Myth, History & Religion:
ہر مذہب کا ایک تاریخی پس منظر ہے لہذا جب کسی مذہب کے مآخذ، ارتقاء اور مذہبی رسومات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہونا چاہیۓ کہ اسے مذہبی عقیدت, محبت، نفرت یا جانبدارانہ رویے کے بجائے علمی نقطہ نظر سے پرکھنے کی کوشش کی جائے۔
مغربی، جمہوری اور سیکولر معاشروں نے یہ بات ایک طویل عرصے کی محنت کے بعد سیکھ لی ہے، مگر بد قسمتی سے پاکستان اور اس سے ملتے جلتے معاشرے ذاتی مذہب و ایمان کو مذہب اور کفر کی جنگ بنا دیتے ہیں، اور عقل و شعور پر مبنی کسی بھی تحقیق کو جائز، ناجائز ہتھکنڈوں سے بزور شمشیر روکنے کی کوشش کرتے ہیں اسی وجہ سےہمارا معاشرہ عدم برداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دنیا بھر کی قدیم تہذیبوں میں سیاسی سماجی معاشرتی معاملات پر انسان کے بنائے ہوئے قوانین کو خداؤں کے نام سے منسوب کرنے کی روایت بہت قدیم ہے.
جسکا اصل مقصد ان قوانین کے غیر منصفانہ یا بادشاہوں کے آمرانہ طرز حکومت پر سوال اٹھائے جانے پر ایک غير مرئي طاقت کے حوالے سے ان جائز سوالات کو کچلنا نسبتاً آساں ہوتا ہے، لہذا انسان بہت سے ظلم خدا کی مرضی سمجھ کر برداشت کر لیتا ہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دیومالائی کہانیاں، اور مذہب دو مختلف چیزیں ہیں اسکے علاؤہ مذہبی کتابوں کے واقعات کو مذہبی عقیدت کے باعث اصل تاریخ یا اٹل سچائی مانتے ہیں، جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ اب یہ بات کسی حد مسلمہ ہوچکی ہے کہ بت پرستی (Peganism) یا بہت سے خداؤں (Polytheism) کی پرستش کرنے والے مذاہب ابراہیمی (Monotheistic Religion) عقیدوں سے کئی صدیاں قبل وجود میں آچکے تھے.
Are the Biblical characters & stories real?
The oldest codes of law, Ur-Nammu, Hammurabi, Nesilim, Moses & others۔
دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں رائج قوانین کی معلومات ہمیں آثار قدیمہ اور تاریخ کے محققین کے ذریعے پہنچتی ہے جنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لیا، جس سے یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق دنیا کے قدیم ترین قوانین ارنمو (The Codes Of Ur-Nammu) کے ہیں جو کہ ضبط تحریر میں بھی آئے۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
1. ارنمو قوانین (Codes of Ur-Nammu) ان کی کل تعداد 57 قوانین تھی۔ ارنمو (Ur-Nammu) میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق اور اسکے اطراف) کے علاقے کی ایک تہذیب سمیرین (Sumerian) کا بادشاہ تھا جس کا دور حکمرانی 2380 bc سے 2360 bc تھا اور اسی کے دور حکومت میں یہ قوانین مرتب ہوئے۔
2. نیسیلم قوانین (The Codes of Nesilim) ہٹٹائٹ (Hittites) قوم کے حکمرانوں کے بنائے ہوئے ہیں جن کی تعداد 200 قوانین ہیں جو کہ 1650 BC سے 1500 BC کے دوران مرتب ہوئے یہ قوانین بھی مٹی کی تختیوں پر دستاویز کی شکل میں موجود ہیں۔
ہٹٹائٹس (Hittites) اناطولیہ کے باشندے تھے جنہوں نے کوسارا یا نیشا میں اپنی پہلی ریاست قائم کی اسی قوم کی ایمپائر ہیتوسا (Hattusa) جو کہ اناطولیہ کے درمیانی اور شمالی علاقوں سے پھیلتی ہوئی اپنے عروج کے زمانے میں لیونٹ اور میسوپوٹیمیا (Levant & Mesopotamia) تک جا پہنچی۔
3. بیبیلونین حکمران حمورابی کے قوانین (The Codes of Hammurabi) تو انتہائی مشہور و معروف ہیں، حمورابی کے 282 قوانین قدیم تہذیبوں میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، یہ قوانین 1786 bc میں بنائے گئے، جو کہ ساتویں صدی قبل مسیح کے میسوپوٹیمیا کے حکمث اشربانیپل (Asherbanipal) کی نینواہ میں بنائی ہوئی لائبریری سے دریافت ہوئے۔ یہ قوانین بھی مٹی کی تختیوں پر موجود ہیں۔
4. ساتویں صدی قبل مسیح میں یونان کے ڈریکو(Draco)کا ڑریکونین آئین(Draconian Constitution)بنایا گیا۔
5. رومن The Table of Twelve قوانین 450 bc میں بارہ کانسی کی پلیٹوں پر لکھے گئے تھے.
6. سپارٹا کے لاکرگس (Lycurgus the law giver) کے قوانین 700 BC میں رائج ہوئے۔
7. ایتھنز یونان کے سولون (Solon) نے 550bc کے قریب ڈریکونین آئین جو کہ انتہائی سخت سزاؤں پر مشتمل تھا انہیں تبدیل کرکے جرم اور اور اسکی مستحق سزا کا اصول لاگو کیا۔
مندرجہ بالا قوانین اور انکے زمانوں کا زکر کرنا یوں مقصود تھا کہ انتہائی قدیم ہونے کے باوجود یہ تحریری اشکال میں ثبوت کے طور پر موجود ہیں جبکہ موسیٰ کے قوانین صرف مذہبی کتابوں میں تو ملتے ہیں مگر اصل ریکارڈ ثبوت کے ساتھ پیش نہیں کیا جاسکتا۔
اب آتے ہیں بائبل عہد نامہ قدیم اور حضرت موسٰی کی جانب:
ابراہیمی مذاہب میں کے قوانین کی بنیاد حضرت موسٰی پر نازل ہونے والے 10 (Ten Commandments) خدائی احکامات پر مبنی ہے اور اسکے علاوہ 603 احکامات مذید بھی ہیں جن کی کل تعداد 613 بنتی ہے مگر 10 احکامات یوں مشہور ہیں کہ بائبل کے مطابق یہ دس احکامات پتھر کی دو سلوں پر حضرت موسیٰ کو خدا کی طرف سے کوہ طور (Mount Sinai) پر موصول ہوئے تھے۔یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ حضرت موسٰی اور ان کی زندگی کا زکر صرف مذہبی کتابوں سے ہی ملتا ہے جب کہ حقیقتاً انکا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں جن کی بہت سی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
بائبل عہد نامی قدیم (Old Testament) کے مطابق حضرت موسٰی کی واپسی جب کوہ طور سے ہوئی تو وہ اپنے ہمراہ پتھر کی دو سلیں بھی ساتھ لائے جن پر 10 خدائی احکامات درج تھے جو کہ خدا نے اپنی انگلی سے ان پتھر کی سلوں پر لکھے تھے۔
کوہ طور سے واپسی پر جب موسیٰ نے دیکھا کہ ان کی غیر موجودگی میں لوگوں نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کی عبادت شروع کر دی ہے تو انہوں نے طیش میں آکر پتھر کی دونوں سلیں زمین پر دے ماریں جس سے وہ سلیں ٹوٹ کر تباہ ہو گئیں، (یعنی خدا کی لکھائی کا وجود نہیں رہا) کچھ عرصے بعد دو نئی سلوں پر حضرت موسٰی نے دوبارہ وہی احکامات لکھے، احکامات لکھنے کے لئے چھینی تو موسیٰ کے ہاتھوں میں تھی مگر لکھائی خدا کی جانب سے تھی, (Exodus 31:18, 32:29, 34:1) بحوالہ بائبل۔
پتھر کی ان سلوں کا زکر سوائے مذہبی کتابوں یا ان سے منسوب تحاریر میں ہے مگر اس زمانے کی اریب قریب کی تہذیبوں میں ان کا ذکر کہی نہیں ملتا جن سے بنی اسرائیل کے تعلقات خواہ وہ جارحانہ ہوں یا دوستانہ مگر تھے ضرور، نیز یہ کہ ان علاقوں میں لکھنے اور ریکارڈ رکھنے کا نظام بھی موجود تھا۔
اب آتے ہیں طابوت سکینہ (The Ark of Covenant) کی جانب، بائبل عہد نامہ قدیم کے مطابق طابوت سکینہ حضرت موسیٰ کی قیادت میں بحیرہ احمر والے واقع کے ایک سال بعد بنایا گیا جس کی تاریخ لگ بھگ 1249 قبل از مسیح بنتی ہے۔ لکڑی کا بنا ہو یہ طابوت سکینہ جس پر خالص سونے کا پتر چڑھایا گیا تھا یہودیوں کے لئے انتہائی مقدس شے تھا، جس میں تین اشیاء رکھی گئیں تھیں، اول پتھر کی دو سلیں جس پر احکامات خداوندی درج تھے، دوئم سونے کا ایک مرتبان جس میں من و سلویٰ تھا اور سوئم حضرت ہارون کا عصا۔
بائبل کے مطابق طابوت سکینہ تمام جنگوں میں یہودی افواج کی رہنمائی کرتا تھا جس کی رحمت سے وہ جنگیں جیت لیتے تھے۔ یہ طابوت سکینہ ایک بار 1180 قبل مسیح میں فلسطینیوں نے یہودیوں سے چھین لیا تھا اور یہ جنگ ایبن عیزر (Eben-Ezer) کے مقام پر ہوئی تھی، طابوت سکینہ سات ماہ فلسطینیوں کے قبضے میں رہا بالآخر فلسطینیوں نے اسے یہودیوں کو واپس کر دیا کیونکہ اس طابوت کو رکھنے کی وجہ سے فلسطینیوں پر کچھ آسمانی مصیبتیں نازل ہورہی تھیں۔ بہرحال یہ طابوت سکینہ 586 قبل مسیح میں اس وقت غائب ہو گیا جب بابلی (Babylonian) افواج نے یروشلم پر نصربخت (Nebuchadnezzar) کی قیادت میں حملہ کیا، ہیکل سلیمانی کو تباہ کیا، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو حضرت دانیال سمیت قید کرلیا اور باقی ماندہ یہودی یروشلم سے بیدخل کردئیے گئے یا بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ لہذا طابوت سکینہ (Ark of Covenant) آج تک لاپتہ ہے۔
بہت سے نامی گرامی محققین اور ان کی تحقیق کے مطابق موسیٰ ایک فرضی کردار ہے، جسے کچھ حقیقی اور بہت سے دیومالائی کرداروں سے ملا کر بنایا گیا ہے مثلاً ساراگون،حمورابی،کرشنا، اختامون،راموس، رامولس،پرسیس،مایئسس وغیرہ۔
اولڈ ٹیسٹیمنٹ (توریت، زبور، اور صحفوں سمیت39کتابوں کا مجموعہ ہے بائبل عہد نامہ قدیم چونکہ 250 bc کے لگ بھگ لکھی گئی، اسی وجہ سے موسیٰ یا ان سے قبل بنی اسرائیل کے نبیوں کا زکر سوائے مذہبی کتابوں کے تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتا۔
محققین(Egyptologist)اور آرکیالوجسٹ ان کہانیوں کی تصدیق نہیں کرتےجس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قدیم مصر ہائیروگلافی(Hieroglyphics) اور میسوپوٹیمیا میں کیونیفورم (Cuneiform) طرز لکھائی کا سلسلہ 3ہزار سال قبل مسیح سے رائج تھا اور ان علاقوں میں تاریخ باقائدگی سے لکھی جاتی تھی جو آج تک لاکھوں کی تعداد میں مٹی کی تختیوں قدیم عمارات کی دیواروں اور پتھر کی سلوں پر موجود اور محفوظ ہیں لیکن بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے کسی ایک کا نام بھی موجود نہیں, حالانکہ یہ نبی انہی خطوں میں وارد ہوئے.
توریت کے مطابق موسیٰ کا زمانہ 1375 سال قبل مسیح کا ہے اس سے مراد یہ کہ مصر میں اس وقت کا فرعون سیٹی اول (Seti1) یا رامیسس دوم (Ramesis II) تھا۔ موسیٰ اور بنی اسرائیل کی ہجرت، سمندر کا دو حصوں میں تقسیم ہوجانا اسکے علاوہ فرعون اور مصر پہ دس سے زائد , طاعون نازل ہوئے، جن میں مکھیوں، مینڈکوں، تاریکی، ژالہ باری, تمام مویشیوں کے مرنے کے علاوہ آخری طاعون جو تمام مصریوں فرعون سمیت کی سب سے بڑی اولاد کے مرنے کا طاعون بھی شامل ہے، ان واقعات کا قدیم مصری تاریخ میں سرے سے کوئی زکر نہیں ہے۔
اکثر نامی گرامی اسکالرز جن میں ڈی ایم مرڈوک، کیرسی گریوذ، بارٹ اِہرمین، کیرن آرمسٹرونگ، جوناتھن کِرش، لائیڈ گراہم کے علاوہ دیگر کی رائے میں Polytheistic مذاہب میں سے Monotheisticمذاہب نمودار ہوئے انکا یہ بھی خیال ہے کہ بائبل خصوصاً اولڈ ٹیسٹیمنٹ دراصل میسوپوٹیمیا اور مصر کی قدیم دیومالائی کہانیوں کا چربہ ہے. نیو ٹیسٹیمنٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کرسچینیٹی ایجاد کی گئی ہے, حضرت عیسیٰ کا کردار قدیم مصری ہورس(Horus)چربہ جو کہ مصری دیوتا(Osiris)کا بیٹا تھا اور اسے یورپ میں قابل قبول بنانے کے لیے قدیم یونانی دیومالائی داستانوں کی آمیزش کر دی گئی.
اگر بائبل اولڈ ٹیسٹیمنٹ اور Enuma Elish کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں میں کتنی مماثلت ہے. یہاں یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہEnuma Elish بیبیلونین ورژن سترہ سو BC میں مٹی کی سات تختیوں پر لکھی گئی تھی، اس کے مقابلے میں اولڈ ٹیسٹیمنٹ کی موجودہ شکل 250 BC میں مرتب ہوئی، یعنی Enuma Elish کے 1500 سو سال کے بعد. بائبل اولڈ ٹیسٹیمنٹ میں Book of Genesis اور Enuma Elish دونوں ہی کائنات کی تخلیق بیان کرتی ہیں. ان دونوں مسودوں میں سات دن بہت اہم ہیں۔ اینوماایلش کا آغاز when on high سے ہوتا ہے اور جینیسس کا in the beginning سے۔
اب آتے ہیں ان دیومالائی کرداروں کی طرف جن کے حالات سے موسیٰ کا کردار ملتا جلتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی زندگی کے اہم واقعات:
– نجومیوں کی پیشنگوئی کے مطابق نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کروانا-موسیٰ بچ نکلے۔
– بانس کی ٹوکری میں رکھ کر دریا میں بہا دیا جانا۔
– پرورش شاہی محل میں ہونا۔
– فرعون کی حکومت کی تباہی۔
– آسمانی کتاب کا ایک پہاڑ پر نزول۔
– مذہبی اور دنیاوی قانون دینے والا (Ten Commandments)۔
– صرف ایک خدا کی عبادت (Monotheism) پر اسرار کرنے والا.
Similarities between Moses and other characters:
1. سارگون (Sargon of Akkad 2250 BC)جو موسیٰ سے کم وبیش ایک ہزار سال پہلے آیا، اسے بھی اسکی ماں نے بانس کی ٹوکری میں رکھ کر دریا میں بہا دیا تھا اور شاہی محل میں اسکی پرورش ہوئی۔ سارگون نے بلاآخر حکمران کو نیست ونابود کردیا۔
2. کرشنا کو اسکی ماں دیواکی نے بانس کی ٹوکری میں رکھ کر دریا میں بہا دیا تھا کیونکہ اسکا حکمران بھائی کامسا ایک ظالم حکمران تھا، نجومیوں کی پشنگوئی کے مطابق کرشنا کو مار دیا جانا تھا۔ مہا بھارت موسیٰ کے زمانے سے بہت پہلے (2500 bc) لکھی گئی ہے۔ کرشنا بھگوان خدائی اوتار تو پیدائشی ہی تھا اس نے بھی اپنے حکمران ماموں کو ٹھکانے لگا دیا۔ ہندو مت کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کرشنا اور ارجن کے آپس میں سوال وجواب ہر ہی مرتب ہے۔
5. رومن راموس اور رامولس (779 bc) کو بھی ایک ٹوکری رکھ کر دریا میں بہا دیا گیا۔
5. قدیم مصری دیومالائی کرداروں مائسس، راہرکھاتی، یونان کے پرسئیس کی بھی کم وبیش یہی کہانی ہے۔
6. یونان سپارٹا کے لاکرگس پر پہاڑ پر قانون اتارا گیا اسی وجہ سے Lycurgus the lawgiverکہا جاتا ہے۔
7. موسیٰ سے 200 سال پہلے بیبیلونئین کے حکمران حمورابی نے بہت سے قوانین بنائے تھے جوCode of Hemmurabiکہلاتے ہیں اور مٹی کی تختیوں پر موجود ہیں۔ موسیٰ کے قوانین کی اکثریت حمورابی کے قوانین سے ملتی جلتی ہے۔
8. قدیم مصری حکمران آختامون جس کا زمانہ حضرت موسیٰ سے سو سال پہلے کا ہے اس نے مصر میں کثیر خداؤں کی پوجا کو مسترد کرکے ایک خدا کی عبادت کا تصور قائم کیا۔
References
The Myth of the Israelite Lawgiver/D.M. Murdock
Did Moses Exist?/ D.M. Murdock
Moses, Theft from Egypt /D.M. Murdock
My People The Story of the Jews/Abby Eban
The Land that I Show You/Stanley Feldstein
Bible King James Version
Ancient Egypt/David P. Silverman
The Sumerians: A history from beginning to end/By Henry Freeman
101 Myths of Bible/Gary Greenberg
Roma/Steven Saylor
Iliad and Odyssey by Homer
When Gods Came Down/ Alan F. Alfred
The Sumerians: Their history, culture, and characters
Myths from Mesopotamia/Stephaney Dalley
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...