مارچ 2013ء کی تیرہ تاریخ تھی۔ سہ پہر کے اڑھائی بجے چودھری حمید کو اطلاع ملی کہ اس کے بڑے بھائی کو مری میں دل کا دورہ پڑا ہے۔ وہ اس وقت راولپنڈی صدر کے ایک بینک میں بیٹھا اپنی روزمرہ کی ملازمت نمٹا رہا تھا۔ وہ اٹھا۔ موبائل پر بیوی کو گھر اطلاع دی۔ اپنے افسر کو بتایا اور بینک سے باہر نکل آیا۔ ویگنوں کے اڈے پر پہنچا تو خوش قسمتی سے مری کی ویگن تیار تھی۔ اس نے ٹکٹ لیا اور بیٹھ گیا۔ ذہن پر دبائو اتنا شدید تھا کہ جسم سے توانائی سلب ہوگئی تھی۔ اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے جتنی دعائیں یاد تھیں، پڑھنے لگا۔ دل تھا کہ اچھل کر باہر آنا چاہتا تھا۔ والد کے بعد اس کا بڑا بھائی ہی تھا جس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ویگن کو پر لگ جائیں اور وہ اڑ کر بھائی کے پاس ہسپتال پہنچ جائے لیکن ویگن ٹریفک کے ہنگاموں سے معاملات طے کرتی‘ اپنی رفتار سے رواں تھی۔
ٹھیک اسی دن، اڑھائی بجے ملک ارشد اپنی کار پر مری سے روانہ ہوا۔ اس نے اسلام آباد کے چک لالہ ائیرپورٹ سے کراچی کا جہاز پکڑنا تھا۔ اگلی صبح کراچی میں اس کی کاروباری مصروفیت تھی۔ اس نے وقت کا حساب اس طرح کیا تھا کہ پرواز کے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے ائیرپورٹ پر پہنچ جائے۔ اس کے کاروباری پارٹنر نے کراچی ائیرپورٹ سے اسے لینا تھا اور ہوٹل میں پہنچانا تھا۔
آپ مری سے آئیں تو اسلام آباد سے پہلے کنونشن سنٹر پڑتا ہے۔ کنونشن سنٹر سے پہلے، شاہراہ کے بائیں طرف ایک تفریحی پارک بنایا گیا ہے جسے لیک ویو پارک کہتے ہیں۔ چودھری حمید جس ویگن میں سوار، سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے دعائیں پڑھ رہا تھا، اس ویگن کو لیک ویو پارک سے پہلے ٹریفک پولیس نے روک لیا۔ سڑک کے عین درمیان میں پولیس کے اہلکار نے ایک لمبا سا موٹرسائیکل افقی انداز میں یوں کھڑا کر رکھا تھا کہ سڑک بلاک ہوگئی تھی۔ ویگن رک گئی۔ اس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں بھی رک گئیں۔ پانچ منٹ کے اندر اندر، ویگن کے پیچھے سینکڑوں کاروں، ویگنوں، بسوں، ٹرکوں، سوزوکیوں، موٹر سائیکلوں کی میلوں لمبی قطار وجود میں آچکی تھی۔
ملک ارشد کی کار چھتر کی بلندی سے اتری، بارہ کہو کو عبور کرتی لیک ویو پارک کے قریب پہنچی تو ٹریفک پولیس نے اسے بھی روک لیا۔ ایک سرکاری موٹرسائیکل، افقی انداز میں، اس شاہراہ پر بھی یوں پارک کیا گیا تھا کہ راستہ پوری طرح بلاک ہوگیا تھا۔ چند منٹوں میں ملک ارشد کی کار کے پیچھے بھی گاڑیوں کی طویل قطار کھڑی تھی۔
ٹریفک رکی رہی۔ چودھری حمید سیٹ پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ پریشانی کی انتہا میں اس پر متلی کے دورے پڑ رہے تھے۔ کیا وہ اپنے بھائی کو زندہ دیکھ سکے گا؟ ویگن کب چلے گی؟ رکی ہوئی ٹریفک کب رواں ہوسکے گی؟ ملک ارشد شاہراہ کے دوسری طرف بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔ وقت گزر رہا تھا۔ ٹریفک بند تھی۔ ہر طرف گاڑیوں کا سمندر تھا۔ کیا وہ جہاز کے وقت پر پہنچ پائے گا؟ اگر وہ کل میٹنگ اٹنڈ نہ کرسکا تو اسے لاکھوں کا نقصان ہوگا۔ سردی کے باوجود اس کی پیشانی پسینے سے تر ہوگئی۔ اس نے نکٹائی کی گرہ ڈھیلی کی، بوتل سے پانی کا گھونٹ پیا اور سیٹ کی پشت پر ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
یہ سارے چودھری حمید، یہ سارے ملک ارشد ٹریفک کے قید خانے میں اس لیے قید کر دیے گئے تھے کہ مملکت خداداد پاکستان کی حکومت کے سربراہ لیک ویو پارک میں تشریف لارہے تھے۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت والے ملک کے حکمران کے لیے ٹریفک رک سکتی ہے لیکن وقت نہیں رک سکتا۔ ٹریفک قید خانے میں کھڑی ہوتی ہے نہ روشندان نہ دروازہ۔ چودھری حمید اور ملک ارشد آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے۔ ان کے بھائی ہسپتالوں میں مر جاتے ہیں۔ ان کے جہاز نکل جاتے ہیں۔ حاملہ عورتیں بچے شاہراہوں پر جنم دے دیتی ہیں۔ طالب علم کمرۂ امتحان میں نہیں پہنچ پاتے۔ کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
اس دردناک موضوع پر اس کالم نگار کی یہ پہلی تحریر نہیں۔ یہ کالم نگار کس کھیت کی مولی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سینئر کالم نگار ہو جس نے اس موضوع پر نہ لکھا ہو لیکن ضیاالحق سے لے کر پرویز مشرف تک۔ نوازشریف سے لیکر بینظیر تک اور آصف علی زرداری سے لے کر یوسف رضا گیلانی اور پرویزاشرف تک۔ کسی حکمران نے لوگوں کو اس عذاب سے رہائی نہیں دی۔ غلامی کی یہ بدترین قسم آج بھی پاکستان میں رائج ہے۔ بے بس بے کس خلق خدا کو جانوروں کی طرح روک لیا جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس والے جس لہجے میں انہیں روکتے ہیں، چرواہے اپنے ڈھور ڈنگروں کو اس سے نرم تر لہجے میں پکارتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم نے لندن کی ٹریفک کے سربراہ سے درخواست کی تھی کہ جب اسے غیر ملکی مہمانوں سے ملاقات کرنے کیلئے دارالعوام سے اپنی سرکاری قیام گاہ آنا ہوتا ہے تو تاخیر ہوجاتی ہے۔ کیا وہ دس منٹ کے لیے ٹریفک کو متبادل راستے پر لے جا سکتا ہے؟ ٹریفک کے سربراہ نے معذرت کرتے ہوئے گرُ کی بات وزیراعظم کو یہ بتائی کہ حضور! آپ دس منٹ پہلے دارالعوام سے نکل آیا کیجئے۔
سکینڈے نیویا کے ایک ملک میں ایک وزیر کو قتل کردیا گیا۔ مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لیے حکومت کے سارے ستون سر جوڑ کر بیٹھے۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ سکیورٹی اقدامات مزید نہیں اٹھائے جاسکتے۔ جتنے ہیں اتنے ہی رہیں گے۔ جس نے سیاست میں آنا ہے، سوچ لے۔ خطرات اس میدان میں واضح ہیں۔ قوم کا مزید روپیہ سکیورٹی پر خرچ نہیں کیا جاسکتا!
خلق خدا پر یہ عذاب صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کی شاہراہوں پر نہیں برس رہا۔ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہوسکتا ہے مظفر آباد، سکردو اور گلگت میں بھی ایسا ہی ہورہا ہو۔ صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ اس مقابلے میں وفاقی حکمرانوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں۔
ایک امید باقی ہے۔ صرف ایک امید۔ کیا عمران خان پاکستانی عوام سے وعدہ کرسکتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو اپنے لیے روٹ نہیں لگوائیں گے اور کسی اور کو بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے؟؟؟