کیا عمران خان تبدیلی لا پائیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے پانچ دن ترکی میں گزرے۔پاکستان کی معروف چیریٹی آرگنائزیشن ”الخدمت “کے وفد کے ساتھ استنبول سے غازی انتب اور شانلاعرفہ کے شہروں کا سفر کرنا پڑا۔الخدمت پاکستان میں مختلف خیراتی پراجیکٹس کر رہی ہے، سیلاب اور زلزلے جیسی آفات میں ستم زدگان کی مدد کو پہنچنے کے علاوہ ،تھر میں پانی کی فراہمی کے منصوبوں سے لے کر شمالی علاقوں میں محصور لوگوں کی مدد تک یہ ہر جگہ پہنچتے اور اپنی بساط کے مطابق لوگوں کے کانٹے چننے کی کوشش کرتے ہیں۔الخدمت پچھلے چند برسوں سے یتیم بچوں کے لئے” آغوش “کے نام سے ادارے بنا رہی ہے۔ پاکستان میں کئی آغوش مراکز کام کر رہے ہیں، اب الخدمت نے ترکی میں شامی یتیم بچوں کی کفالت کے لئے ایک آغوش مرکز قائم کیا ہے۔یہ وفد اسی سلسلے میںوہاں گیا تھا۔آغوش کا یہ مرکز شامی سرحد سے قریب واقع ترک تاریخی شہر غازی انتب میں بنایا گیا ہے۔ ہمارے پاس وقت کم تھا اور پروگرام خاصا بھرپور، اس لئے مسلسل سفر کرنا پڑا۔ اس پر ان شااللہ لکھوں گا، مگرنوٹس سردست دستیاب نہیں۔سامان ترک ائیرلائن کی مہربانی سے جہاز کے ساتھ لاہور نہیں پہنچ پایا، میری نوٹ بک اسی میں ہے۔استنبول میں ترک حکمران جماعت آق پارٹی کے دفتر کا دورہ بھی کیا، استنبول کے نائب صدر سے ملاقات ہوئی، جو یوتھ ونگ کے سربراہ بھی ہیں۔خاصی دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں، طیب اردوان کے طرز سیاست کو سمجھنے میں مدد ملی۔الخدمت ایک طرح سے جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم ہے، جماعت کے لوگ ہی اسے چلاتے اور بطور والنٹیئر کام کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ وفد میں بعض ساتھی ایسے تھے، جو سیاست میں متحرک رہے ہیں، حالیہ الیکشن میں بھی وہ فعال رہے، ان سے انتخابات اور جماعت اسلامی کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے گپ شپ ہوتی رہی۔ کوشش کروں گا کہ ان سب پر کچھ نہ کچھ لکھا جائے، آج کے کالم کا موضوع مگر مختلف ہے۔
پانچ دن پہلے لاہور ائیر پورٹ سے روانہ ہوا تو اپوزیشن بڑے جارحانہ موڈ میں تھی۔ مولانا فضل الرحمن خاص طور سے گویا انگارے چبا کر گفت گو فرما رہے تھے ۔ یوں لگتا تھا جیسے انہوں نے اپنی آبائی شہر کی دونوں نشستوں سے شکست کو دل پر لے لیا ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ الیکشن کے پورے پراسیس کو کالعدم کر کے دوبارہ الیکشن کرا دیں اور ان غلطیوں سے گریز کریں جن کی وجہ سے انہیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ترکی میںنیٹ پر اخبار دیکھنے کا زیادہ وقت نہیں مل سکا۔ اب واپسی پر اخبارات دیکھے ۔ لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے رہنماﺅں کی عملیت پسندی غالب آئی اور مولانا فضل الرحمن کی سبوتاژ کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ویسے تو مولانا سمجھدار آدمی ہیں، انہیں بھی سمجھ آ گئی ہوگی کہ سسٹم میں رہ کر کچھ حاصل ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں۔اس وقت قوم میں زیربحث اپوزیشن کی کارکردگی یا پوٹینشل نہیں بلکہ ملین ڈالر سوال یہی ہے ،” کیا عمران خان ڈیلیور کر پائیں گے یا ایک اور سپنا پاش پاش ہو جائے گا؟“
عمران خان کے حوالے سے کچھ کہنا آسان نہیں، ان کی سیاست کے مختلف دور ہم سب کے سامنے ہیں۔ وہ ایسے شخص نہیں جو اپنی خامیاں
چھپا کر رکھ سکیں ۔ سیاست سے معمولی دلچسپی رکھنے والا بھی عمران کی مثبت ، منفی خصوصیات کو سمجھتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو زیادہ دل خوش کن منظر موجود نہیں۔ اپوزیشن رہنما کے طور پر عمران خان ایک جارح مزاج، تیز جملے اچھالنے والے، عجلت پسند، اپنی بات دل میں نہ رکھنے والے ، مردم شناسی سے کوسوں دور، کمزور اور اوسط درجے سے کم اہلیت والوں کو دوست بنانے والے انسان نظر آتے ہیں۔ کرکٹ کی اصطلاح میں ایک ہارڈ ہٹر بلے باز جو وکٹ پر سیٹ ہوئے بغیر اندھا دھند چھکے ، چوکے لگانے لگ جائے یا ایسا تند خو فاسٹ باﺅلر جو اپنی تمام انرجی مخالف بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑانے میں لگا دے ،نتائج سے بے پروا ہو کر جو تیز رفتار باﺅنسر پھینکے اور سوئنگنگ یارکرز سے دفاع توڑ دے ۔ ایک بالغ نظر ،کامیاب حکمران کی کیمسٹری مگر یکسر مختلف ہوتی ہے۔ ایک اچھے بلے باز کی طرح جو وکٹ پر کچھ وقت گزارتا، گیندوں کو میرٹ پر کھیلتا اور یوں سلیقے سے رنزبناتا ہے کہ مخالف ٹیم اسے روک نہ پائے یا پھر ایک ایسا سمجھدار باﺅلر جوبلے باز کو پریشان کرنے یا ڈرانے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اس کا تمام تر فوکس آﺅٹ کرنے پر رہتا ہے۔
الیکشن کے بعد جو چنددن گزرے ہیں، وہ خوشگوار حیرت لے کر آئے ہیں۔ وہ عمران خان جو سوچے سمجھے بغیر بولنے کا عادی تھا، ٹی وی چینلز سے دور رہناجس کے لئے شائد ممکن ہی نہیں رہا، اس کے ہر فیصلے کی خبر دنیا بھر کو ہوتی ، آج وہ عمران بدل چکا ہے۔ الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد یہ توقع تھی کہ وہ جلد کسی چینل پر آ کر فاتحانہ تقریر کرے گا۔بعض چینلز کے اینکر حضرات سے اس کے تعلقات گہرے ہیں،اندازہ تھا کہ ان کے مجبور کرنے پر عمران فون پر ہی کچھ گفتگو کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ ایسا مگر کچھ نہیں ہوا۔پندرہ سولہ گھنٹوں کے بعد اس نے چند منٹ کی گفتگوکی۔ عاجزی اور ذمہ داری کا بوجھ جس سے جھلک رہا تھا، ایک جامع، مبسوط ، ٹودی پوائنٹ اور نہایت مثبت تقریر۔ اس کے بعد وہ کیمرے کی آنکھ سے بالکل اوجھل ہوگیا۔ کوئی یقین کر سکتا ہے کہ عمران خان گیارہ روز سے بنی گالہ میں بیٹھاحکومت چلانے کی پلاننگ میں جتا ہے۔پارٹی رہنماﺅں سے گھنٹو ںمشاورت ، مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں ، ماہرین سے گفتگو ، اور یہ سب کچھ نہایت خاموشی سے منظر پر آئے بغیر کیا جائے ۔میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے پتے سینے کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں اور کسی کوارادے کی خبر نہیں ہونے دیتے۔ عمران خان کے تو نجی معاملات کی تفصیل چینلز پر نشر ہوجاتی تھی۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ عمران خان اپنے تمام راز سینے میں پوشیدہ رکھے ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ کون ہوگا، خیبر پختون خوا میں کسے موقعہ دیا جا رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب پہلے سے مختلف اور نہایت مثبت ہے۔ لیڈر کو اور خاص کر حکمران کو ایسا ہی گہرا ہونا چاہیے۔ وہ اپنے راز محفوظ رکھ سکے ، مخالفوں کو سرپرائز دے اور سلیقے کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلے کرے ۔عمران خان وزیراعظم کا حلف اٹھا لینے کے بعد کیا کرتے ہیں ، ہمیں اس کا اندازہ جلد ہوجائے گا، مگر جو اشارے سردست مل رہے ہیں، وہ خوش آئند ہیں۔
مجھے اندازہ ہے کہ عمران خان پرمشوروں کی بارش کس انداز میں جاری ہوگی،ہر حلقے سے تجاویز دی جارہی ہیں، چاہے وہ قابل عمل ہوں یا نہیں۔ اس جملے کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالئے کہ میں آنے والے وزیراعظم کو مشورہ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایک عدد فہرست ہمارے پاس بھی ہے،اس پر لکھوں گا، مگر اس وقت جب عمران خان وزیراعظم کا حلف اٹھالے۔ اتنی رعایت دینے کو ہماری نرم مزاجی پر محمول کیا جائے۔ سردست تو تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں اور عمران کے فینز کو مشورہ دینے کا جی چاہ رہا ہے۔دراصل عمران خان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوچکی ہیں۔ اسے پسند کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ پاکستان جیسے ممالک کا نظام کچھ ایسے شیطانی انداز میں تشکیل کیا جاتا ہے کہ آسانی سے اسے بدلنا بھی ممکن نہ رہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد عمران کوا ندازہ ہوجائے گاکہ اصلاحات لانے کی بات کرنا کس قدر آسان اور ان پر عمل پیرا ہونا کتنا مشکل ہے۔ اس کا واسطہ ایک طاقتور، تجربہ کار اور خطرناک اپوزیشن سے ہے، جنہیں خدشہ ہے کہ اگر عمران خان کامیاب ہوگیا تو ان کی روایتی سیاست کا خاتمہ ہوجائے گا۔ عمران خان کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ بیورو کریسی پر اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ سرکش گھوڑا سوار کو گرانے میں دیر نہیں لگاتا۔ عمران خان کو اپنی پارٹی پر بھی مضبوط گرفت رکھنا ہوگی۔ گزشتہ روز کراچی کے ایک رہنما نے ایسی تقریر کر ڈالی جس سے متحدہ کے ساتھ بیل منڈھے چڑھنے سے پہلے ہی مر جاتی۔ان صاحب نے یہ بھی نہ سوچا کہ پارٹی کوشش کر کے اتحاد بنا رہی ہے اور وہ چند کارکنوں کو خوش کرنے کے لئے دھواں دھار تقریر فرما رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماﺅں کو ڈسپلن میں لانا ہوگا۔ ان کی حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ اندر سے ہے۔ تحریک انصاف کے نوجوان انصافین اپنے رہنماﺅں پر بھی کڑی نظر رکھیں اوراپنے قائد کو کچھ سپیس اور مناسب وقت دیں۔ چند ماہ کا ہنی مون پیریڈ تو ہر حکمران کو دیا جاتا ہے، عمران خان اس سے مستثنیٰ نہیں۔ حکومت سازی کا انہیں تجربہ بھی نہیں، شروع میں کچھ غلطیاں کریں گے، تب ہی سیکھنے کا عمل شروع ہوگا۔ تحریک انصاف کے تجربہ کار لوگوں کو عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی کو کابینہ میں شامل ہو کر ہاتھ بٹانا چاہیے۔ اگر وہ وزیرخارجہ بن جائیں توحکومت کی مشکلات کچھ کم ہوجائیں گی۔ اسی طرح پرویز خٹک تجربہ کارسیاستدان ہیں، انہیں مرکز میں رکھنا درست فیصلہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ بہت اہم اور نازک ہے۔ عمران خان یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ گورنروں کی تعیناتی بھی اہم ہوگی۔ اس حوالے سے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے پڑیں گے، ہارے ہوﺅں کو صوبوں پر مسلط کرنا کسی طور درست نہیں رہے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔