کیا ہمارا ماضی واقعی ہی بڑا شاندار تھا؟
ایک فکرو خیال کا ہم سب مسلمان ہمیشہ زکر کرتے نہیں تھکتے کہ ایک زمانہ تھا، جب ہم بلند و ارفع تھے ،سب سے آگے تھے ،کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا ۔ہم ہمیشہ ماضی کی شان و شوکے قصے سناتے رہتے ہیں ۔ٹھیک ہے، ہم بہت آگے تھے ،سوال یہ ہے کہ آج ہم خوفناک حد تک پسماندہ کیوں ہیں؟وہ کیا وجوہات تھی کہ ایک زمانہ تھا کہ ہماری شان و شوکت کا طوطی بولتا تھا ، اور اب کیا وجوہات ہیں کہ ہم تمام دنیا سے پیچھے ہیں؟اس جدید دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب پچاس کڑور کے لگ بھگ ہے،سب پسماندہ کیوں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم روشن خیال،ترقی پسند اور آزاد نہیں ہیں ۔انسانی تاریخ میں ہمیشہ روشن خیالی کی تحریکیں چلتی رہی ہیں ۔وہی معاشرے آگے بڑھے ہیں ،جنہوں نے روشن خیالی کو اپنایا ۔کسی بھی معاشرے ، سماج یا ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشرہ ، سماج یا ملک روشن خیال اور ترقی پسند ہو۔وہ معاشرے جو روشن خیال،آزاد اور ترقی پسند نہیں ہوتے ، مٹ جاتے ہیں ،فنا ہوجاتے ہیں ،تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ۔ان کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت ،اس جدید دنیا اورانسانیت میں مسلمانوں کا ہے۔روشن خیالی کا مطلب ہے وقت کی رفتار کو سمجھنا ،وقت کی رفتار کو پہچاننا،اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ۔اسے روشن خیالی کہا جاتا ہے ۔اس دنیا میں بے شمار روشن خیالی کی تحریکیں برپا ہوئیں ۔یورپ میں روشن خیالی کی سب سے بڑی فکری تحریک کا نام Renaissance (ریناسینس) تھا۔اس تحریک کی بدولت یورپ اور امریکہ وغیرہ پوری دنیا پر حکومت کررہے ہیں ۔پندھرویں اور سولھویں صدی میں اس تحریک کا آغاز اس وقت ہوا ،جب علم و فکر عام آدمی تک رسائی حاصل کر چکا تھا ۔عام آدمی تک علم کی رسائی پرنٹنگ پریس کی ایجاد کی وجہ سے ممکن ہوئی ۔پرنٹنگ پریس سے پہلے نئی بات عام آدمی تک زبانی کلامی پہنچتی تھی ،اور نیا خیال پہنچتا بھی ایسے تھا کہ اس میں کہیں نہ کہیں تعصب ،نفرت کا عنصر شامل ہوجاتا تھا ۔انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکمرانوں نے ہمیشہ نئے خیالات ،نئے فلسفے اور نئی باتوں کی مخالفت کی ۔اس کی وجہ واضح تھی کہ نئے خیالات ،نئے افکار اور تخلیقی فلسفے و رویئے ان کے اقتدار کے لئے خطرناک تھے ۔جب زبانی کلامی علم آدمی تک پہنچتا تھا، تو اس وقت بادشاہوں اور حکمرانوں کے لئے اس علم کا روکنا آسان تھا، حکمران عالم و فاضل انسانوں کو قتل کرادیتے تھے اور اس طرح وہ علم کی شمع ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھا دیتے ۔ہمارے سامنے تاریخی شواہد موجود ہیں ۔سقراط کو یونان میں اس لئے سزائے موت دے دی گئی تھی کہ اس پر الزام تھا کہ وہ نئے خیالات ،نئی فکر اور نئے فلسفے سے نوجوانوں کو گمراہ کررہا تھا ،حکمرانوں کے لئے نیا خیال اور نئی فکر تو گمراہی کا ہی نام تھا ۔حکمران نے کہا یہ سقراط نوجوانوں کو نئے خیالات سے نواز رہا ہے ،اس سے ان کا اقتدار جاسکتا ہے ،اس لئے ضروری ہے کہ سقراط کو پھانسی دی جائے ۔جب پرنٹنگ پریس کا آغاز ہوا، تو چرچ اور بادشاہ کے درمیان ایک گٹھ جوڑ ہوا ،حالانکہ ان کا گٹھ جوڑ ہمیشہ ہی رہا ہے ۔بادشاہوں اور چرچ نے پرنٹنگ پریس کو حکومت کے خلاف بغاوت قرار دے دیا،کہا گیا جو بھی پرنٹنگ پریس کا استعمال کرے گا ،اسے سزائے موت دی جائے گی ،1664 تک یورپ میں کتابیں چھاپنے اور لکھنے پر دانشوروں اور پبلشروں کو پھانسی دی جاتی رہی ۔انگلستان میں کتاب چھاپنے کے الزام میں آخری موت کی سزا 1663 میں دی گئی ۔حالانکہ کتاب کے مصنف کا نام کتاب پردرج نہ تھا ۔اس کتاب میں یہ خیال تحریر کیا گیا تھا کہ بادشاہ عوام کے سامنے جوابدہ ہے ،اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر عوام ایسے بادشاہ کے خلاف بغاوت کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔جس پبلشر نے یہ کتاب شائع کی تھی ،اس سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اس کتاب کا مصنف کون ہے ؟جب پبلشر نے لکھاری کا نام نہ بتایا ،تو پھر پبلشر کو ہی پھانسی دے دی گئی ۔پھانسی پانے والےپبلشر کا نام جان ٹوائن تھا ۔اسےانگلستان کی عدالت کے فل بنچ نے موت کی سزا سنائی تھی ۔پھر بھی کتابیں چھپتی رہی ،موت کی سزائیں بھی روشن خیال انسانوں کو ملتی رہی ۔نئے نئے خیالات کتابوں کے زریعے عام آدمی تک پہنچتے رہے ۔اس دور میں عام انسان کے لئے علم کے دروزے بند تھے ،لیکن بادشاہوں کا خاندان علم حاصل کرتا تھا ،ان کے لئے اتالیق مقرر کئے جاتے تھے ،جو انہیں علم سے منور رکھتے ،عام آدمی صرف غلامی کے لئے تھا ۔ہندوستان میں کئی حملہ آور آئے، ہندوستان کو فتح کیا ، دولت لوٹی اور مذہب کے نعرے بھی بلند کئے ۔لیکن مقصد صرف اورصرف اقتدار تھا ،مقصد دولت لوٹنا تھا ۔ تمام حملہ آور جو ہندوستان کی سرزمین پر حکومت کرتے رہے ،انہوں نے بے شمار فوجی قلعے بنائے ،مساجد تعمیر کرائیں ،مندربنائے ،باغات سجائے ،ان عالیشان باغات میں شاہی خاندان کے افراد سیر و سیاحت کرتے تھے ۔یہاں تک کہ شاہی فیملی کے پالتو جانوروں کے نام پر مقبرے تعمیر کئے گئے ۔لیکن کسی بادشاہ نے تعلیمی درسگاہ تعمیر نہ کی ،کسی نے اسکول ،کالج یا یونیورسٹی کی تعمیر نہیں کی ،وجہ صاف تھی، وہ نہیں چاہتے تھے کہ جاہل عوام کو علم کی روشنی نصیب ہو اور وہ ان کے اقتدار کے لئے خطرہ نہ بن سکیں ۔ریاست کی زمہ داری یہ نہ تھی کہ عوام کو علم سے روشن خیال بنایا جائے ،بلکہ ان کا قومی مفاد یہ تھا کہ انہیں علم سے ،روشن خیالی سے دور رکھا جائے ۔اسی زمانے میں یورپ میں کتاب بینی کا کلچر عام ہو رہا تھا ،موت کی سزائیں بھی مل رہی تھی ،ساتھ ساتھ کتاب بھی سماج کا حصہ بنتی جارہی تھی ،یورپ میں کسی نہ کسی طرح عام انسان علم و فکر سے روشناس ہورہے تھے ۔علم کا لوگوں تک پہنچنا بڑی بات تھی۔کتاب ،عام آدمی اور علم و فکر ایک ساتھ مل رہے تھے ،،اسی لئے اس تحریک کو ریناسینس کی تحریک کانام دیا گیا ۔کتاب کی وجہ سے ہی یورپ میں عوام نے بادشاہ کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کردیا تھا ۔اسی Renaissance کی تحریک نے انڈسٹریل انقلاب کو جنم دیا ۔اسی انقلاب کی وجہ سے یورپ میں ایسا معاشرہ تخلیق ہوا، جس میں میرٹ ،قابلیت اور ٹیلینٹ کے عزت و احترام میں اضافہ ہوا۔اس سے پہلے کا سماج زراعت پر اکتفا کررہا تھا ۔انڈسٹریل سوسائٹی میں عام انسان کے لئے احترام کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔سرمایہ دار فیکٹریاں لگا رہا تھا ،بے تحاشا پیسہ خرچ کررہا تھا ۔اس کے لئے سرمایہ دار کو بہترین ٹیلنٹ بھی نصیب ہورہا تھا ۔بہترین انجینیئر ، مکینکس ، مارکیٹنگ منجیرز یورپ میں سرمایہ دار کو مل رہے تھے ۔اس وجہ سے عام آدمی کو بھی اپنی علیحدہ شناخت ملنا شروع ہو گئی ،ساتھ عام آدمی کو کام کی اجرت بھی مل رہی تھی ۔ اب عام عوام تعلیم یافتہ تھے،برسرروزگار تھے ،اس لئے انہوں نے بادشاہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا شروع کردیا ،اسی وجہ سے نئے نظام کے خدوو خال ابھرنا شروع ہو گئے۔ پھر جمہوریت ،آزادی کی بات ہونے لگی ،یہ روشن خیالی کی تحریک تھی ۔ادھر ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت کا پیچھے کی جانب سفر رواں دواں تھا ۔یہ ماضی کی شان و شوکت میں اٹکے پڑے تھے ، اوروہ آگے بڑھ رہے تھے ۔پھر یوں ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی جو صرف تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ ہندوستان آئی ،اس نے بائیس کڑور انسانوں کے ملک پر قبضہ کرلیا ۔وہ انگلستان جن کے عوام کو جنگلی کہا جاتا تھا،الزبتھ اول جب انگلستان پر حکمرانی فرمارہی تھی ،اس دور کے انگلستان کا دنیا کے نقشے میں بھی زکر نہ ملتا تھا ،انگلستان ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا،لیکن اسی انگلستان نے روشن خیال نظریئے کی وجہ سے دنیا کے پیسٹھ فیصد حصے پر حکومت کی ، یہ ایسے بلندیوں پر گئے کہ ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔سورج غروب ہونا بند ہو گیا ،یہ تھی روشن خیالی کی تحریک،جس نے لٹیروں،چوروں بحری قذاقوں کو دنیا کا حکمران بنادیا ۔اب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں تجارت کررہی تھی ،سرمایہ جمع کررہی تھی ،بے تحاشا دولت پیدا کررہی تھی اور ہندوستان کو آہستہ آہستہ فتح کررہی تھی ،جبکہ مسلم سلطنت کے حکمران عیاشیوں میں بدمست تھے،تیزی سے تنزلی کی طرف بڑھ رہے تھے ۔یہ ہیجڑوں کی فوج بنارہے تھے ،بٹیرو تیتر کے مقبرے بنارہے تھے ۔لیکن گورے سرمایہ پیدا کررہے تھے،روشن خیالی کی جانب گامزن تھے ،پھر یوں ہوا کہ ان تیتر و بٹیر والوں کو ایک ترقی پزیر معاشرے نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زریعے شکست دے ڈالی ۔وہ روشن خیال تھے، ہم تنزلی کی جانب تھے ،جہالت کی بدبو میں جل رہے تھے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی ہمارا معاشرہ تنزلی کی طرف ہے ،آج بھی یہاں داعش و طالبان ہیں ،انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے ،فرقہ واریت اور ظلم و ستم ہے ،خوف و درندگی ہے ،آج بھی یہاں نورین لغاری دہشت گردی کے لئے نکلتی ہے اور قوم کی بیٹی بن جاتی ہے ،آج بھی یہاں روشن خیال مشال خان کا قتل ہوجاتا ہے ،آج بھی ہم عقیدوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں ،ہمارا سفر مسلسل تنزلی کی طرف ہے اور ان کا سفر مسلسل روشن خیالی کی جانب ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہم انتہا پسندی ،دہشت گردی ،جہالت کو روکنے میں کیوں کامیاب نہیں ہورہے ؟آج بھی عید کا چاند دیکھنے کے لئے حبیب بنک کی عمارت پر جانا پڑتا ہے ۔وہ ہزاروں سال کے چاند کی پیشن گوئی کررہے ہیں،وہ یہ کہہ رہے کہ ہزاروں سال بعد چاند کیسے اور کس طرح نظر آئے گا ،وہ مریخ پر جارہے ہیں ،کائنات کو دریافت کررہے ہیں اور ہم حبیب بنک کی عمارت پر عید کا چاند دیکھ رہے ہیں ،ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں، جہاں صدیوں پہلے کھڑے تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم روشن خیالی کے دشمن ہیں ،علم و فکر اور نئے نئے خیالات کو کافرانہ ادائیں سمجھتے ہیں ۔بھائی روشن خیالی کا مطلب صرف ناچ گانا اور رقص نہیں ،رقص اور موسیقی روشن خیالی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ،اصل کہانی وہ ہے جو اوپر بتا چکا ہوں ۔بلبل کا چہچہانا موسیقی ہے ۔موسیقی بھی قدرت کا تحفہ ہے ۔یہ کائنات رقص میں ہے ،اس میں سر ہے ،لے ہے ،تال ہے ۔مستی ہے ۔یہ بھی روشن خیال ہے،لیکن ہم نہیں،ہمارے نزدیک روشن خیالی کفر ہے ،تو اس کامطلب ہے یہ کائنات بھی کفر کررہی ہے ۔بھائی جب آپ مشال کو قتل کرسکتے ہیں ،قتل و غارت گری کرسکتے ہیں ،فرقوں کے نام پر ،عقیدے اور ایمان کے نام پر قتل کرسکتے ہیں ،تو کریں کس نے روکا ہے ،لیکن یہ نہ کہیں کہ دیکھو یورپ اور امریکہ ہم پر حکمرانی کررہے ہیں ۔انہوں نے ہمیں غلام بنالیا ہے ۔وہ روشن خیال ہیں ،وہ آپ کو غلام بنائیں گے ۔ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ،کیا انتہا پسندی ،دہشت گردی اور مشال کے قتل سے ہم یورپ اور امریکہ کو شکست دے دیں گے ؟پھر ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟ہم زمانے کا ساتھ دینے کے قابل نہیں ہیں ،اسی وجہ سے بدحال اور خوف زدہ ہیں ۔ہم نے اپنے آپ کو صدیوں پرانی جیل میں ،صدیوں پرانے نظریات میں قید کررکھا ہے ۔یہ ہے اصل ایشو ۔زمانہ ہمیشہ آگے کی طرف چلتا ہے اور چل رہا ہے اور ہم صدیوں سے مسلسل پیچھے کی جانب جارہے ہیں ۔بھائی اپنے عقائد مت چھوڑو،لیکن کم ازم کسی دوسرے کے عقیدے کو تو مت چھیڑو ،موجودہ دور کے مطابق اپنے عقائد میں روشن خیال فکر لاو تاکہ زمانے کے مطابق تو چل سکو ۔وہ نظریات جو کب کہ out dated ہو چکے ،صدیوں بعد بھی ہم انہی نظریات میں جکڑے ہیں ۔آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ۔روشن خیالی کسی لادینیت کا نام نہیں ،روشن خیالی ہر گز صرف رقص و موسیقی کا نام نہیں ،روشن خیالی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دین سے دور ہو جایئے ۔اس کا مطلب ہے زمانے کا ساتھ دیجیئے ۔زمانے کا مقابلہ اس وقت تک ممکن نہیں،جب تک اس دور کا علم ہمارے پاس نہیں ہوگا ،جس زمانے میں ہم رہ رہے ہیں ۔ہم آج سے صدیوں پرانے معاشرے میں زندہ نہیں رہ سکتے ،یاد رکھیں جو علم روشن خیال نہیں ہوتا ،وہ علم ہی نہیں ہوتا ۔علم کو پابند اور محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ہم صرف باتیں کرتے ہیں ،ہم صرف اس قابل ہیں کہ ہمیشہ یہ کہتے رہیں کہ ہمارا ماضی بڑا شاندار تھا ۔صرف باتیں کرنے سے ترقی نہیں ہوتی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔