انسانی دماغ اور ہمارے افعال:
ہمارا دماغ ہمارے ذھن سے جدا نہیں ہے بلکہ ہمارا ذھنی رویہ جسے ہم مائنڈ Mindکہتے ہیں،دراصل ہمارے دماغ ہی کی پیداوار ہےجو دماغ کے اندر افعال ہورہے ہوتے ہیں۔سادہ الفاظ میں مائنڈ دراصل ہمارا دماغ ہی بناتا ہے۔
ایک عملی طورپراس بات کو پرکھ سکتےہیں کہ ثنویت اور مادیت پن میں کیا فرق ہے؟ یہ ایک ایسی بات ہے، جسکا نفسیات دان اور ماہرین طب و حیاتیات الگ الگ دائرے تحقیق کے تحت جوابات دیا کرتے ہیں۔ یہ سوال خاصا اہم اور پیچیدہ ہے، خصوصا اگر انسانی ذھن کسی "مشین کے بھوت" جیسے عمل کی پیداوار ہے اور کسی الیکٹروکیمکلز جو دماغی نیوروان کے ریکشنز کا حصہ نہیں، تو ذھن ضرور اپنے رہنے والے انسانی دماغ کی بناوٹ پر انحصار نہیں کرے گا۔ مختصرا یہ کہ ذھن ، انسانی دماغ کی طبعی خصوصیات پر منحصر نہیں کرے گا۔
یہ پیشگوئی کرنا اب تک دور جدید سے پہلے زرا مشکل تھی، لیکن ماڈرن سانئسی ایجادات اب اس موضوع پر روشنی ڈال چکی ہیں۔ اعلیٰ طبی تکنیک جیسے کیٹ اسکین (CAT scan, Computed Axil Tomography) ، پیٹ اسکین ( PET, Positron Emission Topography) اور ایم آر آئی (MRI, Magnetic Resonance Imaging) ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ ہم ایک زندہ دماغ کی بناوٹ کو سمجھیں اور اسکے افعال کا مطالعہ کریں۔ سائنسدان اب اسکو دیکھ سکتے ہیں کہ کونسے دماغ کے حصے "روشن " ہوجاتے ہیں جب کسی دماغی کام کے بدولت ایک صحت مند آدمی کوئی ٹاسک پرفارم کررہا ہوتا ہے یا اس وہ دماغ کا مطالعہ کرتے ہیں جب ایک مریض جو کسی معذوری یا چوٹ کے سبب اپنے دماغ سے کام کرنے سے محروم ہوجاتا ہے اور اسکےجسم کا کوئی عضو دماغی افعال کی غیر موجودگی کے سبب کام نہیں کرپاتا۔
سارے کے سارے جو کچھ بھی ذھنی کام جو مقامی ہوتے ہیں، اور کچھ جو ملے ہوئے ہوتے ہیں، وہ بھی تقریبا سارے ہی دماغ پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن مائنڈ کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں جو دماغ کے کسی حصے سے جڑا ہوا ہو۔ درحقیقت آج ہم اس چیز کو درستگی سے جان چکے ہیں کہ کونسے دماغی حصے ، انسانی شعور کے کن پہلوؤں کو کنٹرول کرتے ہیں۔
انسانی دماغ کی وہ تصویر جس سے آج سبھی واقف ہیں کہ یہ ایک سرمئی رنگ کا لجلجا سا عضو ہوتا ہے، تقریبا اسی سائز کا جتنی ہماری دو مٹھیوں کو ایک ساتھ ملانے سے حاصل ہوتی ہے۔ اصل میں یہ تصویر ہمارے دماغ کے اتنے حصے کی ایک ابتدائی شکل ہے جسے ہم سیری برم Cerebrum کہتے ہیں اور دراصل دماغ کا سب سے باھری اور سب سے اوپری حصہ ہوتا ہے۔سیری برم کے اوپر ایک پتلی سی کچھ ملی میٹر پتلی ایک تہہ جسکو سری برل کورٹیکس Cerebral Cortex کہتے ہیں، یا پھر مختصرا کورٹیکس کہا جاتا ہے، اسی تہہ کی بدولت دماغ کی جھریوں والی، تہہ در تہہ اور لجلجی سی شکل سامنے آتی ہے۔ (کورٹیکس لاطینی کا لفظ ہے جسکا مطلب چھلکا یعنی Barkہے)
دماغ کا سیربرم حصہ دو دائیں اور بائیں حصے نیم کروی Hemispheres حصوں میں تقسیم ہے، جو بنیادی طور پر ایک دوسرے کے متشہابہہ ہوتے ہیں، بلکہ آئینے کے عکس جیسے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بہرحال دونوں حصوں کی الگ الگ چند خصوصیات بھی ہیں، مثلا زیادہ تر افراد میں زبان اور بات چیت کو مکمل طور پر دماغ کا بایاں ہیمی اسفیر کنٹرول کررہا ہوتا ہے۔لیکن زیادہ تر دماغ کے دونوں حصے ایک جیسے ہی انسانی افعال ادا کررہے ہوتے ہیں۔ مثلا دماغ کے ہر حصے میں اعصاب پیغامات لے کر آرہے ہوتے ہیں اور دماغ ان پیغامات کے تحت پٹھوں اور حرکی اعصاب Motor Nerves کو اپنے جسم کے حصوں کے مطابق احکامات بھیج رہا ہوتا ہے۔
ہر ھیمی اسفیر کو چار اہم حصوں میں بانٹا گیا ہے، جنکو لوب Lobe کہا جاتا ہے۔ فرنٹل لوب Frontal Lobe، ٹمپورل لوب Temporal Lobe اوکی پیٹل لوب Occipital Lobe پیری ٹل لوب Parietal Lobe۔ عام طور اوکی پیٹل لوب تقریبا انسانی دماغ کے پچھلے حصے پر مشتمل ہوتا ہے، ٹمپورل لوب دماغ کے نچلے حصے پر مشتمل ہے، پیری ٹل لوب دماغ کے اوپری حصے پر اور فرنٹل لوب ، جیسا کہ نام بتاتا ہے دماغ کے سامنے یعنی ہمارے ماتھے کے پیچھے کا حصہ ہوتا ہے۔
دماغ کے ہر لوب کا متخلف نوعیت کا کردار ہے۔ مثال کے طور پر ٹمپورل لوب کا ہمارے جذباتی برتاؤ، یاداشت اور سننے (اور لہذہ بولنے) میں اہم کردار ہوتا ہے۔ دماغ کے اندر کے کچھ حصوں کو مشترکہ طور پر لمبک سسٹم Limbic System کہا جاتا ہے۔ یہ حصہ سائنسدان بتاتے ہیں کہ یاداشت اور سننے سے متعلق کام کو سرانجام دے رہا ہوتا ہے، اور زیادہ تر لمبک سسٹم ٹمپورل لوب کے آس پاس کا علاقہ ہوتا ہے۔ اوکی پیٹل لوب کا ابتدائی کام زیادہ طر بینائی سے متعلق ہوتا ہے، حالانکہ پیری ٹل لوب بھی بینائی سے متعلق افعال میں حصہ لیتا ہے۔ پیری ٹل لوب دوسری حسوں سے وصول ہونے والے پیغامات کو بھی موصول کرتا اور ان پر احکامات جاری کرتا رہتاہے، جیسے چھونے کی حس۔ آخر میں فرنٹل لوب ہماری بہت سی انسانی خصوصیات جیسےسوچنے سمجھنے کی صلاحیٹوں کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور اسکے علاوہ انسان کی شخصیت، عمل کرنے کی صلاحیت، قوت ِ فیصلہ، حرکت میں آنا، پرعزم ہونا، مقاصد اور منصوبہ بندی، بری کاموں کی رکاوٹ اور روک تھام، فیصلہ کرنا، کسی کو احساس دلانا اور بیرونی اثرات کو محسوس کرنا اور مناسب کام کرنا، اور دیگر چند چیزیں، یہ سب کی سب دماغ کے اس حصے میں افعال ہورہے ہوتے ہیں جسکو فرنٹل لوب کہا جاتا ہے۔
ان ساری معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دماغ کے مخصوص افعال کا بغور جائزہ لے سکتے ہیں۔ جیسے دماغ کا ایک حصہ جسے بروکا ایریا Broca’s Area کہتے ہیں، جو فرنٹل لوب (دماغ کا سامنے کا حصہ) کے الٹے ہاتھ کی طرف ہوتا ہے، جبکہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے دماغ کے سیدھے حصے میں پایا جاتا ہے، اسکا کام "آواز یا تقریرکرنے کی صلاحیت" سے ہوتاہے۔ اگر یہ حصہ کسی فالج یا کسی اور چوٹ سے متاثر ہوتا ہے تو ایک ایسی دماغی مرض لاحق ہوتا ہے جسے بروکا اپیسیا Broca’s Aphasia کہا جاتا ہے، اسکے سبب ایک مریض بالکل خاموش ہوجاتا ہے، حالانکہ اسکو تقریر یا بات چیت سمجھ میں آرہی ہوتی ہے لیکن وہ خود سے کوئی بات نہیں کرسکتا۔ اس دماغ کے علاقے کے ساتھ ہی ایک اور حصہ پایا جاتا ہے، جسے ورنیک ایریا Wernicke’s Area کہا جاتا ہےجو لیفٹ ٹمپرل لوب کے الٹے ہاتھ پر ہوتا ہے، اسکا کردار بروکا ایریاسے بالکل مخالف ہوتاہے۔یہ حصہ دماغ کی سمجھ تقریر کے دوران بولے گئے الفاظ کی یاداشت کے زریعے بڑھاتا ہے کہ کیسے الفاظ کو ادا کیا گیا۔ اگر اس حصے کو نقصان پہنچتا ہے تو، ایک ایسا دماغی مرض لاحق ہوتا ہے جسے ورنیک اپیسیا Wernecke’s Aphasia کہتے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد نہ تو کوئی تقریر سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ادا کئے الفاظ کا مطلب سمجھ سکتے ہیں، اور اگر کچھ بولیں گے تو بے معنی الفاظ منہ سے نکالیں گے (کیونکہ جو اس مرض کا شکار ہوجاتا ہے اسکی الفاظ سمجھنے کی یاداشت ختم ہوجاتی ہےاور اسکو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کررہا ہوتا ہے یا کچھ غلط بول رہا ہوتا ہےکہ دوسرے بالکل سمجھ نہیں پارہے)۔
دماغ کے بائیں نصف کرہ کے دوسرے حصے بات چیت و تبادلہ خیال کے دوسرے پہلوؤں کے لئے ضروری ہیں۔ اس ڈھانچے میں جو بائیں زاویہ والے جائرس کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں یہ ان یادوں پر مشتمل ہوتا ہے کہ الفاظ کی ہجے کس طرح کی جاتی ہے ، جبکہ سوپرمارجینال جائرس Supramarginal Gyrus تقریر کی آواز کو حرفوں میں تبدیل کرتا ہے)۔ ان سسٹموں کو پہنچنے والے نقصان ، جو دونوں ہی پیرئٹل لاب کے اندر ہیں ، کے نتیجے میں ہم پڑھنے یا لکھنے سے عاجز ہوسکتے ہیں ، اس خرابی کو بالترتیب الکسیہ اور ایگرافیا Alexia and Agraphia کہا جاتا ہے۔ (لیکن عجیب بات ہے کہ ان خطوں کو پہنچنے والے مخصوص قسم کے نقصانات والے کچھ لوگ لکھ سکتے ہیں لیکن پڑھ نہیں سکتے ہیں۔) ایسا لگتا ہے کہ بائیں جانب کا حصہ Gyrus ریاضی و حساب کی قابلیت میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں ، کیونکہ جو لوگ اس سے نقصان اٹھاتے ہیں وہ کبھی کبھی آسان حساب کتاب کرنے سے بھی قاصر ہوجاتے ہیں۔ . دماغ کےبائیں نصف کرہ پر موجود پوری زبان کے علاقے کو پہنچنے والے نقصان سے یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے گلوبل اففیسیا Global Aphasia کہتے ہیں ، جس میں مبتلا مکمل طور پر بات چیت اور تبادلہ خیال کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ اس سنڈروم پر مزید تفصیل سے بعد میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ہمارے تمام حسی ان پٹ کو دنیا کی مربوط تصویر میں مرتب کرنے کی صلاحیت دماغ کے جسمانی خطوں سے وابستہ ہے۔ ہمارے تمام حواسوں میں سب سے زیادہ تر اہم" نگاہ" ہے ، اور دماغ کسی دوسرے ان پٹ کے وسائل سے زیادہ بصری تاثر کی وصولیابی پر زیادہ وسائل وقف کرتا ہے۔ اوپپیٹل لوبس آنکھوں سے ان پٹ وصول کرتے ہیں۔ ان کے اندر کےسیل جو مخصوص گروپوں میں پائے جاتے ہیں و وژن کے مخصوص پہلوؤں جیسے رنگ ، کنارے ، شکل اور حرکت کا ڈیٹا پراسس اور اسکو سمجھنےاور ان پر عمل کرنے کے لئے مہارت حاصل رکھتے ہیں۔ اس کے بعد بصری نظام سے حاصل ہونے والی معلومات دو دھاروں میں تقسیم ہوجاتی ہے: اعلی پارلیٹل لوب parietal lobe's کا "جہاں" سسٹم ، جو ہمارے ماحول میں آبجیکٹ (جو چیز ہم دیکھتے ہیں) کے مقامی نقاط اور گھومنے پھرنے میں مدد کرتا ہے ، اور کمتر سیسیپیٹل اور وینٹرل ٹمپل لنز occipital and ventral temporal " کیا "سسٹم ، جو بتاتا ہے۔ ہمارے پاس یہ کیا ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں، مطلب کہ ہم کس چیز کو اور کہاں سے کیا چیز دیکھ رہے ہیں ۔ دوسرے علاقوں ، جیسے دائیں پیرئٹل لاب ، ہمارے اپنے جسم کے بارے میں حسی ادراک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس خطے کو پہنچنے والے نقصان سے واقعتا عجیب و غریب عارضہ پیدا ہوتا ہے جسے اسموٹومیٹوسیا asomatognosiکہتے ہیں ، جس میں مبتلا اپنے ہی جسم کو خود سے متعلق اور منسلک ہونے کی حیثیت سے بھی پہچاننے سے قاصر ہوتا ہے ۔کبھی کبھی دائیں جانب کے زاوئیے گیرس جودائیں پیرئٹل لاب کا ایک ذیلی ڈھانچہ ہے ،اس کا برقی محرک جسم سے باہر روح کے نکلنے جیسے مشاھدات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
پھربھی دماغ کے دیگر خطے شعور کے مختلف پہلوؤں کو کنٹرول کرتے ہیں جو بات چیت یا جسم کو گشت پر لے جانے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ بنیادی ہیں۔ اگرچہ دماغ کا بائیں نصف کرہ بنیادی طور پر زبان اور بات چیت کو سمجھنے کے لئے ذمہ دار ہے ، دائیں نصف کرہ بات چیت کے جذباتی پہلوؤں کو ثالث کرتا ہے ، جیسے کسی کی آواز کا لہجہ یا بولنے والے کے چہرے پر اظہار خیال کو سمجھنا۔ دائیں نصف کرہ کے پیرلیٹل اور دنیاوی لابوں کو پہنچنے والے نقصان سے انسان دوسروں میں جذباتی رویوں کو سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہے
ہمارے جذبات دماغ کے افعال سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بائیں نصف کرہ خوشی اور مسرت جیسے مثبت جذبات کے اظہار پر حکمرانی کرتا ہے ، جبکہ دائیں نصف کرہ بنیادی طور پر ناراضگی جیسے غم و غصے پر حکومت کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بائیں نصف کرہ کو نقصان پہنچاتے ہیں (زیادہ مستحکم دائیں نصف کرہ کو "انچارج" کرکے چھوڑتے ہیں) وہ اکثر شدید افسردگی کا شکار ہوجاتے ہیں ، لیکن دائیں نصف کرہ کو پہنچنے والے نقصان سے انسان جذباتی طور پر بھی لاتعلق رہ سکتا ہے ، یہاں تک کہ مستقل مزاج دماغ کے ایک حصے ، امیگدالا نامی amygdala لیمبیک نظام کا ایک حصے پر بجلی کی محرکات، انسان میں شدید خوف پیدا کرسکتے ہیں جبکہ دوسرے خطوں برقی رو کے محرکات بے قابو ہنسی اور خوشی کے جذبات پیدا کرسکتا ہے ، اور کسی تیسرے خطے کی محرک ، کسی انسان میں الگ تھلگ پن اور-بیزاری کا عمل پیدا کرسکتا ہے۔ متلی اور بیزاری لذت کے مستحکم احساسات کے احساسات ، اور کثرت سے ذہنی دباؤ میں کمی اور امید پرستی میں اچانک تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔
میموری جو کہ شعور کا ایک بنیادی پہلو ہے وہ دماغی افعال کے ساتھ بھی مضبوطی سے جکڑی ہوئی ہے۔ دماغ کا ایک چھوٹا سا علاقہ جس میں ہپپوکیمپس hippocampus کہلاتا ہے ، لیمبک نظام کے دیگر ڈھانچے کے علاوہ ، نئی حقیقت پسندانہ یادوں کی تشکیل کے لئے اہم ہے۔ اس کی تباہی سے انسان پر پڑنے والے اثرات اہمیت سے خالی ہرگز نہیں ہے۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا شعور یعنی ہمارا ذھن یہ کس دماغی لاب میں رہتا ہے؟ یہ نیورون اور انکے ملحقہ علاقوں کے درمیاں کہاں چھپا ہوا ہوتا ہے؟
سترہویں صدی میں ، فلسفی رینی ڈسکارٹس نے تجویز پیش کی کہ ہمارا مائنڈ یعنی ذھن (دوسرے لفظ میں شیعور Myself) دماغ سے pineal gland کے ذریعے بات چیت کرتا ہے ، ان کے مشاہدات کی بنیاد پر کہ یہ دماغ کے مرکز کے قریب واقع ہے اور دماغ کا واحد ڈھانچہ ہے جو جوڑا نہیں ہےبلکہ علیحدہ سے اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ ڈسکارٹس کی بدقسمتی سے ، آج ہم جانتے ہیں کہ پائنل غدود محض انڈوکرین نظام کا ایک حصہ ہے۔ اس کا بنیادی کام صرف میلانٹن melatonin پیدا کرنا ہے جو ایک ہارمون جو نیند سے بیداری اور واپس سونے کے چکروں کو باقاعدہ بناتا ہے اور دوسری چیزوں کے ساتھ قوت مدافعت کے نظام کو بھی متاثر کرتا ہے تو ہمارا شعور کہاں چھپا ہوا ہے؟ دماغ کے اجزاء کے ایک کے بعد ایک کے علاقہ کی دریافت نیورو سائنس کی تحقیقات کے لئے اپنے راز فاش کردیتا ہے ، لیکن اس مائنڈ کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں، جتنا ہمارے علم میں جتنی ترقی ہوگی ، اتنا ہی کم وجہ ہمارے پاس سمجھنا پڑے گا کہ یہ موجود ہے ، اور جتنا کم پائیدار دوہری حیثیت اختیار کرتا ہے، اتنی شائد ہی ہمارے جسم میں کوئی چیز نہیں۔ ہمارے پاس موجود تمام ثبوت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری کھوپڑی کے اندر ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو طبیعیات کے عام قوانین کی پابندی نہیں کرتی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانی دماغ کوئی حیرت انگیز یا عجوبہ کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے برعکس ، کچھ وجوہات کی بنیاد پراورکسی جواز کے ساتھ ، کائنات میں مادے کی سب سے پیچیدہ منظم شکل قرار دیا گیا ہے۔ اوسط انسانی دماغ میں ایک سو ارب نیوران ہوتے ہیں ، جو سیکڑوں کھربوں مقامات متصل کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ تو بہت ساری اس نظام کی پیچیدگی اتنی زیادہ ہے کہ اس کا حساب لگایا گیا ہے کہ نظریاتی طور پر ان ممکن دماغی علاقوں کی کل تعداد معلوم عالم کائنات میں ابتدائی ذرات کی تعداد سے زیادہ ہے۔ دماغ کی خام کمپیوٹیشنل طاقت کا تخمینہ 10 ٹریلین اور 10 کواڈریلین آپریشنز فی سیکنڈ کے درمیان ہے۔ (موازنہ کے لحاظ سے ، جاپان کا یوکوہاما میں ارتھ سمیلیٹر دنیا کے تیزترین سپر کمپیوٹرز میں سے ایک ، ہر سیکنڈ میں 36 ٹریلین حساب کتاب انجام دے سکتا ہے۔)
لیکن ہمارے دماغ کی افادیت سے پیدا ہونے والی باتوں سے پیدا ہونے والے ہمارے شعور سے ہم کوگھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے برعکس ، ارتقاء کی آگ نے دماغ کو حیرت انگیز پیچیدگی اور کمپیوٹیشنل طاقت کے انجن میں صرف کرنے کے لئے صرف چار ارب سال سے زیادہ وقت گذارے ہیں اور ہمیں ایک انوکھا اور انمول مراعات عطا کیا گیا ہے ، جو معلوم کائنات میں موجود کسی بھی چیز کے برعکس ایک تحفہ ہے۔ اس ورثے کو سمجھنے سے صرف ہماری ترقی ہی ہوسکتی ہے ، اور وہ لوگ جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ نامیاتی چمتکار توہم پرستی کے سائے کے زیر اثر اور اسکوختم ہوئے بغیر خود ہی کچھ حاصل نہیں کرسکتا ، وہ لوگ اپنے آپ کو اس طرح دھوکہ دے رہے ہیں کہ ایک عظیم معجزاتی چیز پر ایک کم حیرت انگیز پر تشبیہ دے رہے ہوتے ہیں۔ یقینا دماغ کا کام کرنا ایک جادو سے بڑھ کرہوتا ہے اور کسی توھمات کو سامنے رکھے بغیر آج جدید نیورو سائنس کی روشنی میں دماغ کی پیچیدگیوں کو ہم کسی جادو اور فرسودہ خیالات کے بغیر بھی سمجھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...