کیا ہم کڑا احتساب چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟
جس دن ۱۹۸۸ میں بلاول بھٹو پیدا ہوا میں اتفاق سے کراچی کے صدر بازار میں ایک دوست کہ ساتھ تھا ۔ ضمیمہ بِک رہا تھا کہ بینظیر کہ ہاں بیٹا پیدا ہوا، اور بیچنے والا ایک ہاکر چیخ چیخ کر کہ رہا تھا “مبارک ہو آپ ماموں بن گئے “ اس کہ ٹھیک تقریباً ۳۰ سال بعد کل ۲۲ کروڑ عوام اس وقت ماموں بن گئے، جب بلاول انگریزی میں ان سے مخاطب ہوئے اور الف لیلہ کے قصے شروع کر دیے ۔ جمہوریت کہ سارے مفکر قبروں سےاٹھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں گہ کہ کیا واقعہ ہی، انگریز ہے تو جمہوریت ہے ؟ کمال ہے ، پاکستان کہ تقریباً تمام اینکر حضرات اور جرنلسٹز خاص طور پر لبرل مافیا نے تو اسے ۳۰ سال میں بہترین خطاب کہا ۔
میرا سوال ہے ان سب سے کہ اگر لیڈر اپنے آپ کو اپنے ووٹرز اور عوام سے relate یا connect ہی نہیں کر پاتا تو وہ خاک کا لیڈر ہے ؟ میری ان کچھ اینکرز کہ ٹویٹ کا جواب بہت مقبول ہوا جس میں میں نے بلاول سے یہ پوچھا تھا کہ “بیٹا تھر والوں کا ، سندھ میں غربت اور جہالت کا کوئ تزکرہ ہی نہیں ؟ مر جائیں وہ ، کیا حکم ہے ؟“
بلاول اگر یہ کہتا کہ میرے آج ابا جی کہ ناقابل ضمانت وارنٹ نکلے ہیں ہم احتساب پر من و عن یقین رکھتے ہیں میں بہت خوش ہوتا ۔
اس کہ برعکس عمران خان کی تقریر پاکستان کی تاریخ کی بہترین تقریر رھی جس میں بہت غم و غصہ تھا اور ایسا لگتا تھا کہ کہیں ڈٹرٹے کی طرح عمران ایوان میں پستول نہ نکال لے ۔ عمران نے صرف اور صرف احتساب کی بات کی ۔ وہ احتساب جو آج اگر ہو رہا ہوتا تو شہباز شریف ایوان میں تقریر نہ کر رہا ہوتا ، بلکہ جیل کی سلاخوں کہ پیچھے ہوتا، غالبا بلاول بھی ، کیونکہ تقریباً ساری پراپرٹی اور بزنس اب بلاول کہ نام ہو گئے ہیں ۔ کل بہت سارے میرے باہر کہ ملکوں کہ جرنلسٹ دوستوں نے عمران کی تقریر کہ انگریزی ترجمہ کے لیے کہا ، میرا ایک ہی جواب تھا
Another Duterte born –
پاکستان کا ایک ہی مسئلہ ہے ، ۲۲۰۰ خاندانوں کی لُوٹ مار۔ انہی کا قبضہ ہے ، عدلیہ ، فوج ، میڈیا ، سیاست اور تمام کاروباروں پر ۔ منشا کا بھانجا جو نیب میں بک رہا ہے ، کوئ اخبار اس کی تشہیر نہیں کر رہی ، کیوں ؟۔
اربوں کا ہیر پھیر وہ اس طرح بتا رہا ہے جس طرح ایک چونی ادھر سے ادھر چلی گئ تھی ۔ بجائے اس کہ ۵۲ کمپنیوں پر شہباز شریف جیل میں ہوتا وہ اسپیکر پر چڑھائ کر رہا ہے ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا نیا اسپیکر ایک بہت نیک آدمی ہے چھوٹے صوبے سے ہے ، اس کا قصور یہ ہے کہ آکسفورڈ سے نہیں پڑھا ۔ ہمیں اس طرح کہ شریف النفس آدمی چاہیے ۔ جتنا شاطر اتنا راشی ۔ اس بیچارے پر بھی سارا میڈیا برس پڑا ہے ۔ خان صاحب میں آپ کہ ساتھ ہوں ان تمام عہدوں کہ چناؤ پر ، کیونکہ مجھے substance سے غرض ہے form سے نہیں ۔ مجھے ends کی فکر ہے means کی نہیں ۔ آپ جو مرضی ٹیم رکھیں ، ہمیں اہداف سے غرض ہے ۔ میرے ہیرو ٹرمپ اور ڈٹرٹے ہیں اور رہیں گے ۔ مجھے ملک کہ پیسے کھانے کے لیے ، عوام کو ہمیشہ غریب رکھنے کہ لیے جمہوریت کہ مڑوڑ نہیں اُٹھ رہے ۔ ہم باز آئے اس جمہوریت سے، جس میں مائیں زندہ مر گئیں بچوں نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دی ۔
انسان کو انسان سمجھا ہی نہیں جا رہا ۔ آج بھی ہر حکومتوں کا ایجینٹ ، مشرف کا سابقہ وزیر رزاق داؤد ہمارے سروں پر سوار کیا جارہا ہے ۔ خان صاحب شاہد الرحمان کی کتاب
Who owns Pakistan
کا ضرور مطالعہ کریں ۔ اس کا اردو ترجمہ کروا کر نیب اور اپنے پالیسی میکرز کو دیں ، بدلیں اس نظام کو ۔ یہ کتاب ۱۹۹۸ میں لکھی گئ تھی ، اس کہ بعد کہ معرکوں پر رؤف کلاسرا کتاب لکھ رہے ہیں ، میں ان سے درخواست کرتا ہوں ، دوست ہیں ، جلدی لکھ ماریں ۔
عمران کو قدرت نے صفائ ستھرائ کا موقع دیا ہے وگرنہ status quo کی فورسز اور مافیا کہاں ایسا کرنے دیتیں ۔ قدرت کا اپنا نظام ہے ۔
جسٹس اطہر مناللہ اور ساتھی جج نیب کہ پرو سیکیوٹر پر اس طرح چڑھائ کر رہے ہیں جیسے نیب نے نواز کو پکڑ کر کوئ گناہ کبیرہ سرانجام دیا ہے ۔ عام آدمی کا کیس سالہا سال لٹکتا رہتا ہے۔ میرا فرخ عرفان کہ خلاف پناما کیس ، دو سال ہو گئے ہیں ، ایک پیشی نہیں پڑی ۔ جب ارب پتی وکیل خواجہ حارث کہتا ہے کہ میرا کھرب پتی موئکل نواز شریف جیل میں سڑ رہا ہے تو دونوں ججوں کہ آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ۔ ۲۲ کروڑ کوڑی کوڑی کہ محتاج ہیں ۔ ان کے لیے ان ناز نخروں میں پلنے والے ججوں کو زرا ملال نہیں ۔ شرم سے ڈوپ مرنے کا مقام ہے اس اشرافیہ کو اپنی بے حیائ پر ۔
عمران اگر صرف بلا تمیز احتساب ہی پاکستان میں کروا دے ، جس کہ لیے اس نے ۲۲ سال پہلے یہ جماعت بنائ تھی ، پاکستان جیت جائے گا ۔ میں تو خان صاحب آپ سے صرف ایک وعدہ کر سکتا ہوں، اور وہ بھی ایک گانے کہ الفاظ میں جو مجھے ہمیشہ بہت پسند رہا ۔
کوئ جب تمہارا ہریدے چھوڑ دے
تڑپتا ہوا جب کوئ چھوڑ دے
تب تم میرے پاس آنا پریے
میرا در کھلا ہے کھلا ہی رہے گا تمہارے لیے
ابھی تم کو میری ضرورت نہیں
بہت چاہنے والے مل جائیں گے
ابھی رُوپ کا ایک ساغر ہو تم
کنول جتنے چاہو گی کھِل جائیں گے
درپن تمہے جب ڈرانے لگے
جوانی بھی دامن چھڑانے لگے
تب تم میرے پاس آنا پریے
میرا سر جھکا ہے جھکا ہی رہے گا تمہارے لیے
کوئ شرط ہوتی نہیں پیار میں
مگر پیار شرطوں پہ تم نے کیا
نظر میں ستارے جو چمکے زرا
بجھانے لگی آڑتی کا دیا
جب اپنی نظر میں ہی گرنے لگو
اندھیروں میں اپنے ہی گھرنے لگو
تب تم میرے پاس آنا پریے
یہ دیپک جلا ہے جلا ہی رہے گا تمہارے لیے ۔
جی تمہارے لیے عمران خان ، یہ ۲۲ کروڑ کی آواز ہے ۔ مان کیجئے ۔ پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھنا ، انشا ء اللہ فتح آپ کی ہو گی ۔ ہم ضرور دیکھیں گے ، نئ صبح ، نیا پاکستان ، آپ کے سنگ ۔ جیتے رہیں ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔