فلم ’’ہیر رانجھا ‘‘ میں رانجھا بننے والے اعجاز، ملکہ ترنم نور جہاں کے شوہر تھے۔ نور جہاں کی زندگی میں جتنے بھی مرد آئے اور گئے، انہوں نے کسی کی پروا نہیں کی، آنسو بہائے تو صرف اعجاز کیلئے۔
اعجاز نے خود بھی بہت کمایا، نور جہاں کا سب کچھ بھی انہی کا تھا۔ پھر ایک اور اداکارہ سے عشق ہوا، وہ بھی ایک پوری مارکیٹ کی مالک تھی اور سب کچھ اعجاز پر نچھاور کرنے کیلئے تیار تھی۔
اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے ایک دن اعجاز برطانوی ایر پورٹ پر پکڑے گئے۔ انہوں نے فلم کے خالی ڈبوں میں چرس چھپا رکھی تھی۔
3 مارچ 1978 کو5 سال قید اور25 ہزار پونڈ جرمانے کی سزا ہوئی۔ ملکہ ترنم بچیوں کو ساتھ لے کر ملنے جاتی رہیں۔
لاہور میں چئیرنگ کراس ( دی مال ) پر اسمبلی ہال کے سامنے بہت بڑی بلڈنگ ہے۔۔۔ شاہ دین منزل۔۔۔۔ معلوم نہیں جسٹس شاہ دین ہمایوں نے خود بنوائی یا ان کے صاحبزادے میاں بشیر احمد نے، جنہوں نے والد کی یاد میں رسالہ" ہمایوں" بھی نکالا تھا۔ انہی میاں بشیر احمد نے 23 مارچ1940 کو لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی جلسے میں قائد اعظم کے سامنے اپنی مشہور نظم " ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح" پڑھی تھی۔
اس بلڈنگ کے علاوہ بھی باغبان پورہ اور لاہور کے دوسرے علاقوں میں ان کی بے شمار جائیداد تھی، اور بہت زیادہ عزت بھی۔
ان کے صاحبزادے میاں منظر بشیر ان کے وارث تھے۔ کچھ نہ کرکے بھی ان کی کئی پشتیں گھر بیٹھ کر کھا سکتی تھیں۔ فراغت ہی فراغت تھی، اس لیے سیاست میں بھی ٹانگ اڑاتے تھے۔ "جسٹس پارٹی"بھی بنا ڈالی۔ ہر لاہوری بلکہ ہر اخبار بین ان کے نام سے واقف تھا۔
ایک دن خبر آئی کہ لندن کے ایر پورٹ پر منشیات سمیت پکڑے گئے۔
جن دونوں اصحاب کا ذکر کیا ہے، ظاہر ہے برطانیہ کی حکومت یا پولیس کی ان سے کوئی مخاصمت بھی نہیں تھی۔
وہ پاکستان میں پکڑے جاتے تو واویلا کیا جاتا کہ سیاسی مخالفت یا کسی دشمنی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
صفائی پیش کی جاتی کہ اتنی دولت ہے، انہیں کیا ضرورت تھی ایسے دھندے کی؟ یا پھر یہ کہ انہوں نے تو کبھی سگریٹ کو بھی ہاتھ نہیں لگایا وغیرہ وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہوس کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی۔ اور جب کام صرف اتنا ہو کہ بس ایک بیگ یا بریف کیس اپنی گارڈز والی گاڑی پر لاہور سے کراچی، فیصل آباد سے لاہور یا پشاور سے اسلام آباد پہنچانا ہو،اور آگے کا کام کسی اور نے کرنا ہو اور لاکھوں روپے اتنے سے کام کے مل جانے ہوں تو ایسی ترغیب اور لالچ سے بچنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
خود کو اطمینان دلانے کی بہت سی دلیلیں گھڑ لی جاتی ہیں کہ میں نے تو ہاتھ بھی نہیں لگایا، جنہوں نے استعمال کرنی ہے، انہیں تو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جانی ہے، اچھا ہے کفار کی اولاد خراب ہو، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
اگر کوئی پکڑا جائے تو اس کے حامی طنزا" یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ چلو بھینس چوری کا کیس نہیں بنادیا۔ انہیں معلوم نہیں کہ بھینس چوری کے تمام کیس بھی جھوٹے نہیں ہوتے ۔
بھینس چوری بھی یہی اشرافیہ کراتی ہے۔ غریب کارندے بھینس" کھول" تو لاتے ہیں۔ ان کے پاس رکھنے کی کوئی جگہ یا انتظام نہیں ہوتا۔ وہ ایسے ہی بڑے زمینداروں، نمبرداروں، کونسلروں، چئیرمینوں، ناظموں، اسمبلی ممبروں کے ڈیروں اور مویشی خانوں میں باندھی جاتی ہیں جہاں پولیس والے کبھی آتے ہیں تو بس سلام کرنے ۔
یہ ’’ شرفأ ‘‘ نئے تھانیدار کے پہنچتے ہی ایک بھینس بچوں کے دودھ کیلئے اس کی رہائش گاہ پر بندھوا دیتے ہیں ۔
جنہیں رسہ گیر کہا جاتا ہے ، وہ بیشتر یہی ہوتے ہیں۔ کوئی کھوجی کھرا دیکھتا پہنچ بھی جائے تو بھینس انہیں کچھ نذرانہ دے کر ہی واپس لے جائی جاسکتی ہے۔ دیہی پس منظر والے دوست اس کی تصدیق کریں گے۔
یہ لوگ حکومتی پارٹی میں ہوتے ہیں تو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اور اپوزیشن پارٹی میں ہوں تو انتقامی کارروائی کا شور مچادیا جاتا ہے۔
یہ عمومی بات ہے۔ کسی خاص کیس کے سچے یا جھوٹے ہونے پر کوئی اصرار نہیں۔
“