کیا عمران خان کو وزیراعظم کا عہدہ قبول کرنا چاہیے؟
ہم ناول کیسے لکھتے ہیں؟
پہلے مرحلے میں ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں، کاغذ پر ایک خاکہ بناتے ہیں، کردار تراشتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں، اسلوب چنتے ہیں، ناول کی کائنات کا تعین کرتے ہیں۔ اور تب دوسرے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے، اب ہم ہر شے سے لاتعلق ہو کر لکھنے کی میز تک جاتے ہیں ۔اور جب ہم قصہ لکھ ڈالتے ہیں، تب آتا ہے تیسرا مرحلہ۔ ناول کی ایڈیٹنگ کا۔اور یہ مرحلہ تب تک مکمل نہیں ہوتا، جب تک ہم حسب منشا نتائج حاصل نہیں کر لیتے۔ فکشن لکھنے کے بعد مانند فلم سازی بھی اِن ہی مراحل میں مکمل ہوتی ہے، شوٹنگ سے قبل پری پرڈوکشن ،پھر شوٹ، اور پھرپوسٹ پروڈکشن۔ اور پوسٹ پروڈکشن کا عمل حسب منشا نتائج تک جاری رہتا ہے۔
٭انتخابات کے تین مراحل
پاکستانی الیکشنز بھی، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے، ان ہی تین مراحل میں منقسم نظر آتے ہیں۔ 2018 کے انتخابات کو اِن ٹکڑوں میں بانٹ کر زیادہ بہترانداز میں سمجھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت پہلا مرحلہ جاری ہے۔ تیاریاں لگ بھگ ہوچکیں۔ الیکشن کمیشن، فوج اور عدلیہ؛ تمام ادارے شفاف الیکشن کروانے کے عزم کا اعلان کر چکے ۔ نگراں سیٹ اپ آنے کے بعد پہلا مرحلہ تیزی سے مکمل ہوگا۔ جولائی کا آخری ہفتہ آن پہنچے گا، جب 10 کروڑ سے زاید پاکستانیوں کے پاس فیصلے کا اختیار ہوگا، گو ہمیشہ کی طرح صرف نصف ہی اس حق کو استعمال کریں گے ۔
اور اب آئے گا تیسرا اور اہم ترین مرحلہ، جو حسب منشا نتائج کے حصول تک جارہے گا۔ اور یہی وہ مرحلہ ہے، جس کی جانب اب تک سب سے کم توجہ دی گئی ۔جی! ٹی وی اسکرینوں ، اخبارات اور سوشل میڈیا پر جاری تبصروں تجزیوں، سیاست داں کے دعووں وعدوں کا محور2018 کا الیکشن ہے، مگر فیصلہ کن جنگ الیکشن کے بعد شروع ہوگی۔
٭معاملہ بڑے اور چھوٹے میاں صاحب کا
میاں نواز شریف اینٹی اسٹیبشلمنٹ نعرے پر الیکشن لڑنے جارہے ہیں۔ نیب میں چلنے والے کیسز میں انھیں سزا ہونا امکانی ہے، جس کے بعد ان کا بیانیہ مزید سخت ہوجائے گا۔ البتہ اسی پارٹی کا ایک حصہ خواہش مند ہے کہ تصادم سے اجتناب برتا جائے۔ اس بیانیہ کی ترویج کے لیے شہباز شریف اور حمزہ شہباز سرگرم ہیں۔ مسلم لیگ کی صدارت سنبھالنے والے شہباز شریف کی یقینا یہ خواہش ہوگی کہ پنجاب اُن کے ہاتھ سے نہ نکلے۔ کیوں کہ بڑے میاں صاحب کی عدم موجودی میں، میدان میں پاﺅں جمانے،خود کو منوانے کے لیے یہی ایک موقع ہے ۔پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ سیاست داں، جسے ہم اپنے تئیں دفن کر چکے ہوتے ہیں، پھر لوٹ آتا ہے۔ میاں نواز شریف کی واپسی بھی ، بالخصوص مریم نواز اور پھر جنید صفدر کی موجودی میں، متوقع ہے، اور عین ممکن ہے،وہ پانچ برس سے پہلے لوٹ آئیں۔ اگر اس عرصے میں چھوٹے میاں صاحب بہ طور قائد اپنی شبیہ کا قلعہ تعمیر نہ کرسکے، تو نواز شریف کے پلٹنے کے بعد ان کی ہر کاوش ریت کی دیوار ثابت ہوگی، مسلم لیگ ن کی گدی پھر نواز شریف اور ان کی نسل کے پاس چلی جائے گی۔ اسی وجہ سے شہباز شریف اداروں سے بھڑنے کے حق میں نہیں۔کیوں کہ اگر سب اجڑ گیا، پنجاب ہاتھ سے نکل گیا، تو وہ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے خود کو منوانے کا سنہری موقع کھو دیں گے۔
٭ایک زرداری سب پر بھاری
پیپلزپارٹی بہ ظاہر سندھ تک محدود ہے، مگر آصف علی زرداری جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ ان کی مہارت کی جھلک سینیٹ انتخابات میں ہم دیکھ چکے ہیں، عام انتخابات کے بعد اس کی مزید جھلکیاں سامنے آئیں گے۔ اپنی کامیابی سے زیادہ سمیٹ لینا اُن کا مقصد ہے، جس میں اُن کی ناکامی کا امکان کم ہے۔
٭پی ٹی آئی اور پرندے
پاکستان تحریک انصاف میں الیکٹیبلز کی تعدادمیںاضافہ ہورہا ہے۔ بیش تر کا تعلق پنجاب سے، اکثریت مسلم لیگ ن سے۔ روز پی ٹی آئی کا ٹویٹر ہینڈل غیرمعروف، مگر منتخب چہروں کی تصاویر جاری کرتا ہے، جنھیں عمران خان پی ٹی آئی کا مفلر پہنا رہے ہوتے ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان دائیں بائیں کھڑے مسکرا تے ہیں۔فوزیہ قصوری جاچکی ہیں۔ نگراں سیٹ اپ آنے کے بعد ان تصاویر کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اور اگر میاں صاحب کو سزا ہوگئی، تو منڈیروں پر بیٹھے پرندوں کے اڑنے کی رفتار میں یکدم اضافہ ہوجائے گا۔ مگر یہ سرگرمی الیکشن نتائج پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟ اصل سوال یہ ہے۔
٭الیکشن ، جوڑ توڑ اور فارورڈ بلاک
فی الحال یوں لگتا ہے کہ ن لیگ ہی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ ممکن ہے فرق تھوڑا ہو، مگر وہ پی ٹی آئی سے زیادہ سیٹیں حاصل کر لے گی۔ البتہ مجموعی سیٹوں کے معاملے میں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہوگی،گو یہ بھی معمولی ہوگی۔ برتری کے باوجود پی ٹی آئی کے لیے تنہا حکومت بنانا دشوار ہوگا۔ اور تب ناول نگاری کا تیسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ پوسٹ پروڈکشن۔ یہاں پیپلزپارٹی، بلوچستان میں تازہ تازہ قائم ہونے والی BAP اور آزاد امیدواروں کا کردار بڑھ سکتا ہے ۔ بہت سی ملاقاتیں ، فوٹو سیشن ، پریس کانفرنسیں ۔ بہ ظاہر سب کچھ ٹھیک ہے۔ کمزور سہی، مگر حکومت تشکیل پانے کے قریب ہے۔ اوراگر تب بھی کوئی رکاوٹ پیش آئی، تو وہ واقعہ رونما ہوسکتا ہے، جو ہم 2002 کے الیکشن کے بعد دیکھ چکے ہیں۔ ایک فارورڈ بلاک۔ اس بار مسلم لیگ ن میں۔ کیا چوہدری نثار فیصل صالح حیات کا کردار ادا کریں گے؟ اگر نہیں ، تو کوئی اور کر گزرے گا۔
لیجیے، تیسرا مرحلہ مکمل ہوا۔ تمام سرگرمیاں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ مسلم لیگ ن کو منہا کر کے جمہوری حکومت قائم کر لی گئی۔ اور اگر ایک بار حکومت قائم ہوگئی، تو یہ اپنی کمزوریوںاور غیر فطری اتحادیوں کے باوجود جلد نہیں گرے گی۔
٭عمران خان کو درپیش چیلنج
اگر واقعات اِسی ترتیب سے ہوئے،تب عمران خان کو ایک کٹھن فیصلہ کرنا ہوگا۔ اپنے سیاسی کیریر کا مشکل ترین فیصلہ وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ۔ بہ ظاہر یہ فیصلہ عوامی امنگوں کے خلاف ہوگا، ان نعروں کے خلاف ، جنھیں پی ٹی آئی نے بلند ستون کی شکل دے دی ہے۔ مگر یہ غیرمقبول فیصلہ سہولت لائے گا۔ پاکستانی سیاست میں وزیر اعظم کے عہدے پر آسیب کا سایہ ہے۔ یہاں کسی کو سکون نصیب نہیں ہوا۔ وزیر اعظم قتل ہوئے، پھانسی کے پھندے پر جھولے، معزول اور جلا وطن کیے گئے، نااہل ٹھہرے۔ زرداری فارمولا بہتر ہے۔ صدر کا عہدہ۔ یا پھر کنگ میکر کہلانے پر اکتفا کرنا، مگر وزیرا عظم بننا؟ نہ، یہ پُرخطر ہے!
٭ناول کے انجام میں ٹوئسٹ
کیا یہ ممکن ہے کہ یہ تصویر جو لفظوں سے سجائی گئی ، ابھرنے سے پہلے ہی ہوا میں تحلیل ہوجائے؟دھواں بن جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ میاں نواز شریف کے نعرے”ووٹ کو عزت دو“ کے سامنے ہر رکاوٹ ڈھے جائے؟کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر الیکشن والے روز نکلے ،اور اُن کے بیانیہ پر مہر لگا دے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ انقلاب کی دھمک ہر” اہتمام “کو روند ڈالے ؟کیا یہ ممکن ہے کہ ناول کا انجام یکدم بدل جائے؟
ناممکن کچھ بھی نہیں۔ سب کچھ ممکن ہے، مگر کم از کم اِس بار نہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔