کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ انسان خوراک کی کمی کے بجائے اس کی زیادتی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انسان کو لاکھوں سال پہلے باقاعدہ خوراک نہیں ملا کرتی تھی۔ جب شکار مل گیا تو پیٹ بھر کے کھالیا، جب نا ملا تو بھوکے رہ جاتے تھے۔
انسانی جسم کے خلیوں نے خود کو اس صورتحال سے ایڈجسٹ کر لیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیں تو دو کھانوں کے درمیانی وقفے میں خلیے ارتقائی عمل کے دوران سیکھا گیا فریضہ سر انجام دینے لگتے ہیں اور اپنی اوورہالنگ کر لیتے ہیں جس سے ان میں پیدا ہونے والے نقائص ٹھیک ہوتے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اب intermittent fasting کا رواج بڑھ رہا ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں تاہم 18_6 کا فارمولا سب سے زیادہ مقبول ہے جس کے مطابق کھانے کے لیے آٹھ گھنٹے کا دورانیہ رکھا جائے اور سولہ گھنٹے بغیر کچھ کھائے گزارا کیا جائے۔ اس سے بیماریاں بھی دور رہتی ہیں اور انسانی عمر میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا ہے۔
اس شعبے میں کام کرنے والے سائنسدان ناشتے کو انسان کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں اور صرف لنچ اور ڈنر کو ترجیح دیتے ہیں۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر تیس سال کے بعد انسان صرف اسی فارمولے پر عمل کر لے تو اس کی عمر میں بیس پچیس برس کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
اسی سے جڑا ایک اور خیال بھی ہے جو بہت مقبول ہو رہا ہے۔ ہم جوانی کے بعد بوڑھاپے کو ایک فطری عمل سمجھتے ہیں لیکن کئی نامور سائنسی ریسرچرز کا کہنا ہے کہ بوڑھاپا دراصل ایک بیماری ہے جس کا علاج ممکن ہے۔ انسان کو زیادہ تر بیماریاں بوڑھاپے میں لگنا شروع ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر بوڑھاپے کا علاج کر لیا جائے تو ڈھیروں بیماریاں ویسے ہی دور ہو جائیں گی۔ کورونا جیسی وبائیں بھی زیادہ تر بوڑھے لوگوں کو شکار کرتی ہیں۔ اس لیے ان وباؤں سے بھی بڑی حد تک نجات مل جائے گی۔
یوں لگتا ہے کہ نسل انسانی ایک دوراہے پر کھڑی ہے اور اس رستے پر قدم رکھ چکی ہے جہاں دھیرے دھیرے طبعی موت کو پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ اس بات کا بھی غالب امکان ہے کہ اسی صدی کے آخر تک انسان موت کو ہی موت کے گھاٹ اتار دے۔
انسانی جسم کا کلاک دریافت ہو چکا، اس کلاک کو پہلے مرحلے میں سست کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ بوڑھاپے اور اس کے نتیجے میں موت کو پیچھے دھکیلا جا سکے۔
اب تک چوہوں پر کامیاب تجربات کیے جا چکے ہیں اور اب انسانوں پر یہ تجربات دہرانے کی تیاریاں شروع ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں اس ریسرچ پر بھاری رقوم خرچ کر رہی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس دن بریک تھرو مل گیا، وہ اپنا سرمایہ بھاری نفع سمیت وصول کر لیں گے۔
یہ بات اعدادوشمار سے ثابت ہو چکی ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں ترقی کی وجہ سے ہر دس سال بعد انسانوں کی اوسط عمر میں دو سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اب انسان اتنا طویل انتظار کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس لیے پہلے مرحلے میں عمر کے کلاک کو سست رفتار کیا جائے گا جس سے اوسط عمر سو سال سے اوپر پہنچ جائے گی۔
اس سے اگلے مرحلے میں اس کلاک کو ریورس کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کی کاوشیں کی جائیں گی۔ نظری طور پر عمر کے کلاک کو ریورس کرنا ممکن ہے لیکن اس کے لیے طویل ریسرچ کی ضرورت ہے۔ بہت حد تک اس بات کا امکان موجود ہے کہ اسی صدی کے دوران یہ ممکن ہو جائے گا۔
اس میں کامیابی کے بعد انسان بوڑھا نہیں ہوا کرے گا بلکہ جب چاہے گا وہ اپنی بائیولوجیکل عمر اپنی مرضی سے پیچھے کر سکے گا۔
اس پیش رفت کے بہت سے پہلو ہیں جنہیں ایک مختصر آرٹیکل میں مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔ تاہم اب تک جو بھی ریسرچ ہو چکی ہے اس کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ 2050 تک زندہ رہ جائیں گے، ان کا کچھ حصہ ڈیڑھ سو سال تک کی عمر پا سکے گا۔
البتہ جو بچے اب پیدا ہوئے ہیں ان کی بڑی تعداد طبعی موت اور بوڑھاپے کے خوف سے نکل آئے گی۔ فنا کو فنا کر دیا جائے گا اور بقا دائمی صورت اختیار کر جائے گی۔
اس وقت تک کے لیے اگر زندہ رہنا ہے تو بھوکا رہنا سیکھ لیں۔ صرف ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے تنگی ہو گی اس کے بعد جسم خود کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کر لے گا۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ دن میں تین بار کھانا عمر گھٹا دیتا ہے۔ یہ بات سائنسی طور پر ثابت ہو چکی ہے۔ استثنائی مثالیں مل سکتی ہیں لیکن اصولی طور پر دو وقت کا کھانا بہت ہے۔ ساتھ ساتھ ہفتے میں کم از کم تین بار ورزش بھی ضروری ہے تاکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسل مضبوط رہیں۔
نوٹ: جو لوگ طویل عمر کی خواہش نہیں رکھتے وہ اس موضوع کو نظر انداز کر لیں البتہ جنہیں اس موضوع میں دلچسپی ہے وہ یوٹیوب پر یا ویب سائیٹس پر تلاش کریں تو ڈھیروں مواد مل جائے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...