کفار سے بالکل غیر متعلق اور انتہائی دور دراز علاقوں کے تھے۔
اب ملحدین سے پوچھا جائے کہ براعظم سات کیوں ہیں؟ دنیا، قدرت کی طرف سے سات سمندروں؛ بحر منجمد شمالی، بحر منجمد جنوبی، شمالی بحرالکاہل، جنوبی بحرالکاہل، شمالی بحراوقیانوس، جنوبی بحر اوقیانوس اور بحرہند اور سات براعظموں پر تقسیم کیوں کی گئی؟ روشنی اور قوسِ قزح (قزح دیوتا کی کمان) بنیادی طور پر سات رنگوں پہ مشتمل کیوں ہے؟ حلق میں سات سوراخ، جسم کے اہم حصے یعنی سر میں سات سوراخ دو آنکھیں، منہ، دو کان، ناک کے دو نتھے، آنکھ کے سات پردے، اندرون جسم بھی اعضائے رئیسہ دل، جگر، پتہ، دو گردے اور دو پھپڑے سات کیوں ہیں؟ میوزیکل نوٹ سات کیوں ہیں؟ انسانی ذہنی صلاحیت یا Cognitive capacity کی حد سات سے منفی دو کے درمیان کیوں ہیں؟ جلد سات دن میں دوبارہ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ چِتّی دار بھُوترا یا Ladybug پہ سات دھبے کیوں ہوتے ہیں؟ اکثر میملز کی گردن میں سات ہڈیاں کیوں ہوتی ہیں؟ نیوٹرل پی ایچ جو تیزابیت اور اساسیت کے درمیان ہے، سات کیوں ہے؟ ایک الیکٹران یا برقیے کے جوہر یا ایٹم کے مرکزے کے گرد انرجی لیول سات کیوں ہیں؟ کیا یہ بھی قدیم ستارہ پرستوں سے متاثر ہو کر قدرت اور سائنسدانوں نے سات مقرر کئے ہیں یا حقیقی طور پہ سات ہیں؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ اسلام میں صرف سات نہیں جس کی کوئی خاص اہمیت ہے بلکہ عدد ایک، دو، چار، پانچ، چالیس ایسے ہیں جن کی اہمیت سات سے کسی طرح کم نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے کبھی قرآن و حدیث کے حوالے سے کسی خاص عدد کو مقدس بنانے کی بات نہیں کی اور اگر کچھ عبادات کی تعداد سات ہے تو بیشمار عبادات ایسی بھی ہیں جن کی تعداد سات نہیں بلکہ ایک، دو، تین، پانچ اور چالیس ہے۔ الله نے لاتعداد فرشتوں کو پیدا فرمایا ہے لیکن ان میں سے چار کو خصوصی شہرت و مقام دے دیا۔ یعنی جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل*۔ ہم جانتے ہیں کہ الله رب العزت نے ہر دور میں رسول بھیجے لیکن ان میں سے چار کو خصوصی مقام مل گیا یعنی ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمّد (علیھم السلام اجمعین). ہم واقف ہیں کہ بیشمار صحائف نازل کیے گئے مگر چار کی حتمی شناخت قایم رکھی گئی یعنی تورات، انجیل، زبور اور قرآن۔ ایک لاکھ سے زائد صحابہ میں سے چار کو امّت میں خاص مقام حاصل ہوا یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی (رضی الله عنھم اجمعین)۔ مسالک بہت سے بنے مگر عام شہرت اکثریت میں چار کو حاصل ہوئی یعنی حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی۔ بارہ میں سے چار مہینے فضیلت والے کہلاے یعنی رجب، شعبان، رمضان اور محرم۔ رسول اکرم (ص) کو چالیس برس میں نبوت دی گئی۔ سورہ بقرہ کی آیت ٥١ کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کو تورات کے احکام وادی سینا میں چالیس رات کی مدت میں عطا کیے گئے۔ قرآن میں سوره احقاف کی آیت ١٥ میں واضح اشارہ دیا گیا ہے کہ انسانی ذہن کی مکمل بلوغت کی عمر چالیس برس ہے۔ سورہ مائدہ کی ٢٦ آیت میں بنی اسرائیل کو چالیس برس کے لئے دربدر ہونے کی سزا سنائی گئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چالیس کا عدد کسی بھی خاص تربیت کی تکمیل کا دورانیہ بیان کرتا ہے۔ اسی کا لحاظ کر کے چلّے کی اصطلاح رائج ہوئی ہے۔
جب کہ یہ طواف اور دیگر امور تعبدی یعنی عبادت کے امور ہیں۔ ان کا دارومدار سماع پر ہے، جس طرح شارع علیہ السلام سے ہم نے سنا، ویسے ہی عمل کیا جائے گا۔ جیسے نمازوں کی رکعات ہیں، فجر کے دو فرض ہیں۔ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ دو کیوں ہیں چار کیوں نہیں؟ تو یہ ایسے امور ہیں جن پر فقط عمل کیا جائے گا، جیسے حکم ملا کرنے کا، ویسے ہی کیا جائے گا۔ ظہر کے چار، عصر کے چار، مغرب کے تین، عشاء کے چار فرائض۔ ان میں کمی بیشی نہیں کی جائے گا۔
ایک صحیح حدیث کے مطابق رسول پاک (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ الله طاق ہے اور طاق اعداد کو پسند فرماتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہم عمومی طور پر طاق تعداد میں وضو کرتے ہیں یعنی تین دفع ہاتھ دھونا، تین بار منہ صاف کرنا وغیرہ۔ مغرب کی تین رکعات کے ذریعے ہم دن کی ادا کی ہوئی نمازوں کو طاق عدد کرتے ہیں۔ پھر عشاء اور قیام الیل کے بعد ایک یا تین یا پانچ رکعات ادا کی جاتی ہیں تاکہ رات کی یہ عبادت بھی طاق ہو جائے۔ بات یہیں تک نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں بھی ان اعداد کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو اس کلام کے الہامی ہونے کی دلیل ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال بالکل حضرت آدم علیہ السلام جیسی ہے۔ حیرت انگیز طور پر دونوں پیغمبروں کا ذکر پچیس پچیس بار آیا ہے۔ قرآن میں لفظ مرد یعنی ‘رجل’ کا ذکر چوبیس بار آیا ہے اور عورت یعنی ‘امرءہ’ کا ذکر بھی چوبیس بار آیا ہے۔ قرآن میں شیطان کا ذکر اڑسٹھ ٦٨ بار آیا ہے اور فرشتے کا ذکر بھی اڑسٹھ ٦٨ بار ہی آیا ہے۔ قرآن اس دنیا کی زندگی کا ایک سو پندرہ ١١٥ بار تذکرہ کرتا ہے اور آخرت کی زندگی کا بھی ایک سو پندرہ ١١٥ بار ذکر کرتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک بتا سکتا ہے کہ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن دن یعنی یوم لفظ کا استمعال پورے تین سو پینسٹھ بار کرتا ہے۔ قرآن پاک میں سورہ توبہ کی آخری آیات میں الله عزوجل نے صاف فرما دیا ہے کہ اس نے ہر ایک چیز عدد میں گن رکھی ہے۔ کیا اسلام نے ان اعداد کی اہمیت یا بیان بھی بابل یا قدیم عرب ستارہ پرست کفار سے اخذ کی؟ جب کہ اسلام میں کوئی ایک خاص عدد ہے ہی نہیں جو کہ اہمیت کا حامل ہو۔ پھر محض سات کے عدد اور سات طواف کی بنیاد پہ یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسلام قدیم مظاہر پرست مذاہب اور بابل سے متاثر ہے۔ یہ اعتراض ایک جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔
حوالہ جات:
http://www.mansoorafaq.com/prose/deewar-pay-dastak-columns/964-saat-ka-adad.html
http://m.dunya.com.pk/index.php/special-feature/2017-04-12/18275
https://wol.jw.org/ur/wol/d/r109/lp-ud/2000329
http://www.qalamkar.pk/islam-and-digits/
* نوٹ: (بابل – بابِ ایل، بابلیوں کے خدا ایل کی مناسبت سے نام جو ان فرشتوں کے ناموں میں بھی آ رہا ہے، شاید یہودیوں میں بھی بابل کی اسیری کے دوران رائج ہوئے ہوں۔)