کیا ہم اس دنیا میں paying guests ہیں ؟
کل نیویارک سے میرے دانشور دوست نے میرا کل کے بلاگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کِہ کیا ہم اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح نہیں رہ رہے ؟ اور کچھ لوگ کرایہ دے رہے ہیں کچھ نہیں دے رہے ؟ اور کچھ ظالم لوگوں کا بھی کرایہ اپنی جیبوں میں ڈال رہیں ہیں ؟۔ اگر ہم اپنا اس دنیا میں مقام سطحی طور پر دیکھ رہے ہیں تو درست ہے جیسے کہا جاتا ہے ۔ life is all trade off یا every one has a price وغیرہ وغیرہ ۔ تو جسم کی حد تک یا موت تک یہاں ہمارا سفر میرے دوست کے مطابق Paying guest جیسا ہی ہے ، جہاں دھونس اور دھاندلی سے کرایہ معاف بھی ہو جاتا ہے یا سرکار ادا کر دیتی ہے ۔ ہمارے دانشور مدیر اصلاح کے لیڈر ر ، عطالحق قاسمی کی رہائش کا کڑوروں کا بل ہم سب کے ٹیکسوں سے دیا گیا ۔ دنیا کی حد تک معاملہ ایسا ہی ہے اور زیادہ تر لُوٹ مار والا ہے ۔ چھینا چھپٹئ والا ہے ۔دوسرے کا حق مارنے اور کھانے کا ہے ۔
لیکن دراصل معاملات اس کے بلکل برعکس ہیں ۔ ربِ کریم ، قرآن پاک کی سورہ رحمن میں ان ساری نعمتوں کا تزکرہ فرماتے ہیں جو سب کے لیے ہیں اور بلکل مفت ہیں ۔ اور وہ ساری یہاں اس دنیا میں موجودگی کا تحفہ ہے ۔ لیکن ہم ناشکرے ہیں ، بلکہ قرآن پاک میں ہی ایک جگہ آتا ہے کہ ‘بے شک انسان بڑا نا شکرا ہے ‘ ایک اور جگہ اللہ پاک فرماتے ہیں ‘انسان بہت تنگ دل ہے ‘
یہاں سے آ کر معاملات خراب ہوتے ہیں ۔ سب کے لیے وافر رزق ہے ان گنت نعمتیں ہیں ۔ لیکن اس میں بھی دراصل ہم نے لُوٹ مار ، بے ایمانی شروع کر دی ۔ اور ابدی زندگی جو روح کے ساتھ منسلک ہے اس کو بھول گئے ۔
میری ایک جگہ تعیناتی ہوئ تو وہاں دفتر میں ایک بہت بڑا پھولوں کا گلدستہ صبح میرا استقبال کرتا تھا۔ میں نے دفتر کے مالی کو کہ کر رکوا دیا کہ گھر کی حد تک تو پھول آپ توڑ لیں یا کلیاں تکیہ کے نیچے رکھ لیں پبلک پلیس یا پارک سے پھول توڑ کو یہ نمائش ایک بہت بڑی زیادتی ہے ۔ پتہ نہیں کتنے لوگ ان پھولوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوں گے ۔ اپنے غم بھولنے میں کامیاب ہوتے ہوں گے ، فبای الاء پڑھتے ہوں گے اُس سوھنے رب کے گُن گاتے ہوں گے جو ان کا اور ہمارا خالق ہے ۔
ہم اس پوری دنیا کا حصہ ہیں ۔ موت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ۔ روح لافانی ہے ۔ معاملات سارے روح کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں ۔ جسم تو ایک پلک جھپکنے کی دیر جتنا مہمان ہیں ۔ اس کے لیے اتنا زلیل و خوار نہ ہوتے پھریں ۔ میں تو اکثر سوچتا ہوں کہ میں بہت خوش قسمت انسان ہوں ۔ کہ میری اس مادی دنیا سے ترک تعلقی نے مجھے بادشاہ بناہ دیا ہے ۔ وہ لوگ جنہوں نے اس مادی زندگی کی بلندیوں کے لیے ہڈیاں رگڑی میرے پر رشک کرتے ہیں ۔ شاگردی میں لینے کی فریاد کرتے ہیں ۔ یہ دنیاوی شان و شوکت آنکھوں کا دھوکہ ہے ۔ میرے ساتھ والی میز پر ایک چھوٹی بچی بار بار آ کر میری کوئ چیز اُٹھاتی ہے اس کا باپ اسے روکتا ہے میں خوش ہوتا ہوں کہ بچہ تو کم از کم ‘میرے تیرے ‘ کے چکر سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں ۔ یہ میرا ہے یہ تیرا ہے ، ایسا کچھ بھی نہیں ہے ، سب کچھ سب کا ہے ۔ اگر کچھ ہے تو وہ ہے جو علامہ اقبال فرما گئے ۔
“لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
عالمِ آب و خاک میں تیرے حضور کا فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
شوکت سنجر و تیرے جلال کی نمود
فقر و جنید بایزید تیرا جمال بے نقاب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب”
خوش رہو دوستو ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔