حارث میرا بچپن کا دوست ہے۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے جب ایک دن وہ غصے میں آ گیا۔ اس سے پہلے میں نے اسے اتنا غضبناک کبھی نہ دیکھا تھا۔ بولے جا رہا تھا۔
جب بھی کوئی کام کرنے لگو، بجلی چلی جاتی ہے۔ تنخواہ ہے کہ بیس تاریخ کو وفات پا جاتی ہے۔ بیس سال ہو گئے ملازمت کرتے، تا حال دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ چھت اپنی ہو جائے۔ سرکاری ہسپتال جائیں تو کتوں‘ بلیوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ پرائیویٹ کلینک جائیں تو کھال کھینچ کر تجوری میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے یار؟
وطنِ عزیز کے بارے میں اس نے نازیبا گفتگو کی۔ دوسرے دن وہ ایک کنسلٹنٹ کے پاس گیا جو امیگریشن کے شعبے میں تھا۔ اس کے بعد حارث گویا ایک گھمن گھیری میں آ گیا۔ اس نے رات دیکھا نہ دن! بارش دیکھی نہ دھوپ۔ گرمی دیکھی نہ جاڑا۔ امیگریشن والا کنسلٹنٹ کہتا: فلاں دستاویز درکار ہے۔ حارث اس دستاویز کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس نے کچہریوں، بینکوں، یونین کونسلوں، تھانوں، اور نہ جانے کہاں کہاں کے چکر لگائے۔ بارہا اپنے آبائی گاؤں گیا۔ پٹوار خانوں کی خاک چھانی۔ چھ ماہ میں اس نے کنسلٹنٹ کے سارے تقاضے پورے کر دیے۔ ڈھیر ساری فیس ادا کی۔ ڈیڑھ سال مزید گزرے اور اسے امریکہ کا ویزا مل گیا۔ لمبی چوڑی شرطیں تھیں۔ پہلے گرین کارڈ ملے گا۔ پھر شہریت مل جائے گی۔ قصہ کوتاہ، ایک ٹھٹھرتی صبح تھی جب حارث اپنے نئے وطن روانہ ہو گیا۔ میں بھی اس کے رشتے داروں کے ہمراہ ایئر پورٹ پر اسے رخصت کرنے کے لیے موجود تھا۔ فرط مسرت سے اس کا چہرا دمک رہا تھا۔
یہ ہماری جوانی کی شام تھی اور ادھیڑ عمری کی صبحِ کاذب! اس کے جانے کے بعد میں بھی لیل و نہار کی چکی میں پستا رہا۔ وہ بھی وہاں جا کر جدوجہد میں پڑ گیا۔ کئی اَوکھی (Odd) نوکریاں بھی اسے کرنا پڑیں۔ بہر طور آہستہ آہستہ وہ جگہ پکڑتا گیا۔ اس کے حالات بہتر ہوتے گئے۔ ایک دن اس نے خوشخبری سنائی کہ اسے شہریت مل رہی ہے۔ ایک تقریب ہوئی اور اس نے امریکی شہریت کا حلف اُٹھا لیا۔ اس نے قسم اٹھا کر عہد کیا کہ میں حلفاً اعلان کرتا ہوں کہ میں قطعیت کے ساتھ اور پوری طرح، ایسے کسی بھی غیر ملکی شہزادے، حکمران، ریاست یا خود مختار ملک کو، جس کی میں اب سے پہلے رعایا یا شہری تھا، چھوڑتا ہوں، ترک کرتا ہوں اور اس سے لا تعلق ہوتا ہوں۔
میں نے اسے مبارکباد تو دی مگر سوچتا رہا کہ کیا اس نے پاکستان کو Renounce and abjure کرنے کے لیے قسم کھا لی؟؟ یہی دو لفظ حلف میں استعمال ہوئے تھے۔ میری قلاش لائبریری میں جتنی لغات تھیں، ساری کھنگال ڈالیں۔
Renounce کا مطلب لکھا تھا: لا تعلق ہونا، دست بردار ہونا۔ چھوڑ دینا یا ترک کر دینا۔ رد کر دینا۔ پھینک دینا۔ نامنظور، مسترد کر دینا، طلاق دے دینا۔ انکار کرنا۔ Abjure کے معنی لکھے تھے: حلفاً دست بردار یا منکِر ہونا۔ قسم کھا کر انکار کرنا۔ حلفاً مسترد کرنا۔ با ضابطہ انکار کرنا، تائب ہونا، ترک کرنا، دست کَش ہونا، توبہ کرنا۔
موجودہ حکومت حارث کو اجازت دے رہی ہے کہ پاکستان میں انتخابات ہوں تو وہ بھی آ کر اپنی پسند کے، قومی اور صوبائی اسمبلی کے، امیدواروں کو ووٹ دے۔ تو کیا حارث اس ملک میں آ کر ووٹ ڈالے گا جسے، وہ حلفاً مسترد کر چکا ہے؟ جس سے لا تعلق ہو چکا ہے؟
جس سے دست برادر ہو چکا ہے؟ حارث امریکی شہری ہے۔ آج اگر وہ حلف اٹھا کر امریکہ سے لا تعلق ہو جائے، امریکہ سے دست کَش ہو جائے اور امریکہ کو مسترد کر دے، تو کیا اسے امریکی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ملے گی؟ یقینا نہیں! تو پھر کیا پاکستان ایسا ہی بے وقعت ملک ہے کہ کل آپ اسے مسترد کریں اور آج اس کی حکومت سازی میں دخل دینے لگیں؟ کیا پاکستان کی کوئی عزت نہیں؟ کیا پاکستانی عزت نفس سے اس قدر محروم ہو چکے ہیں کہ پاکستان سے لا تعلقی کا حلفاً اعلان کرنے والوں کو ووٹ ڈالتا دیکھیں گے؟
حارث چالیس سال سے امریکہ میں رہ رہا ہے۔ اسمبلی کے ممبر نے، حکومتی پارٹی نے، حکومت نے جتنے انتخابی وعدے کیے تھے، وہ پاکستان کے بارے میں تھے۔ امریکہ کے بارے میں نہیں تھے۔ یہ میں جانتا ہوں کہ پارٹی نے کون کون سے وعدے پورے کیے؟ یہ مجھے معلوم ہے کہ جس ایم این اے اور جس ایم پی اے کو میں نے ووٹ دیے تھے، اس نے میرے ساتھ، میرے شہر کے ساتھ، میرے ضلع کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا ہے؟ میں اس برتاؤ کی بنیاد پر اس بار اسے ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کروں گا! مگر حارث کس بنیاد پر ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گا؟ کیا اس کا سابقہ یہاں کی گرانی، یہاں کی ٹریفک، یہاں کی بے روزگاری، یہاں کی چوریوں، یہاں کی وارداتوں، یہاں کی سڑکوں، یہاں کے تھانوں، یہاں کی کچہریوں، یہاں کے گیس، بجلی اور ٹیلی فون کے محکموں سے پڑا ہے؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ میرے گھر کے سامنے جو اسلام آباد ایکسپریس وے گزر رہی ہے، اس کی تعمیر و توسیع کے لیے گزشتہ حکومت نے دس ارب روپے الاٹ کیے تھے جو موجودہ حکومت نے آ کر واپس لے لیے۔ نتیجہ یہ کہ میرے سمیت خلق خدا دھکے کھا رہی ہے اور ذلیل و رسوا ہو رہی ہے! جہلم‘ چکوال اور گوجر خان سے لے کر فیض آباد تک سینکڑوں بستیوں کے لاکھوں مکین جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔ کیا حارث کو معلوم ہے کہ میرٹ کے وعدوں کے باوجود اس حکومت نے سول ایوی ایشن کا سربراہ ایسے فرد کو تعینات کیا‘ جس نے اپلائی کیا نہ انٹرویو دیا جبکہ چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدوار زخم چاٹ رہے ہیں؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے پسندیدہ افسر کو ایک سال پہلے ریٹائر کیا اور ایک زبردست پوسٹ پر لگا دیا جبکہ کئی ریٹائرڈ افسران دستیاب تھے؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ ایک خاص صوبے میں اے سی، ڈی سی، اور کمشنر کی اسامیاں، مبینہ طور پر، قسطوں پر بِک رہی ہیں۔ کئی ٹاک شو اور کئی وی لاگ اس پر شاہد ہیں۔ کوئی تردید نہیں ہو رہی۔ کیا حارث جانتا ہے کہ ایک حکمران نے سرکار کے پیسے سے بنے ہوئے ہسپتال کا نام اپنے والد کے نام پر رکھا ہے اور یہی کام جب شریف برادران کرتے تھے تو یہی لوگ ان کی مذمت کرتے تھے؟ کیا حارث کو یاد ہے کہ کابینہ کی تعداد سترہ تک محدود کرنے کا عہد علی الاعلان کیا گیا تھا اور اب یہ تعداد نصف سنچری تک پہنچ چکی ہے؟ کیا حارث کو معلوم ہے کہ جتنے مشیر بر طرف کیے گئے، کسی ایک کو بھی سزا نہیں دے گئی۔ بے قصور تھے تو بر طرف کیوں کیے گئے؟ قصور وار تھے تو ان کے خلاف کیا کیا گیا؟ کیا حارث کو خبر ہے کہ تین سال ہو گئے، سول سروس ریفارمز کی الف بے سامنے نہیں آئی‘ اور جو صاحب اس کام پر مامور ہیں، وہ یہی کام جنرل مشرف صاحب کے زمانے میں بھی کرتے رہے جس کا کوئی نتیجہ تب بھی نہیں نکلا تھا۔
مجھے حارث سے پوچھنا ہے کہ یہاں کی کارکردگی، یہاں کی گورننس، یہاں کی معیشت اور یہاں کی وعدہ وفائی کا تو اسے کچھ معلوم نہیں کیونکہ اس کا سامنا تو امریکی حکومت کی کارکردگی، امریکی گورننس، امریکی معاشی پرفارمنس اور امریکی وعدہ وفائی سے ہے۔ تو پھر کیا وہ پاکستان میں ووٹ سکہ اچھال کر، ٹاس کی بنیاد پر دے گا؟؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...