واٹس ایپ پر ایک مہربان نے انگریزی کا یہ مقولہ بھیجا ہے۔ اُردو میں ترجمہ کچھ اِسطرح سےمیری سمجھ میں آیا ہے،کہ جس طرح ایک سمندری جہاز (SHIP) مسافروں کو ساتھ لے جا کر مختلف دلچسپ منازل سے رُوشناس کراتا ہے اسی طرح ہماری زندگی میں آنے والوں کی صحبت (Companionship)، دوستی (Friendship)، شراکت (Partnership)، یا یگانیت کا رشتہ (Relationship) وغیرہ بھی مختلف نوعیت کے جہاز ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی جہاز اگر ہمیں کسی مناسب منزل کی طرف لے کر نہیں جا رہا تو بہتر ہے کہ ایسے جہاز کو ترک کر دیا جائے۔
میَں معذرت چاہتا ہوں کہ ایسا واہیات مقولہ دیکھ کر میری ذہنی رو بہک گئی۔ سب سے پہلے تو اُس مہربان کا شکریہ ادا کرونگا جس نے اِس مقولے کو پسند کر کے،اِس سے متفق ہو کر مجھے اِس نصیحت کے قابل سمجھا، میری ذہنی رو کو بہکایا۔ اِسکے بعد میں اُن سب قاریوں کا مشکور ہوں جو اِس مقولے سے اتفاق رکھتے اپنا سَر اثبات میں ہِلا رہے ہیں کیونکہ یہ پوسٹ اُنہی کے لئے لکھی جا رہی ہے۔ جو متفق نہیں اُنہیں مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع نہ کیجئے۔
اکثر ’’چوہوں‘‘ کا باہمی اتفاق بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے! جو ویڈیو، تقریر یا تحریر اُن کی سمجھ کی تائید کرتی ہے ، مزاج کو اپیل کرتی ہے اُس کے مصنف کو پسند کرنا شروع کر دیا، فیس بُک پر فالو (Follow) کا بٹن دبا دیا، یا جس کو اپنا سیاسی لیڈر، رُوحانی بابا، پسندیدہ عالم یا ٹی وی اینکر سمجھ لیا اُس کی اندھا دھند تقلید میں فالو کئے، یعنی تعاقب میں بھاگے جاتے ہیں. چُوہوں کی بہت ساری اقسام ہیں۔ طوالت سے گریز کرتے میَں یہاں صرف دو قسموں کی بات کرونگا۔
ایک قسم کے چُوہے تو وہ ہوتے ہیں جن کو ناروے اور شمالی برفیلی علاقوں میں لیَمِنگ (Lemming) کہا جاتا ہے۔ زیرِ زمین سُرنگوں میں بسنے والے یہ گول مٹول ننھی دُم اور ملائم بالوں والے تیراک چُوہے سردیوں میں بھی آرام نہیں کرتے۔ ان کی آبادی کے اُتار چڑھاؤ میں چار سال وقفے کا چکر ہوتا ہے۔ کسی نامعلوم وجہ سے بعض دفعہ چوتھے سال انکی آبادی اچانک مقامی میسّر خوراک اور اناج کی نسبت ایک خاص حد سے بڑھ جاتی ہے تو جبلی جارحیت، بھوک کی دہشت اور آپس میں لڑنے کی وحشت سے ان چوہوں کی ایک بڑی تعداد فوج در فوج اپنے آبائی وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اپنے سالارِ لشکر کے اندھا دھند تعاقب میں احمقوں کی جنت کے راستے میں آئے ساحلی پہاڑوں کی عمودی ڈھلوانوں اور چٹانوں سے دریا یا سمندر میں چھلانگ لگا کر تیَر کر پار کرنے کی کوشش میں لاکھوں کی تعداد میں یہ چُوہے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سینکڑوں سالوں سے ایسے طور طریقوں کا مشاہدہ کرنے والے مقامی لوگ یہ سمجھتے رہے تھے کہ یہ چُوہے باقاعدہ خودکشی کرتے ہیں۔ لیکن یہ جان بُوجھ کر خود کشی نہیں ہے، آبادی کا اچانک پریشر، جبلی جارحیت، بھوک کی دہشت اور آپس میں لڑنے کی وحشت کی وجہ سے صرف اپنے سے آگے جانے والے کی بغیر سوچے سمجھے مفروضہ اور تقلید ہو تی ہے کہ اُسے معلوم ہی ہو گا منزل کدھر ہے۔
دوسری قسم کے چوہے وہ ہوتے ہیں جو اناج لے جانے والی کشتیوں اور سمندری جہازوں میں بستے ہیں۔ ایسے چُوہوں کے بارے میں عام کہاوت ہے کہ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے یہ چُوہے فوج در فوج اپنے لیڈران کے پیچھے جہاز سے پانی میں چھلانگ لگاتے نظر آتے ہیں۔ لمبا عرصہ جہازران اور ملاح یہی سمجھتے رہے کہ چُوہوں کی چھٹی حِسّ اُنہیں پہلے بتا دیتی ہے کہ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہوتی ہے کہ یہ چوہے جہاز میں سب سے نیچے والے اندھیرے حصے میں بستے ہیں۔ جہاز میں پانی آ جائے تو ظاہر ہے سب سے پہلے بے چارے چُوہوں کے گھروں میں سیلاب آئے گا اس لئے وہ اُوپر کی طرف بھاگتے ہیں، سیلاب اُن کے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ سمندر میں چھلانگ خود کشی کے لئے نہیں لگاتے بلکہ اس اُمید میں کہ تیَر کر کہیں نہ کہیں ساحل یا سہارا مل جائے گا۔ اُنہیں نہیں معلوم کہ سمندر کتنا گہرا ،وسیع ، بے ساحل اور خطرناک ہے۔
آئیے! اب اِن دونوں قسموں کے چُوہوں کے طرزِ عمل کی آگہی کی روشنی میں اُوپر والے انگریزی کے مقولے کا جائزہ لیں۔ کیا ہم چُوہے ہیں؟ صحبت ،دوستی ،شراکت یا یگانیت کی رشتہ داری میں اختلاف ، دُرشتگی اور نفرت کی پھسلن آمیز عمودی ڈھلان پر پہنچنے سے پہلے کیا ہم سوچتے ہیں کہ حالات کے اچانک غیر متوقع اور غیر موزوں ہو جانے کے باعث ہم ساتھیوں کے مابین حیوانی جبلت، جارحیت،اور بھوک کی دہشت کی وجہ سے آپس میں لڑنے کی وحشت اور انتہا پسندی جنم لے رہی ہے جو پہلے نہیں تھی؟
صحبت، دوستی، شراکت یا یگانیت کے رشتے کے جہاز سے چھلانگ لگانے سے پہلے سوچئے۔ کیا ہم صرف ’’اناج‘‘ کی خاطر اس جہاز پر سوار ہوئے تھے؟ کیا ہم جہاز کی سب سے نِچلی اندھیری منزل پر خوفزدہ ہو کر بستے ہیں؟ کیا ہم جہاز کا کپتان ہیں جو اپنے جہاز کو اور ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، جہاز کے شگاف بند کرتا ہے، پانی کی نکاسی کے طریقے اپناتا ہے، ڈوبتے جہاز سے سب مسافروں کو بچانے والی کشتیوں میں بخیریت اتارنے کے بعد سب سے آخر میں بچانے والی کشتی پر سوار ہوتا ہے یا اس کوشش میں جہاز کے ساتھ ہی غرق ہو جاتا ہے؟
اب اسی سوچ کی ٹارچ لے کر اپنے ارد گرد سماج،، میڈیا، معاشرہ، سیاست، مذہب، معیشت، کاروبار، پیشہ، علم و تدریس ، ادب، وغیرہ پر روشنی ڈالئے۔ سوال تو اور بھی بہت سے سَر اُٹھاتے ہیں اور اُٹھائیں گے۔ جواب تلاش کرنے کا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے اگرہم چُوہے نہیں ہیں تو۔ ۔ ۔ ۔!
اور حتیٰ الوسع کوشش کیجئے کہ ایک انتہائی خطرناک جہاز پر سفر کی ٹکٹ نہ خریدیں۔ اس جہاز پر صرف ذہنی نابالغ ہی سوار ہوتے ہیں، کپتان بھی نابالغ، عملہ بھی نابالغ حتیٰ کہ سب سے نِچلی منزل پر چُوہے تک نابالغ ہوتے ہیں ۔ اِس جہاز میں لائف بوٹ یعنی جان بچانے والی کشتیاں کے پنکچروں پر بینڈ ایڈ ( Band-Aid) کا پلاسٹر لگا ہوتا ہے۔ اِس جہاز کا پیندا اِتنا گہرا ہوتا ہے کہ صرف جاہلیت کے گہرے تاریک پانیوں میں ہی تیَرسکتا ہے۔ یہ جہاز کبھی بھی ہماری آخری منزل یعنی ذہنی بلوغت کے سحر انگیز جزیرے کے قریب لنگر انداز نہیں ہوسکتا۔ مفروضوں،بے ثبوت دلائل اور تاویلوں کی ری سائکلنگ بھٹی سے نکلی، کمزور، زنگ خوردہ لیکن بھاری چادروں سے بنا یہ جہاز اکثر اوقات دقیانوسی، فرسودہ روایتوں سے بُنے گئے اپنے بوسیدہ بادبانوں میں سماجی ناانصافی،تعصب ، ظُلم اور خوف کی طوفانی ہواؤں کے بھر جانے سے کپتان کے کنٹرول سے باہر ہو کر، ذہنی بلوغت کے جزیرے کے اردگرد نِت نئے غیر معمولی اور مُشکل مسائل کی تیکھی سنگین چٹانوں سے ٹکرا کر ڈُوب جاتا ہے۔ کبھی کبھار عِلم و آگہی کی تیز تروتازہ ہواؤں سے اُٹھتی لہریں ایسے ڈُوبے جہازوں کے انجر پنجر ڈھانچے گھسیٹ کر ذہنی بلوغت کے جزیرے کے ساحل پر لے آتی ہیں اور جزیرے کے باسیوں کی سبق آموز دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ اِس جہاز کا نام سنسر شپ (CensorSHIP) ہو تا ہے۔
“