کیا علمِ نجوم جو ستاروں کا “شدھ” “علم” سمجھا جاتا ہے، اور جس میں نجومی حضرات اپنے زائچوں میں ستاروں کی چالیں بناتے ہیں، یہ “خالص” اور “سُچا” علم رکھنے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ ستارے کس رفتار سے حرکت کرتے ہیں یعنی ستاروں کی رفتار کتنے کلومیٹر فی سیکنڈ یا گھنٹہ ہوتی ہے کیونکہ چال تو تبھی پتہ چلے گی جب اسکی رفتار کا اندازہ ہو گا۔
چلیں یہ مشکل سوال ہے، ہو سکتا ہے علمِ نجوم کے “ماہرین” یہ کہیں کہ وہ ستاروں کی چال سے مراد یہ لیتے ہیں کہ آسمان میں نظر آنے والے ستاروں کے جھرمٹ جنہیں کانسٹیلیشن یا نجومیوں کے ہاں برج کہا جاتا ہے، وہ جنہیں دیکھ کر ماضی میں انسان مخلتف شبیہات بناتا تھا جیسیے کیکڑا، شیر وغیرہ وغیرہ انکی حرکت کا تبدیل ہونا ہے۔ تو کیا وہ نجومی حضرات جو اس حرکت کرتے برجوں یا جھرمٹوں سے زائچے تیار کرتے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ زمین اپنے محور پر اس وقت 23.5 ڈگری پر جھکی ہوئی ہے جسکی وجہ زمین پر موسم تبدیل ہوتے ہیں اور زمین کا اپنے محور پر جھکاؤ ہر 26 ہزار سال میں 22.1 سے 24.5 ڈگری کے درمیان آہستہ آہستہ بدلتا ہے۔ یوں آج جو ستارے ہمیں اسمان میں ایک جگہ نظر آ رہے ہیں، آج سے کئی ہزار سال پہلے یہ اسمان میں کہیں اور تھے اور پرانے دور کے زائچوں میں کوئی اور ہونگے۔
چلیے اس سوال کو بھی رہنے دیتے ہیں، کیا علمِ نجوم کے ماہر جو ستاروں کی چالوں سے انسانوں کی قسمت تو بتا سکتے ہیں، کیا وہ ستاروں می قسمت بتا سکتے ہیں کہ کب کوئی ستارہ سپر نووا بن کر پھٹے گا یا نیوٹران سٹار یا بلیک ہول میں تبدیل ہو گا؟ کم سے کم اپنے اس شدھ علم می لاج ہی رکھ لیں جسکا مطلب ہی “ستاروں کا علم” ہے۔ اس سے بھی قدرے آسان سوال ان نجومیوں سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جن ستاروں کو وہ زائچوں میں استعمال کرتے ہیں اُنکا زمین سے فاصلہ کتنا ہے؟
اگر ایک نجومی جو علمِ نجوم کا ماہر ہے اسمان کی طرف دیکھ کر یہ بتا دے کہ فلاں فلاں ستارا اس وقت زمین سے کتنا دور ہے اور کیا وہ ستارہ اس وقت اپنی جگہ پر موجود ہے ،یا ہمیں محض اسکا ماضی نظر آ رہا ہے تو اس نجومی کے ہاتھ چومنے چاہئیں(بشرطیکہ اس نے ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھوئے ہوں) ۔
دراصل علمِ نجوم یا ایسے کئی اور فرسودہ ماضی کے “علوم” جیسے کہ ہاتھوں کی لکیروں کا علم محض بکواسیات ہیں جن پر لوگ صدیوں سے یقین کرتے چلے آئیے ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ انہیں انکا مکمل علم ہے بلکہ اس بنیاد پر کہ دوسرے لوگ بھی ان پر یقین کرتے ہیں۔ کسی شے کی بنیاد غلط ہو تو اس پر بھلے آپ صدیوں تحقیق کرتے رہیں اس شے نے ٹھیک نہیں ہونا یا علم نہیں بن جانا۔ یاد رکھیں مکھی پر مکھی مارنے سے علم پیدا نہیں ہوتے۔ یعنی کسی نے ماضی میں کوئی “چُس” مار دی تو اس پر آج کے بڑے بڑے طرم خان کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالیں، وہ عالم نہیں بن جائیں گے کیونکہ وہ اصل علم پر کچھ نہیں کر رہے۔
علمِ نجوم کے ماہرین کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالیں، وہ کوئی حقیقی علم رکھنے والے نہیں بن سکتے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...