کیا عمران خان کو اصل مسائل کا ادراک ہے ؟۔
کل خان صاحب کی تقریر کی بہت تعریف کی گئ جو بلاول کہ گنگنانے کو جنت کی ہوا کہ رہے تھے وہ بھی خان صاحب کی تقریر کی تعریف میں کیا کیا حسین کلمات فرما رہے تھے ۔ خان صاحب کی تقریر سے مجھے Julius Caesar کا Mark Anthony اور سابقہ وزیر اعظم زولفقار علی بھٹو یاد آ گیا ۔ ایک symbolic شعلہ بیانی ۔ مارک اینتھونی تو خیر کامیاب ہو گیا تھا برُوٹس کہ ہاتھوں اس کہ اپنے ہی دوست جولیس سیزر کی جان لینے میں ۔ بھٹو بری طرح ناکام ہوا وہ اہداف پورے کرنے میں جو وہ تقریروں سے کرتا تھا ۔
خان صاحب کی تقریر ایک رات والے ڈیوٹی کہ ڈاکٹر کی تھی ، جو جب مریض کو ایمرجینسی میں لایا جاتا ہے تو لواحقین کو کہتا ہے کہ معاملات بہت خراب ہیں ، یہ درجنوں ٹیسٹ بھی کروانے ہوں گے ، خون بھی لگواؤ ، آکسیجن بھی لگاتے ہیں ، گردے بھی فیل ہو رہے ہیں ، وغیرہ وغیرہ اور رپورٹوں کہ بعد ایکسپرٹ ڈاکٹر بتائے گا کہ کیا کرنا ہے ۔
جناب خان صاحب ، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی ہے جس پر آپ نے کچھ بھی نہیں فرمایا ۔ ہر کوئ چین کی مثال دیتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ وہ اگر one child پالیسی نافز نہ کرتا تو آج یہاں تک نہ پہنچتا ۔
دوسرا بڑا مسئلہ سول ملٹری بیوریوکریسی ہے جس کی الٹا خان نے تعریف کی کہ ہمارے ساٹھ کی دہائ کہ بیریوکریٹ دنیا کہ بہترین بابو تھے ۔ جن میں کافی خان کہ رشتہ دار بھی تھے ۔ اور ایک کا واقعہ تو خان صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا جب سرگودھا کوئ میچ کھیلا تو کمشنر ہاؤس میں ٹھہرے اور محل نما بنگلہ دیکھ کر حیران ہو گئے ۔ جناب غلام محمد بابو ہی تھا جس نے جمہوریت پر شب خون مارا تھا اور غلام اسحاق خان بھی جو اکثر یہ حرکت کرتا تھا ۔یہ خان صاحب colonial mindset کا مسئلہ ہے جس میں عشرت حسین بھی شامل ہے ، جو اب ان کی ریفارمز کرے گا ۔ جس سے مجھے فارسی کی کہاوت یاد آ گئ ۔
آزمودہ را آزمودن خطا است
آزمائے ہوئے کو آزمانا زیادہ خطا ہے حضرت علی کا قول بھی ہے کہ مومن ایک بل (سوراخ) سے دو دفعہ ڈسہ نہیں جاتا ۔
خان صاحب نے یہ بھی کہا مجھے ان کی سیاسی وابستگی سی کچھ لینا دینا نہیں جو قائداعظم کی بابؤں کو تقریر سے یکسر الٹ ہے جہاں انہیں غیر جانبدار ہونے کا کہا گیا ہے ۔ خان صاحب قوم نے آپ پر اندھی تقلید کی ہے ، مروا نہ دینا، آپ کی مہربانی ۔
تعلیم کی طرف آئیں ، پراویٹ اسکول مافیا کو رگیدنے کی بجائے آپ نے فرمایا کہ شام کہ لیے سرکاری اسکول ان کو دیں گے ، واہ کیا بات ہے، کینسر کو اور پھیلاؤ ۔ امریکہ میں سرکاری اسکولوں کا بہت زبردست اسٹینڈرڈ ہے ۔ بچوں کو ناشتہ اور دوپہر کا کھانا بھی کھلایا جاتا ہے ۔ اسکول بند کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ محض اس بنا پر بن جاتا ہے کہ غریب بچے کھانے سے محروم نہ ہو جائیں ۔
پاکستان کا مسئلہ تو سوچ کا ہے ، انسان کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا ہے ۔ ہر ایک کو کرسی کی لالچ ۔ ہمارے ایک حلقے سے جگنو محسن آزاد امیدوار الیکٹ ہوئ ہیں ، اس نے حلقے والوں کو کہا کہ میں حلف لینے کہ بعد ادھر ہی ہوا کروں گی آپ میری بے شک جان نکالے رکھنا ۔ خان صاحب پولیس کوئ صرف اس لیے تھوڑی خراب ہے کہ سیاسی دخل اندازی ہوتی ہے اس کا تو اپنا قبل و کعبہ ہی پیسہ ہے ۔ زرا کہیں انہیں کہ جس تھانے میں چوریاں اور قتل زیادہ ہوئے وہاں کا تھانیدار نوکری سے برخاست ہو جائے گا دیکھیں کیسے معاملات ٹھیک ہوتے ہیں ۔
رہی بات whistle blowing ایکٹ کی ، یہ معاملہ بہت پرانا ہو گیا ہے ۔ دنیا اس سے بہت آگے چلی گئ ہے ۔ بغیر کسی پیسے کہ incentive کہ ، میرے جیسے لوگ حب الوطنی میں بتاتے ہیں ، پانچ سال میں نے رشوت مکاؤ تنظیم چلائ ۔ مسئلہ تو یہ ہے کوئ سنے تو سہی ۔ اتنے سارے لوگ بتاتے ہیں کچھ نہیں ہوتا ، رات کو ٹی وی پر تو سرکس ہی بے نقاب کرنے کا چلتا ہے ۔ نیب سے پوچھیں زرا ۔
سنوڈن کی تو امریکہ منتیں کر رہا ہے واپس آ جاؤ وہ نہیں آ رہا کیونکہ اسے پتہ ہے دھرا جائے گا اس نے ریاست کہ راز افشا کیے ۔ یہی حال آسانجے کا ہے ۔ بیچ دیا ان لوگوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کہ ہاتھ ۔ کل ہی سعودیہ میں شہزادہ سلمان نے اس انسانی حقوق پر آواز بلند کرنے والی کا سر قلم کردیا جس پر کینیڈا سے تعلقات خراب ہوئے ۔
آپ کو قدرت نے یہ موقع دیا ہے اور آپ خود بھی رسے تڑوا رہے تھے وزیر اعظم بننے کے لیے ۔ اب زرا دلیر بنیں ۔ آپ کو عمر بن عبدالعزیز کی طرح زبردستی یہ عہدہ نہیں سونپا گیا ۔ چندہ والی سوچ سے باہر نکلیں ۔
آخر میں آپ کو یاد کرواتا جاؤں کہ مدینہ کی ریاست کا طرُہ امتیاز ، ہر قسم کا استحصال ختم کرنا تھا ، استحصال حرام ہے ، ڈٹرٹے اور ٹرمپ استحصالیوں کہ ہی پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ آپ نے ان کو بغل میں بٹھا لیا ۔ آج ہی زرا اسد عمر اور رزاق داؤد سے کہیں کہ ایک صفحہ کا آپ کو نوٹ لکھ کر دیں کہ استحصال کیسے ختم کیا جائے اور تمام قومی اخباروں میں چھپوائیں ۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ۔ آپ تھا معاملات پر پبلک ڈیبیٹ کروائیں ۔ نوجوان نسل کو موضوع دیں اس پر انعام رکھیں پھر دیکھیں نتیجہ ۔ آپ کی کامیابی کہ لیے ہم دعاگو ہیں ۔ کیونکہ آپ کی نیت اچھی ہے ۔ آپ مخلص ہیں ۔ قوم آپ کہ ساتھ ہے ۔ کچھ کر پائیں گے آپ اگر رشتہ صیحیح تعین کر پائے ۔ اسلام آباد کی طرف رخ رکھنے والا کبھی کراچی نہیں پہنچتا ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔