کیا ہم کائنات میں تنہا ہیں؟ یا ہم کائنات کی کسی اور چیز سے جڑے ہوئے ہیں – پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک ممالیہ نوع ہیں جو حال ہی میں ارتقاء پذیر ہوئی ہے – لیکن ہم اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ ہم یوٹیوب ویڈیو بنا سکتے ہیں اور لارج ہیڈرون کولائیڈر جیسی پیچیدہ مشینیں بنا سکتے ہیں – ہم ایٹم کو توڑ چکے ہیں اور ویڈیو گیمیں ایجاد کر چکے ہیں – ہم ایک قدیم نوع سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں جو اب سے ساڑھے تین ارب سال پہلے زمین پر نمودار ہوئی – ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس زمین پر حاکم ہیں اور ہر چیز ہمارے کنٹرول میں ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے – ایک بڑا شہابیہ یا ایک مہلک وائرس ہمیں ختم کرنے کے لیے کافی ہے – ہم بعض اوقات یہ کہتے ہیں کہ انسان اس زمین کو تباہ کر سکتا ہے لیکن ہمارے تمام جوہری ہتھیار مل کر بھی زمین سے زندگی کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پائیں گے – تمام انسانی ایجادیں مل کر شاید زیادہ سے زیادہ دنیا کی 90 فیصد انواع کو ختم کر سکتے ہیں – لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا جو چند لاکھ یا چند کروڑ سالوں میں ہزاروں قسم کی نئی انواع ارتقاء پذیر ہو جائیں گی –
زمین کے زیادہ تر بیکٹیریا سطح زمین کے نیچے رہتے ہیں – ایٹمی دھماکوں سے ان بیکٹیریا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا – اگر ہم کروڑوں سالوں پر محیط وقت کو دیکھیں تو زمین پر ہمارا اثر مضحکہ خیز حد تک کم ہے – ہم اتنے زیادہ طاقتور نہیں ہیں جتنا ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں – ہم ایک معمولی سے سیارے پر رہتے ہیں جو تیز رفتاری سے ایک پلازمہ بھرے ستارے یعنی سورج کے ساتھ خلا میں سفر کر رہا ہے – ایک دن یہ سورج حرارت پیدا کرنا بند کر دے گا اور زمین پر زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا – اگر ہم سورج کی موت کو برداشت کر لیں اور کہکشاں کے دوسرے علاقوں میں پھیل جائیں تو اصولاً ہماری نوع اس وقت تک زندہ رہ سکتی ہے جب تک کائنات کا آخری ستارہ گل نہ ہو جائے – اس کے بعد کائنات میں کسی بھی زندگی کا وجود قریب قریب ناممکن ہو جائے گا –
چنانچہ ہر شے کو آخر کار فنا ہونا ہے – ان سب کا آپ سے کیا تعلق ہے؟ آپ کی زندگی کے آغاز کے وقت تقریباً آدھ گھنٹے کے لیے آپ اپنی والدہ کی کوکھ میں محض ایک خلیہ تھے جس کا قطر محض 0.1 ملی میٹر کے لگ بھگ تھا – آج آپ کے جسم میں تقریباً 50 کھرب خلیے ہیں – ان میں سے ہر خلیہ ایک انتہائی پیچیدہ حیاتیاتی مشین ہے جو ایک بیکٹیریم سے کہیں زیادہ بڑی اور پیچیدہ ہے – یہ مشینیں یعنی خلیے فزکس اور کیمسٹری کے قوانین کے تحت کام کرتے ہیں اور مزید چھوٹی مشینیں استعمال کر کے خوراک کھاتے ہیں، پروٹین بناتے ہیں، توانائی پیدا کرتے ہیں، وسائل کی ترسیل کرتے ہیں، آپس میں پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں اور نئی نسل پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں – یہ خلیے اپنی کاپیاں بناتے ہیں، ضرورت پڑنے پر خودکشی کر لیتے ہیں، بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی مخصوص ذمہ داریاں نبھاتے ہیں تاکہ آپ کو زندہ رکھ سکیں اور آپ اپنی اگلی نسل پیدا کر سکیں –
لیکن اگر آپ کھربوں خلیوں سے مل کر بنے ہیں تو خلیوں کے اس جمگھٹے میں 'آپ' کہاں ہیں – آپ کے بارے میں بنیادی انفارمیشن آپ کے ڈی این اے میں محفوظ ہے – ڈی این اے ایک مالیکیول ہے جو ان جینیاتی ہدایات پر مشتمل ہوتا ہے جو زندگی کی تمام انواع کی تشکیل میں استعمال ہوتی ہیں – اگر ڈی این اے کو کھول کر ایک لڑی کی صورت میں رکھا جائے تو یہ دو میٹر لمبی لڑی بنے گی – اگر آپ اپنے جسم کے ہر خلیے میں موجود ڈی این اے مالیکیول کو ایک ہی لڑی میں پرو دیں تو یہ لڑی اتنی لمبی ہو گی کہ یہ پلوٹو تک جا کر واپس زمین پر پہنچ جائے – یہ فاصلہ 15 ارب کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے – آپ کا ڈی این اے آپ کے اور آپ کے پہلے جد کے درمیان ایک بلاواسطہ کنکشن ہے – اس حقیقت پر ذرا تحمل سے غور کیجیے – آپ کے جسم کے ہر خلیے میں ایک لڑی ہے جو 3.4 ارب سالوں سے کم و بیش اسی حالت میں موجود رہی ہے – یہ درست ہے کہ اس دوران اس میں بے انتہا میوٹیشنز ہوئیں اور اسے غالباً کھربوں دفعہ کاپی کیا گیا لیکن یہ آپ کے اور دنیا میں حیات کے پہلے خلیے کے درمیان ایک بلاواسطہ تعلق پیدا کرتی ہے – اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اپ میں آپ سے پہلے آنے والی ہر نسل کے جسم کا ایک حصہ موجود ہے گویا آپ اپنے ڈی این اے کی بدولت اپنے تمام اجداد کو چھو رہے ہیں –
لیکن آپ محض ڈی این اے کی ایک لڑی ہی نہیں ہیں – آپ کا جسم کھربوں کھرب ایٹمز سے مل کر بنا ہے یعنی آپ کے جسم میں تقریباً سات ارب ارب ارب ایٹمز ہیں – اس ہندسے کو لکھیں تو 7 کے بعد 27 صفر ڈالنا ہوں گے – انسانی جسم کا 93 فیصد حصہ صرف تین عناصر پر مشتمل ہے یعنی آکسیجن کاربن اور ہائیڈروجن – آکسیجن اور ہائیڈروجن تو زیادہ تر پانی کی صورت میں ہیں اور پانی ہمارے جسم کا 60 فیصد حصہ ہے – انسانی جسم کا سب سے اہم جزو کاربن ہے – کاربن بہت سے دوسرے ایٹمز کے ساتھ بہت آسانی سے بانڈز بنا سکتا ہے جس وجہ سے کاربن بہت سے پیچیدہ اور لمبے مالیکیولز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جن کی مدد سے اپ کے جسم کے ٹھوس حصے تشکیل پاتے ہیں – باقی سات فیصد حصے میں بہت سے دوسرے عناصر ہیں – یوں سمجھیے کی پورے کا پورا periodic table آپ کے جسم میں موجود ہے – نائٹروجن، کیلشیم، فاسفورس، پوٹاشیم، سلفر، سوڈیم، کلورین، میگنیشیم، آئرن، فلورائن، زنک، کاپر، آیوڈین، سیلینیم، کرومیم، مینگانیز، مالیبڈنم، کوبالٹ، لیتھیم، سٹرانشیم، ایلومینیم، سیلیکون، لیڈ یعنی سیسہ، وینڈیم، آرسینک اور برومائن – اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے جسم کا اعشاریہ پانچ فیصد حصہ دھاتوں پر مشتمل ہے
یہ عناصر جسم میں بہت سے مختلف کام سرانجام دیتے ہیں – مثال کے طور پر یہ آکسیجن کی نقل و حمل میں کام آتے ہیں، ہڈیوں اور خلیوں کی تعمیر میں مدد دیتے ہیں، نیورونز کے سگنلز کی ترسیل کرتے ہیں، اور بہت سے دوسرے کیمیائی تعاملات میں حصہ لیتے ہیں – آپ کے جسم میں لاکھوں کیمیائی تعاملات ہر لمحہ ہوتے رہتے ہیں – ہر سولہ دن بعد آپ کے جسم کے 75 فیصد ایٹم تبدیل ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے ایٹم لے لیتے ہیں کیونکہ اس عرصے میں ایک صحت مند انسان جسم کا تقریباً تمام پانی خارج کر دیتا ہے اور اس کی جگہ پانی کے نئے مالیکیول لے لیتے ہیں – ہر سال آپ کے جسم کے 98 فیصد سے زیادہ ایٹمز تبدیل ہو جاتے ہیں – اور پانچ سالوں میں یہ تعداد سو فیصد تک پہنچ جاتی ہے – چنانچہ آپ اپنے آپ کو ایٹمز کا ایک عارضی مجموعہ کہہ سکتے ہیں –
لیکن یہ ایٹم آئے کہاں سے ہیں؟ بگ بینگ کے بعد جب کائنات کا درجہِ حرارت اتنا کم ہو گیا کہ ایٹمز کا بننا ممکن ہو گیا تو اس وقت کائنات میں صرف ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے عناصر موجود تھے – ان گیسوں کے عظیم الجثہ بادل بن گئے اور اپنی کششِ ثقل کی وجہ سے سکڑنے لگے یہاں تک کہ وہ اتنے چھوٹے ہو گئے کہ ان کے مرکز میں فیوژن ری ایکشن ہونے لگا اور یوں کائنات کے پہلے ستاروں نے جنم لیا – ان ستاروں کے مرکز میں انتہائی شدید درجہِ حرارت اور دباؤ کی وجہ سے ہائیڈروجن کے مرکزے ہیلیئم کے مرکزوں میں تبدیل ہونے لگے – لاکھوں کروڑوں سال بعد ان ستاروں کی ہائیڈروجن ختم ہو گئی اور ستارے سپر نووا ہو کر معدوم ہونے لگے – ان ستاروں کے پھٹنے کے عمل میں پیچیدہ عناصر کے مرکزے وجود میں آئے اور آس پاس سپیس میں بکھر گئے جبکہ ان ستاروں کے مرکزی حصے منہدم ہو کر بلیک ہولز یا نیوٹران ستاروں کی شکل اختیار کر گئے – یہ تمام عناصر خلا میں سفر کرتے کرتے ہائیڈروجن کے نئے بادلوں تک پہنچے جن کی وجہ سے یہ بادل بھی ستارے بن کر چمکنے لگے – انہی میں سے ایک ستارہ ہمارا سورج بھی تھا – یعنی جو عناصر کبھی مختلف ستاروں میں تھے ان کی باقیات سے سیارے اور زمین کی تشکیل ہوئی جہاں ان عناصر کے پیچیدہ مالیکیولز میں تبدیل ہونے سے زندگی کا آغاز ہوا – چنانچہ ہمارا کائنات کے پہلے ستاروں سے براہِ راست تعلق موجود ہے – ہم اس کائنات کا حصہ ہیں – یہ حقیقت حیرت انگیز ہے کہ ہم اگرچہ بہت چھوٹے ہیں لیکن اس عظیم کائنات کا ایک حصہ ہیں – ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ اس سب کا مطلب کیا ہے یا اس کا کوئی مطلب ہے بھی یا نہیں – لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہم ننھے منے ایٹمز سے مل کر بنے ہیں جو ہمیں کائنات کی ہر دوسری چیز سے براہِ راست ملاتے ہیں – کیا یہ ایک عمدہ سوچ نہیں ہے کہ آپ اس کائنات میں اکیلے نہیں ہیں – آپ کبھی بھی اکیلے نہیں تھے اور نہ کبھی مستقبل میں اکیلے ہوں گے – آپ ہمیشہ تمام کی تمام کائنات کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور رہیں گے