اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ “عین” آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا!
مرزا غالب اپنے شاگرد کو لکھتے ہیں کہ
ایک قاعدہ تم کو معلوم رہے؛
عین کا حرف فارسی میں نہیں آتا، جس لغت میں عین ہو، سمجھنا عربی ہے!
غالب نے فرمایا یہ کہ عین کا حرف فارسی میں نہیں آتا، سو جس لفظ میں عین ہو، اُسے عربی سمجھنا!
یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ چچا غالب آپ نے کلیہ یہ بیان کیا کہ عین فارسی میں نہیں آتا، اور پھر فرمایا یہ کہ عین والا ہر لفظ عربی ہو گا؛
یہ لازمی تو نہیں کہ اگر فارسی میں عین نہیں تو، اردو میں عین والا ہر لفظ عربی ہو گا۔
اردو میں عین والا لفظ کسی دوسری زبان سے بھی ہو سکتا ہے!
سو قارئین! ہم نے اپنے ذہن میں داخل ہو کر، تمام ذخیرۂ الفاظ کو دیکھا؛
ہمیں ایسا کوئی بھی لفظ نظر نہ آیا، جس میں عین تو آتا ہو، مگر وہ عربی کے سوا کسی دوسری زبان کا لفظ ہو؛
اب اگلا مرحلہ یقینِ کامل کا تھا، ہم نے لغت کو کھولا،
اور عین سے شروع ہونے والے الفاظ کی پوری فہرست دیکھی!
ہمیں ایسا ایک بھی لفظ نہ ملا، جو غیرِ عربی ہو!
اِس لحاظ سے چچا غالب کو کہنا چاہیے تھا کہ اردو میں عین والا ہر لفظ، عربی الاصل ہے، بجائے فارسی کا تذکرہ کرنے کے؛
کیونکہ فارسی زبان کے تذکرے سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ
فارسی میں عین کا وجود نہیں، مگر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ
ہندی، سنسکرت، پراکرت اور اردو سمیت کسی بھی برِّصغیری و اطراف و جوانب کی زبان میں حرفِ عین نہیں ہے!
بلکہ آج کے زمانے کی موجودہ زبانوں میں، سوائے عربی کے، کسی بھی زبان میں حرفِ “عین” کا سِرے سے وجود ہی نہیں!
کوئی یہ نہ کہہ دے کہ بھائی خود اردو کے حروفِ تہجّی میں ہی عین ہے، اور آپ تمام دنیا کی زبانوں کی بات کر رہے ہیں!
تو جواب یہ ہو گا کہ عین کا حرف، اردو سیمت پاکستان کی تقریباً سبھی زبانوں، بلکہ خود فارسی میں بھی عین موجود ہے، مگر اِن تمام زبانوں میں، کوئی ایک آدھ لفظ،
مستثنیات کی قبیل سے ہو تو ہو؛
ورنہ عین والے سبھی الفاظ، اصلاً عربی کے ہوں گے!
قدیم زبانوں مثلاً عبرانی، آرامی میں تو اغلباً اور شاید سریانی میں بھی یہ حرف ہو گا؛
مگر عربی کے بعد کی، کسی بھی زبان میں، اصلاً حرفِ عین نہیں ہو گا؛
اردو اور فارسی سمیت برِّصغیر اور اطراف و جوانبِ برِّصغیر کی جس بھی زبان میں حرفِ عین ہے؛
وہ عربی کے سبب ہے، اور اُس زبان میں عین والے تمام الفاظ بھی، اصلاً عربی کے ہوں گے، الّا ماشاءاللہ۔
عمیر بزدار