سو سال سے زیادہ ہو چلے ہیں جب آئن سٹائن کو خصوصی نظریہ اضافیت اور عمومی نظریہ اضافیت پیش کرنے کی سوجھی تھی۔ میکس پلانک تو اضافیت کا لفظ دنیا کو دے کر خاموش ہو گیا تھا پر آئن سٹائن نے ابھی ایک صدی سے زیادہ سائنس دانوں کو حیران کرنا تھا۔ یاد رہے کہ 1905 میں نہ آج کی سی رصد گاہیں تھیں نہ کسی نے کمپیوٹر کا نام سنا تھا۔ طویل ترین ریاضی کی مساوات کو حل کرنے کی مشقت بھی چاک سے ایک تختہ سیاہ پر کی جاتی تھی۔ ایسے میں کیا خلاق ذہن ہو گا جس نے کائنات کے رازوں پر پڑا پردہ چیر ڈالا۔ عام ذہن آج بھی وقت کو ایک لکیر کی طرح پیچھے سے آگے گزرتا محسوس کرتا ہے اور اس کے لیے یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ وقت بھی ایک جہت ہے جو خلا کے ساتھ گتھی ہوئی ہے۔ کائنات کی وسعتوں میں تیرتے ستارے اور سیارے اس جہت کو ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ امواج ثقل کے بارے میں آئن سٹائن نے اس وقت بات کی تھی جب زمین کی کشش ثقل کو بھی سیدھے سے سمجھنا ممکن نہ تھا۔
ٹھیک ایک صدی لگی طبیعات کے عظیم تر اذہان کو یہ ثبوت ڈھونڈنے میں کہ امواج ثقل کیسے کائنات میں سفر کرتی ہیں۔ مادہ خلائی وقت کو کیونکر خمیدہ کر دیتا ہے، روشنی کی رفتار کیونکر مادے اور توانائی کے باہم ربط کو بیان کرتی ہے اور کائنات کا مشاہدہ ایک اضافی حوالے سے کیسے ممکن ہے، یہ سب آئن سٹائن کے نظریات کی دین ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات کی ایک مکمل تفہیم نہ اس وقت ممکن تھی اور نہ آج یہ مکمل ہے۔ آئن سٹائن کو کوانٹم مکینکس پر کوئی خاص اعتماد نہیں تھا اور اس کے خیال میں کوانٹم نظریات میں جان نہیں تھی۔ آئن سٹائن کی کائناتی وسعتوں کو ایٹم کے انتہائی چھوٹے ذرات کی تحقیق سے نسبت نہیں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہوتا چلا گیا کہ آئن سٹائن جیسا نابغہ اس معاملے میں غلط تھا۔
بلیک ہولز ایسے اجسام ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں پاتے۔ یہ عظیم الشان کمیت والے ایسے مردہ ستاروں کی باقیات ہیں جو اربوں سال کی زندگی گزار کر اپنے آپ میں منہدم ہو چکے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ ایک ستارہ جو گرم گیسوں کا ایک مجموعہ ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہونے کی طرف بڑھتا ہے۔ اس پر موجود گیسیں جل کر ختم ہو جاتی ہیں اور اس کا جسم اپنے مرکز کی طرف شدید کشش ثقل کے باعث سکڑنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہزاروں میل کا قطر سکڑ کر ایک چائے کے چمچ جتنا ہو جائے۔ پھر ایک دن سارا ستارہ ایک نقطے میں آ کر فنا ہو جاتا ہے پر یہ فنا اختتام نہیں ایک نیا آغاز ہے لاکھوں یا شاید کروڑوں میل پر محیط ستارہ اب ایک نقطے پر مرکوز ہے۔ اسے طبعیات کی زبان میں وحدانیت یا سنگلریٹی کہیں گے۔ یہ ایسا نقطہ ہے جہاں مادے کی کثافت لامحدود ہے کیونکہ اس کے بغیر کمیت کی ایک عظیم الشان مگر کائناتی حساب مین محدود مقدار کا ایک نقطے میں فنا ہونا ممکن نہیں ہے۔ بلیک ہولز کی اس لامحدود کثافت کی وجہ سے ان کی کشش ثقل ناقابل بیان حد تک بڑھ جاتی ہے، اتنی کہ وہ روشنی کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ بلیک ہولز کا مشاہدہ بھی اس باعث ممکن ہے۔ آپ کسی بلیک ہول کو یوں تو نہیں دیکھ سکتے لیکن دور دراز ستاروں سے آنے والی روشنی کا تغیر آپ کو یہ بتاتا ہے کہ اس کے راستے میں ایک بلیک ہول ہے۔ پھر مختلف تغیرات کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بلیک ہول کتنا وشال ہے۔
بلیک ہولز اس کائنات کا سب سے حیرت انگیز اور سب سے سر بستہ راز ہیں۔ اور اس کے بارے میں ہمارا علم اتنا ہی ہے جتنا سمندر کے کنارے لہروں سے پیر بھگوتے ایک چند سالہ بچے کا سمندر کی وسعتوں کے بارے میں ہوتا ہے۔ آئن سٹائن کے خیال میں بلیک ہول کے قریب سے گزرنے والی ہر شے کو بلیک ہول ہڑپ کر جاتا ہے اور اس کی اندرونی کشش اتنی زیادہ ہے کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں آ سکتی۔ آئن سٹائن کے اس خیال کو غلط تو نہیں سمجھا جاسکتا لیکن اس میں کچھ ترمیم ممکن تھی۔ اس ترمیم کا سہرا بہت سے سائنسدانوں کے سر ہے جن میں سے ایک معروف نام اسٹیفن ہاکنگ کا ہے۔ ہاکنگ نے بالآخر آئن سٹائن کے نظریات کو کوانٹم فزکس کے ساتھ رکھ کر دنیا کو یہ بتایا کہ بلیک ہول اتنے بھی سیاہ نہیں جتنا ہم انہیں سمجھتے ہیں۔ کوانٹم آلانیات کی رو سے توانائی قلیل مقدار میں اور ناقابل یقین حد تک چھوٹے جوہری ریزوں کی شکل میں بلیک ہول سے فرار اختیار کر لیتی ہے۔
آئن سٹائن کا بلیک ہول اپنے اندر ایک مکمل اختتام تھا۔ اس میں کسی توانائی، کسی روشنی یا کسی زندگی کا امکان صفر تھا۔ بلیک ہول کائناتی فنا کی تعبیر تھی پر کوانٹم نظریات نے اس کہانی کو بدل ڈالا۔ بلیک ہولز پر ایک نئی تحقیق کا آغاز ہوا اور عجیب و غریب نظریات کے ساتھ سائنس کی دنیا میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ نوجوان سائنسدان دن رات کائنات کے آغاز اور اختتام سے جڑے رازوں سے پردہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ ایسے ہی ایک سائنسدان کا نام نکوڈیم پوپلوسکی ہے۔ پوپلوسکی بلیک ہول کو نقطہ اختتام نہیں، نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔ اگر ان کی بات مان لی جائے تو عین ممکن ہے کہ جس کائنات کا ہم حصہ ہیں وہ ایک بلیک ہول کے اندر موجود ہو اور ایسی کائناتوں کا ایک تار بندھا ہو۔ کئی بلیک ہول، کئی کائناتیں۔ یہ کارخانہ حیرت بہت وسیع ہے۔
بیچارے سائنسدان کن فیکون پر ٹھہرے نہیں رہتے کہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر نظریے کو ریاضی کی مساوات سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ طبیعات کے اصولوں کا ڈول ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ بڑے مشکل پا ہیں اور بڑی ریاضت مانگتے ہیں۔ سو بیچارے سائنسداں یہ کھوجنے میں لگے ہیں کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا۔ سٹیفن ہاکنگ نے بگ بینگ یا عظیم الشان دھماکے کا ذکر کیا تو ایک تہلکہ مچ گیا۔ اہل مذہب نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، یہ نظریہ اچک لیا۔ اس کے پیچھے ” دیکھا، ہم نہ کہتے تھے“ کی دم لگائی اور بس بگ بینگ جزو ایمان بن گیا۔ گڑبڑ یہ ہوئی کہ کچھ عرصے بعد جناب ہاکنگ نے اس نظریے سے بڑی حد تک رجوع کر لیا اور اب پاپلوسکی صاحب نے ایک بلیک ہول کا ککھیڑ اٹھا دیا ہے۔ ان کے خیال میں کائنات کے آغاز کو شاید اسی طرح سمجھنا ممکن ہے۔ یہ نظریہ ایک دن کا نہیں ہے۔ اس پر تحقیق پچھلے تین عشروں سے جاری ہے۔
بگ بینگ کے نظریے پر بہت سے حل طلب سوالات اٹھے۔ بگ بینگ بھی ایک قریبا ناممکن وحدانیت یا سنگلریٹی کے گرد گھومتا تھا۔ ایک ایسا نقطہ جس میں ایک لامحدود کائنات کا مادہ پوشیدہ تھا اور اس مادے نے ایک نقطے سے پھیلنا شروع کیا اور آج اربوں سال بعد بھی یہ پھیلاؤ جاری ہے۔ اسی حیرت انگیز خلائی پھیلاؤ میں عظیم کہکشائیں اور کہکشاوں کے جھرمٹ تشکیل پائے۔
پر جہاں اس نظریے نے بہت سے جواب دیے وہاں کئی سوال بھی پیدا ہوگئے۔ سب سے بنیادی سوال تو یہ کہ یہ پھیلاؤ آخر شروع کیسے ہوا۔ وحدانیت تو ایک نقطے پر مرتکز ہونے کا نام ہے۔ اس ارتکاز سے انتشار کے جنم کے پیچھے محرک کیا تھا۔ خلائی پھیلاؤ میں پچھلے کچھ عشروں میں ایسے مشاہدات ہوئے جن سے تصدیق ہوئی کہ کائنات میں پھیلاؤ اور سکڑنے کا عمل دونوں ہو رہے ہیں۔ یہ کیونکر ممکن ہے؟ کائنات میں جہاں نظر آنے والا مادہ ہے وہاں ایک دکھائی نہ دینے والی تاریک توانائی بھی موجود ہے جو اس سارے عمل میں معاون ہے۔ اس تاریک توانائی کا ماخذ کیا ہے؟ پاپلوسکی اور سائنسدانوں کے ایک گروہ کے مطابق ان سوالوں کا جواب اسی صورت ممکن ہے اگر ہم کائنات کے وجود کو بلیک ہول کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہماری موجودہ کائنات میں ناممکن سنگلریٹیز کا ایک تسلسل ہے جو طبیعات کے اصولوں سے ماورا ہے اس لیے بہت عرصہ یہ کہا جاتا رہا کہ بلیک ہول میں طبعیات کے اصول بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ہماری پوری کائنات ایک بلیک ہول کے اندر موجود ہے تو پھر ان ناممکنات کو ممکنات میں بدلنا ممکن ہے۔ یہ ساری کہانی طبعیات کے دو بنیادی نظریات پر استوار ہے۔ اگلی قسط میں آپ کو ان نظریات سے روشناس کرانے کی کوشش کریں گے۔ کہانی دلچسپ ہے، بہت کچھ جاننے کو ہے۔ ابھی تو سفر کا آغاز ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...