کِسی بھی تاریک رات میں جب آسمان پر بادل موجود نہ ہوں اور کُھلا آسمان ستاروں سے مزیّن ہو جن میں کئی ستاروں روشنی مستقل طور پر نظر آرہی ہوگی تو کُچھ کی ٹمٹماتی ہُوئی۔
بِلاشُبہ یہ ستارے اربوں کھربوں کی تعداد میں ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا کہ جس طرح آپ اپنے سیّارے پر کھڑے آسمان کو گھُور رہے ہیں اور اَن گنت ستارے آپ کو نظر آ رہے ہیں شاید بالکل ایسے ہی اربوں کھربوں (نُوری ) مِیلوں کی دُوری پر کسی اور سیّارے پر کوئی ہماری جیسی یا ہم سے بالکل مختلف مخلوق اپنے سیّارے پر کھڑے ہوکر آسمان کی جانب دیکھ رہی ہو اور اسے بھی آسمان پر کئی ستارے نظر آرہے ہوں۔
عین ممکن ہے کہ ہم انسانوں کی طرح یا ہم سے بھی زیادہ ذہین، ان میں سے بھی زیادہ تر یہی سوچتے ہوں کہ ان کے علاوہ کائنات میں کہیں زندگی موجود نہیں ہے اور دراصل وہی ”اشرف المخلوقات“ ہیں۔
خوش قسمتی سے سائنس ایسا نہیں سوچتی اور کئی دہائیوں سے کائنات میں ”زندگی“ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
سارا سیگر (خلائی ماہر و محقق) کے مطابق پِیگاسی 51 بی 1995 میں دریافت ہوا تھا۔ جوکہ خود ایک سرپرائز تھا۔ ایک جناتی سیّارہ جو دوسرے ستاروں کے قریب خلاف معمول طور پر سامنے آیا جس کی چار دن تک خلاف معمول حرکت جاری رہی۔ 51 پیگ کی یہ حرکت دراصل اس بات کی نشاندہی کر رہی تھی کہ اسے وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا، جہاں وہ اس وقت موجود تھا۔ اور اس کی یہ حرکت بالکل غیر معمولی تھی۔ آج ہم 4000 سے زائد ان سیاروں کو جانتے ہیں جن کا تعلق ہمارے نظام شمسی سے باہر ہے۔
ان میں سے زیادہ تر ستارے / سیارے کیپلر اسپیس دوربین سے دریافت کیے گئے ہیں۔ کیپلر کا مقصد یہ تھا کہ دیکھا جائے کہ کتنے سیارے اس وقت اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں اور کیپلر نے کوئی ایک لاکھ پچاس سیارے آسمان میں دیکھے، یہ ایسے ہی جیسے آپ اپنا بازو پھیلائیں اور آپ کا بازو جتنا حصار گھیرے گا یہ دوربین اتنا ہی آسمان کور کر رہی تھی۔
لیکن اس دوربین کا بنیادی مقصد ایک انتہائی عجیب اور ڈرا دینے والے سوال کو حل کرنا تھا؛ ”کیا اس کائنات میں ہمارے سیارے کے سوا بھی کہیں زندگی موجود ہے؟ یا زِندگی اِسی سیارے یعنی“ زمین ”تک ہی محدُود ہے؟ “
بڑی حد تک یہ بھی امکان ہے کہ شاید ہی کبھی ہم یہ جان پائیں کہ کائنات میں کوئی دوسری دنیا بھی آباد ہے۔ بہرحال کیپلر دُوربین کا جواب بہت ہی نپا تُلا تھا۔ کائنات میں ستاروں کی نسبت سیارے زیادہ ہیں اور ان میں سے تقریباً ایک چوتھائی زمین کے سائز کے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ habitable zone جہاں پہ زندگی کے لئے حالات نہ زیادہ گرم ہیں اور نہ ہی زیادہ ٹھنڈے۔
ہماری کہکشاں کائنات میں موجود کھربوں دوسری کہکشاؤں میں سے ایک ہے ہماری کہکشاں کا نام ’مِلکی وے‘ ہے اور ہماری کہکشاں میں کم از کم سو ارب ستارے و سیارے موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ کم از کم پچیس ارب جگہیں ہماری کہکشاں میں ممکنہ طور پر ایسی ہو سکتیں ہیں جہاں زندگی اپنی جڑ پکڑ سکتی ہے۔
سیگر کے بقول یونیورسٹی آوو کیلیفورنیا برکیلے کے خلائی ماہر اینڈریو سموئن نے بتایا کہ کیپلر سے کی گئی تحقیقات کو خلائی سائنس میں کافی احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ اس دوربین نے کائنات میں وجود و بقاء کے مفروضوں کو یکساں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ ”زمین کے سوا بھی کہیں زندگی موجود ہے“۔ یہ بات تو تقریباً یقینی ہے کہ زندگی موجود ہے اب سوال باقی یہ رہ گیا ہے کہ ”ہم اس زندگی کو تلاش کیسے کریں؟ “
اس انکشاف نے کہ کہکشاں میں لاتعداد سیّارے موجود ہیں، زندگی کی تلاش میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ جب سے غیر سرکاری افراد نے اس کام میں اپنی دلچسپی اور پیسے کا استعمال کیا ہے یہ کام اور بھی تیز ہوگیا ہے۔ ناسا بھی کافی شد و مد سے اسی سوال کے جواب کی تلاش میں مصروف ہے۔ زیادہ تر تحقیق کا فوکس اس بات پر ہے کہ کہیں بھی کسی دوسری دنیاؤں میں زندگی کی کوئی رمق تلاش کی جائے۔ دہائیوں سے جاری اس ریسرچ کو نئے ٹارگٹس اور نئے پیسے اور بڑھتی ہوئی جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے خلاء میں intelligent Aliens کی تلاش کو بڑی حد تک پر جوش اور شاید مُمکن بھی بنا دیا ہے۔
سیگر کے مطابق اُن کی کیپلر ٹیم میں ایک میک آرتھر ایوارڈ یافتہ کا شامل ہونا اس کی زندگی بھر کے اہم مقاصد کی جانب بڑھتا ہوا ایک اور قدم ہے۔ پُورا فوکس ایک ایسے سیّارے کو ڈھونڈنا ہے جو زمین جیسا ہو اور سورج جیسے ستارے کے گِرد گردش کرتا ہو، (TESS یعنی Transiting Exoplanet Survey Satellite یہ ایک MIT۔ Led NASA ) خلائی دوربین جو پچھلے سال ہی لانچ کی گئی ہے۔ کیپلر کی طرح TESS بھی تلاش کے سفر پر گامزن ہے۔
کسی بھی ایک ستارے کی ہلکی سی چمک کو جب وہ ستارہ کسی بھی سیّارے کے پاس سے گزرتا ہو TESS کا ٹارگٹ اس وقت پورے آسمان میں کوئی بھی ایسے پچاس سیارے تلاش کرنا ہے جن کی اوپری سطح زمین کی طرح پتھریلی یا rocky ہو تاکہ ایسے سیاروں کو بعد ازاں مزید طاقتور دوربینوں کے ذریعے جانچا جاسکے۔ ایسی دوربینیں جیسا کہ James Webb Space Telescope جو کہ ناسا 2021 ء میں لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مثال کے طور پر جیسا کہ ہمیں پتّے سبز نظر آتے ہیں کیونکہ کلوروفل روشنی کا ایک بھوکا molecule ہوتا ہے جو سرخ اور نیلے رنگ کو جذب کر لیتا ہے اور صرف سبز رنگ منعکس کرتا ہے۔ تقریباً بیس سال کی عمر میں ہی سیجر نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ گردش کرتے سیاروں کے اوپری ماحول میں ممکنہ طور پر ایسے رنگ موجود ہوتے ہیں جن میں وہاں بسنے والی مخلوقات کے جسموں سے خارج ہونے والی گیسیں بناتی ہیں۔ تو اس طرح جو روشنی ہم تک پہنچتی ہے اس میں سے ہم زندگی کا ثبوت تلاش کر سکتے ہیں یہ بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ ایک rocky planetکا اوپری سطح کا ماحول بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پیاز کی اوپری پرت کو دیکھ رہے ہوں یا آپ کے سامنے صرف آئی میکس IMax کی سکرین ہو لیکن اس سکرین کے پیچھے کیا ہے یہ جاننا ابھی باقی ہے۔
ایک موہوم امید ہے کہ راکی پلینٹ Webb Telescope کی رینج کے اتنے قریب سے گزرے کہ اس سیارے / ستارے کی روشنی کافی طور پر قابو کی جاسکے تاکہ زندگی کے آثار کی تحقیقات کی جاسکیں۔ لیکن سیجر اور دیگر سائنسدانوں کا خیال یہ ہے کہ انھیں Next Generation کے خلائی دوربینوں کی ایجاد کا انتظار کرنا ہوگا۔
43 سالہ گائیون (خلائی ماہر و محقق) کے پاس ایک بہت بڑی دوربین ہے جسے The Subaru Observatoryکہتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ 12 اور دوربینیں بھی Manua Kea جو کہ Hawaii کا ایک ساحلی جزیرہ ہے اس کی اونچی جگہ پر یہ Observatory بنائی گئی ہے جہاں یہ دوربینیں نصب ہیں۔ Subaru کا 27 فیٹ کا رفلیکٹر دنیا کے Single Piece عدسوں میں سے ایک ہے۔ اِس کو جاپان کی نیشنل ایسٹرونامیکل آبزرویٹری کے طور فنڈ کیا جاتا ہے اور اس کا کاریں بنانے والی Subaru کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سطح سمندر سے 13,796 feet کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سے کائنات کا بہت ہی واضح منظر نظر آتا ہے۔ گائیون بھی سیگر کی طرح Mac Arther Genius Award کا ونر ہے۔ اس کی خصوصی مہارت روشنی کی پرکھ پر ہے۔
جیسے کہ پچھلی قسط میں بتایا تھا کہ گائیون بھی سارا سیگر کی طرح MacArther جینئس ایوارڈ ونر ہے اور اس کی اصل مہارت دور دراز کے سیّاروں / ستاروں کی روشنی کی جانچ پڑتال ہے۔ اس کی اس سمجھ کے بغیر Subaru کے عدسوں پر آنے والی کسی قسم کی بھی روشنی کو پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ گائیون کے مطابق بڑا سوال یہ بھی ہے کہ ؛ ”کیا وہاں آسمانوں پر کوئی biological activity ہو رہی ہے کہ نہیں اور اگر ہو رہی ہے تو اس نوعیت کی ہے کیو وہاں بھی براعظم، سمندر اور بادل ہیں ان تمام سوالات کے جوابات دینے تب ہی ممکن ہو سکیں گے جب آپ اس سیارے کی روشنی کو اس جڑے یا اس سے متعلقہ ستارے یا اس کے سورج سے آنے والی روشنی سے الگ کر کے پرکھ سکیں۔ “
دوسرے لفظوں میں، دراصل پوری کوشش اس بات کی ہے کہ کسی ایسے سیارے جو زمین کے سائز کا ہو rocky surface رکھتا ہو اس سے آنے والی روشنی کو اور اس سے جڑے اس کے ستارے کی روشنی سے الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک بڑی چمکدار لائٹ (flood light) کے سامنے اُڑنے والی چھوٹی سی ایک مکھی کو آنکھ میچ کر دیکھنے کی کوشش کریں۔ تو یہ ممکن نہیں۔ بالکل ایسے ہی آج کی ماڈرن ٹیلیسکوپس کے ساتھ یہ ممکن نہیں۔ کہ دُور دراز کے سیاروں کی روشنی اور اُن سے منعکس ہونے والی اُن کے سِتارے کی روشنی کو الگ الگ جانچا جاسکے۔ اسی لیے گائیون اور سیگر Next generation Telescopes کا انتظار کر رہے ہیں جِس کی پہلی ٹیلیسکوپ 2021 میں لانچ ہوگی۔
زمین پر موجود Telescopesجیسے کہ Subaru telescope خلاء میں موجود ٹیلیسکوپس جیسا کہ Hubble سے کہیں زیادہ نا صرف طاقتور ہوتی ہے بلکہ یہ روشنی کی زیادہ مقدار کو بھی اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ( سیاروں سے آنے والی روشنی کو جانچنے کے لئے ان Telescopes کا زیادہ روشنی اکٹھی کرنا خوبی نہیں بلکہ خامی ہے ) ۔ اس نُقص کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک یہ مسئلہ سمجھ نہیں آسکتا ہے کہ ایک 27 فیٹ کے سائز کے عدسے کو کیسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ خلاء موجود دور دراز کے ستاروں / سیاروں سے آنے والی روشنی کو مِیچ squint کر کے دیکھ سکیں۔
زمین پر موجود ٹیلیسکوپس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے عدسوں سے کسی بھی ستارے یا سیارے سے آنے والی روشنی ہمارے کُرہء ہوائی سے ہوکر گزرتی ہے۔ ہمارے کرہء ہوائی میں موجود ہوا کے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ ستاروں سے آنے والی روشنی کو بے قاعدہ کر دیتا ہے۔
جیسا کہ ٹمٹماتا ہوا ستارہ جو ہمیں ایسا دکھائی دیتا ہے دراصل ایسا ہوتا نہیں ہے لیکن ہوا میں موجود لہروں کی وجہ سے وہ ہمیں ایسا دکھائی دیتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے گرمیوں کے دنوں میں ہمیں اسفالٹ سے بنی سڑکیں چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
نیکسٹ جنریشن ٹیلیسکوپ SCExAO کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ ستاروں سے آنے والی روشنی میں یہ پیدا ہونے والے اتار چڑھاؤ یا ٹمٹماہٹ کو ختم کر دے۔ یہ ایسے ممکن ہوگا کہ ستارے سے آنے والی روشنی کو ایک shape shifting عدسے پر منتقل کیا جائے گا۔ جس کے پیچھے دو ہزار چھوٹی چھوٹی موٹریں نصب ہوں گی وہ روشنی کی اس information کو 3000 /sec کے حساب سے deform کریں گی۔ اس طرح ہمارے کرہء ہوائی سے پڑنے والے رخنوں کو دور کیا جاسکے گا اور اسی طرح ستاروں سے آنے والی روشنی کی کرنوں کو تقریباً اسی طرح سے دیکھا جاسکے گا جیسے کہ وہ ہماری زمین کے ماحول میں داخل ہونے سے پہلے تھیں۔
اگلا مرحلہ Telescope کے squinting کے مسئلے کو حل کرنے کا ہے۔ گائیون کے بقول؛ ”ستارے کی روشنی یا چمک ایک روشنی کا ابلتا ہوا بلبلا سا ہوتا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں جو آلات استعمال کیے جارہے ہیں ان میں پیچیدہ نظام والے اپرچرز، عدسے اور ماسک جنھیں Coronagraph کہتے ہیں شامل ہیں۔ کرونا گراف ایک ایسا ماسک ہوتا ہے جوکہ اپنے اندر سے صرف ایسی روشنی کو منعکس ہونے دیتا ہے جو سیارے سے آرہی ہو۔
جب Next Gen۔ Telescopesبن جائیں گی تب rocky planets سے آنے والی روشنی کو صحیح سے پرکھا جاسکے گا اور اس روشنی کو Spectrometer کے ذریعے جانچا جائے گا۔ روشنی کو مختلف رنگوں کی ویو لینتھ (wave length ) میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ زندگی کے آثار یا رنگ جنھیں ہم Bio signature کہتے ہیں تلاش کیے جاسکیں گے۔
سیگر اور گائیون کے مطابق ہماری زمین پر پودے اور بعض بیکٹیریاز ضیائی تالیف (photosynthesis) کے دوران آکسیجن کو ایک بائی پروڈکٹ کے طور پر پیدا کرتے ہیں۔ آکسیجن ایک ایسا molecule ہے جو زمین کی سطح پر موجود ہر چیز کے ساتھ bond بناتا ہے یا بصورت دیگر ان کے ساتھ react کرتا ہے۔ زمین پر موجود زندگی کے حساب سے آکسیجن اور میتھین دو ایسی گیسیں ہیں جو کہ زندہ جانداروں کے اجسام سے متعلقہ ہیں اور دونوں گیسیں ایک دوسرے کو counter balance کرتی رہتی ہیں۔
لیکن خلاء میں زندگی کی تلاش یعنی (Extraterrestrial) زِندگی کی تلاش میں اگر ہم اپنی تلاش کو آکسیجن اور میتھین تک محدود کردیں تو یہ ایک ناقابلِ قبول زمینی سی سوچ ہوگی کیونکہ زندگی پودوں کی ضیائی تالیف کے علاوہ بھی کئی اشکال رکھتی ہے بلکہ زمین پر بھی اربوں سال تک Anaerobic شکل میں زندگی موجود رہی ہے۔ جب آکسیجن ماحول میں موجود نہ تھی۔ اگر Liquid medium، غذائی اجزاء اور توانائی دستیاب ہو تو زندگی کئی طرح سے پنپ سکتی ہے اور کئی طرح کی گیسیں پیدا کر سکتی ہے۔
اگر ان گیسوں کو جانچ لیا جائے تو ہم جان سکتے ہیں کہ وہاں کس طرح کی زندگی پائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اقسام کے بائیوسگنیچرز ہوتے ہیں جن کی ہم تلاش کر سکتے ہیں۔ پودوں میں موجود کلوروفل انفراریڈ لائٹ جیسی روشنی رفلیکٹ کرتا ہے اور اس کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا لیکن انفراریڈ ٹیلیسکوپ سے دیکھا جاسکتا ہے اور یہ ایک پودے کا Bio signature ہے۔ اگر آپ کو اس طرح کی چیز یا نِشانی کسی سیارے یا ستارے سے آنے والی روشنی میں مل جائے تو عین ممکن ہے کہ آپ نے ایک Extraterrestrial جنگل ہی ڈھونڈ لیا ہو۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کے پودے اور سبزہ مختلف قسموں کی روشنی کو جذب کرتے ہوں۔ ہوسکتا ہے وہاں کے جنگل کالے رنگ کے ہوں یعنی کے وہاں کے اشجار کا سسٹم ہمارے سیارے کے سسٹم سے بالکل مختلف ہو۔
لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم کائنات میں زِندگی کی تلاش کو پودوں تک بھی محدود کیوں رکھیں؟
لیزا کہتی ہیں کہ ہم کائنات میں زِندگی کی تلاش میں پودوں تک بھی محدُود کیوں رہیں؟ لیزا کارل سیگن انسٹیوٹ کورنیل یُونیورسٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُنھوں نے اور اُن کے کولیگز نے ایک سو سینتیس خوردبینی جانداروں جو زمین کے بُہت شدید ماحول میں بھی زِندہ ہیں اُن کا مُطالعہ کیا ہے اور اُن پر تحقیق کی ہے۔ اِس سے اُنھیں یہ اندازہ لگانے میں مُشکل پیش نہیں آئی کہ بعض ایسے خوردبینی جاندار ممکنہ طور پر شدید گرم یا ٹھنڈے سیاروں پر بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ لیزا کو بھی اگلی نسل کی ٹیلیسکوپس کا شدید اِنتظار ہے۔
سن 2024 میں یورپئین سدرن ابزرویٹری میں ایک ایکسٹریملی لارج ٹیلیسکوپ ELT لانچ ہوگی جو چِلی کے ایٹاکاما صحرا میں نصب کی جائے گی۔ اِس کے ایک سو اٹھائیس فیٹ کے عدسے کی صلاحیت سبارو جیسی تمام دُوربینوں سے بہتر ہوگی اور یہ گائیون کے انسٹرومینٹ کی ایک بہتر اور زیادہ طاقتور شکل ہوگی۔
یہ ELT تمام روکی سیاروں جو سُرخ بونے ستاروں Red Dwarf Stars کے قابلِ زِندگی حصوں میں موجود ہیں اُن کی بہتر تصویر کَشی کرسکے گی۔ سُرخ بونے ستارے ہماری کہکشاں میں بُہت عام ہیں۔ یہ ہمارے سُورج کی نسبت چھوٹے اور کم چمکدار ہیں۔ اِن کے سیارے ہماری زمین کے چاند کی طرح محض اپنی ایک طرف سے ہی اپنے ستارے /سُورج کے نزدیک ہوتے ہیں جِس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ایک سائیڈ شدید گرم اور ایک سائیڈ شدید ٹھنڈی تو ایسے سیاروں پر زِندگی درمیانے عِلاقے یعنی مِڈل زون میں بہرحال مُمکن ہوسکتی ہے۔
ایسا ہی ایک پتھریلی سطح والا سیارہ پروگزیما سینٹوری بی Proxima Centauri B کہلاتا ہے۔ یہ ہم سے محض چار اعشاریہ دو نُوری سال ( پچیس کھرب میل ) کے فاصلے پر ہے۔ گائیون کے مُطابق یہ بڑا دِلچسپ ٹارگٹ ہے لیکن گائیون بھی سارا سیگر سے مُتفق ہوتے ہے یہی سمجھتا ہے کہ جیسے ہماری زمین سُورج کے گرد ایک مُناسب فاصلے پر چکر لگا رہی ہے تو ایسے ہی سیارے یا نظام میں زِندگی کی تلاش اور وُجود زیادہ حقیقی ہوسکتا ہے بہرحال ابھی بھی خلاء کی سائنس، تکنیک اور آلات اُس جِسے پر نہیں پُہنچے جو اِس تلاش کو ایک ٹھوس شکل دے سکے تو ابھی وقت لگے گا۔
سٹار شیڈ اٹھائیس پُھول کی پتیوں جیسی پلیٹس کی شکل کا ایک آلہ ہے جو سُورج مُکھی کے پُھول جیسا ہے اور سو فیٹ سے زیادہ بڑا ہے یہ ستاروں سے آنے والی روشنی کو واپس منعکس کرکے ایک سیاہی مائل رنگ کا حلقہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جِس کو انفراریڈ دُوربین کے ذریعے مزید جانچا جاسکتا ہے۔ اِس طرح کی ایک دُوربین وائڈ فیلڈ انفراریڈ سروے ٹیلیسکوپ W ایف آئی آر ST جو 2020 کے وسط تک مکمل ہوجائے گی اور جب سیاروں کو اُن کے ستاروں کی روشنی کو بلاک کرکے جانچا جائے گا تو زِندگی کے آثار یا اِمکانات تلاش کرنے کافی آسان ہوجائیں گے۔
جان رچِرڈز شُمالی کیلیفورنیا کے ایک دُور دراز عِلاقے میں ”ذہین خلائی مُخلوق“ یا Extraterrestrial Intelligence جِس کو SETI کہا جاتا ہے کی تلاش میں پچھلے دس سال سر گرداں ہے۔ SETI انسٹیوٹ کے سیلیکون ہیڈکوارٹر سے تین سو چالیس میل دُور ایلن ٹیلی سکوپ اررے ATA موجود ہے جو زمین پر اپنی نوعیت کا واحد پروجیکٹ ہے جو کائنات میں ممکنہ طور پر بسنے والی کِسی بھی تہذیب کی طرف سے مِلنے والے ریڈیو سگنلز کی تلاش پر کام کررہا ہے۔
مائیکروسوفٹ کے بانیوں میں سے ایک پال ایلن نے اِس پروجیکٹ کو فنڈ کیا تھا۔ یہ تین سو پچاس ریڈیو ٹیلیسکوپس ہیں جِن کے ساتھ بیس فٹ قطر کی چھے ڈشز dishes بنائی گئی تھیں۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ابھی تک محض یہ بیالیس ہی ہوسکی ہیں اور SETI کا کام اُس طرح رفتار نہیں پکڑ رہا جیسے اُسے پکڑنی چاہیے تھی، پہلے یہاں سات سائنسدان کام کرتے تھے اور اب رِچرڈز اکیلا کام کرتا ہے۔ رچرڈز کے بقول تلاش مُشکل ہے اور SETI کی ساٹھ سالہ تاریخ میں ابھی تک جِتنے بھی سگنل الارم آئے ہیں وُہ غلط ثابت ہُوئے ہیں۔ رچرڈز بیس ہزار ریڈ ڈوارف سیاروں کو اپنا ٹارگٹ بنائے ہُوئے ہے لیکن صحیح وقت پر، صحیح سمت میں، صحیح ریڈیو فریکوئینسی پر ایسے کِسی بھی سگنل کو قابُو کرپانا جو ایلینز کی طرف سے ہی آیا ہو ایک نہایت مُشکل اور تکلیف دِہ اِنتظار پر مُنحصر ہے۔
ایک رشین سرمایہ دار یُوری مِلنر جِس کا نام مشہور خلاباز یُوری گاگرین کے نام پر رکھا گیا ہے اُس نے 2015 میں کُل دو سو ملین ڈالر کائنات میں زِندگی کی تلاش کے لئے وقف کیے ہیں جِن میں سے سو ملین ڈالر محض SETI یعنی ایلین کی تلاش کے لئے ہیں۔ یُوری ملنر وُہ بندہ ہے جِس نے فیس بُک، ٹویٹر اور دیگر بڑی کمپنیز میں تب سرمایہ لگایا تھا جب ابھی یہ اپنی اِبتدا میں تِھیں اور ظاہر ہے اُس سرمایہ کاری نے اُسے کہاں سے کہاں پُہنچا دیا۔ یُوری کے بقول اگر اُس کے سو ملین ڈالرز ایلین کی تلاش میں کِسی بھی طرح کی مدد دے سکتے ہیں تو پِھر یہ سو ملین ڈالر بالکل دُرست استعمال ہورہے ہیں۔
ہمارا قریب ترین سٹار سسٹم الفا سینٹوری Alpha Centauri ہے، روکی پلینٹ پروگزیما بی بھی اِسی نِظام میں موجود ہے۔ پہلا ووئیجر Voyager جو 1977 میں روانہ کیا گیا تھا اُس کو interstellar space میں پُہنچنے کے لئے پینتیس سال لگے تھے۔ اِس رفتار پر الفا سینٹوری پر پُہنچنے کے لئے پچھتر ہزار سال درکار ہوں گے۔ سٹارشاٹ Star Shot کے موجودہ پروگرام کے تحت چھوٹے سائز یعنی ایک کنکر جیسے سائز کے سپیس شِپ بنائے جائیں گے جو وہاں پُہنچ کر معلومات اور تصاویر واپس بھیجیں گے۔
اِن کی رفتار روشنی کی رفتار کا پانچواں حِصہ ہوگی اور یہ محض بیس سال میں الفا سینٹوری سسٹم میں پُہنچ جائیں گے۔ اِن کا آئیڈیا ماہرِ طبیعیات فِلپ لُوبن کا ہے۔ اِن کے نام نِناز، پِنٹاز اور سانٹا مارئیس Ninas، Pintas and Santa Marias رکھے گئے ہیں اور اِن کو زمین پر موجود لیزر کے نِظام laser array سے آگے خلاء میں پُش کِیا جائے گا۔ اِس لیزر کا نظام دس لاکھ سُورجوں سے بھی طاقتور ہے۔ ابھی مزید پانچ سے دَس سال تک یہ مُمکن ہوسکے گا۔
ابھی خلاء میں زِندگی یا کِسی اور تہذیب کی تلاش میں وقت لگے گا اور یہ بھی مُمکن ہے کہ کئی تہذیبوں نے اپنے آپ کو ٹیکنالوجی کی بُلند ترین سطح پر لے جاکر تباہ بھی کر ڈالا ہو۔ کائنات کے اسرار میں کیا کیا چُھپا ہُوا ہے یہ جاننا باقی ہے اِس کو ڈُھونڈنے میں سائنس دان اپنی تگ و دو کررہے ہیں اور ایک دِن یہ تلاش مکمل ہوجائے گی۔ سیگر سمیت بعض دیگر سائنٹسٹس کا خیال ہے کہ 2030 کے آس پاس کوئی نہ کوئی بڑا بریک تُھرو مِلنے کا اِمکان ہے۔
Translated and summarised from National Geographic Magazine’s article , “ We are not alone .”