کیا جی ٹی روڈ کا نواز شریف کا سفر جمہوریت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے؟
آجکل اسلام آباد میں سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے ۔آج ساڑھے نو بجے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جی ٹی روڈ کے راستے لاہور کے سفر کی جانب بڑھیں گے ۔جگہ جگہ استقبال ہوگا ،جہلم اور گجرات وغیرہ میں نواز شریف خطاب بھی کریں گے ۔مسلم لیگ ن کے مطابق آج رات نواز شریف گجرات میں گزاریں گے ۔کہا جارہا ہے کہ اسلام آباد سے لاہور کا جی ٹی روڈ کا سفر 48 گھنٹوں پر محیط ہوگا ۔جمعہ کی شب وہ لاہور پہنچیں گے ۔گزشتہ روز بھی نواز شریف کی صحافیوں کے ساتھ گفتگو ہوئی ۔جس میں انہوں نے کہا کہ ستر سال سے کسی وزیر اعظم کو اس کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ۔ادھر عالمی میڈیا میں بھی نوازاسٹیبشمنٹ کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں ۔نیویارک ٹائمز میں ایک کارٹون کا آجکل بڑا شور ہے ،اس کارٹون میں دیکھایا گیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نوازشریف کو کرسی سے نیچے اتار رہی ہے ۔نواز شریف نے گزشتہ روز صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا کہ سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان جمہوری اور سول حکومت کی بالادستی اور نئے لبرل عمرانی معاہدے کے حوالے سے گرینڈ ڈیبیٹ ہونی چاہیئے ۔ جب ایک صحافی نے گزشتہ روز نواز شریف سے سوال کیا کہ کیا اب پارلیمانی سیاست میں ان کی وآپسی ہوگی ؟تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نئے عمرانی معاہدے اور سول حکومت کی بالادستی کے لئے خود لیڈ کریں گے ۔ایک سوال کے جواب میں نواز شریف صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ مشرف کو ملک سے باہر بھیجنے کا فیصلہ ان کی حکومت کا نہیں عدالت کا تھا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوسف رضا گیلانی کا معاملہ نااہلی تک نہیں جانا چاہیئے تھا۔لیکن یہی نواز شریف تھے جب انہوں نے یوسف رضا گیلانی کے بارے میں دو ہزار بارہ میں بیان دیا تھا کہ انہیں وزارت عظمی کا عہدہ چھوڑ دینا چاہیئے ۔نہ چھوڑا تو وہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف تحریک چلائیں گے ۔یاد ماضی عذاب ہے یا رب ۔اب فرما رہے کہ گیلانی کو نااہل نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔ویسے آج کل ن لیگ پیپلز پارٹی کے رنگ میں رنگ چکی ہے ،آج کل ن لیگ کے بینرز پر بھی کچھ ایسا لکھا آرہا ہے ،یا اللہ یا رسول نوازشریف بے قصور ۔ن اور پیپلز پارٹی کے سلوگنز ایک ہو گئے ہیں ۔یہ بھی عجیب و غریب بات ہے یا پھر سیاست کی ستم گری ہے ۔آجکل عمران خان نواز شریف کی طرح بول رہے ہیں ۔کہہ رہے ہیں نواز شریف کیوں جی ٹی روڈ پر جارہا ہے ،جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہا ہے ۔لیکن نواز شریف واضح کہہ رہے ہیں اساں تاں جاناں ائے جی ٹی روڈ ۔۔کنے کنے جاناں ائے جی ٹی روڈ ۔نواز شریف اب یہ کہہ رہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں ،بھیا اگر یہ بات تھی تو ان چار سالوں میں آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچتے ،باسٹھ ترسٹھ نکلالتے ،سول بالادستی کو مظبوط کرتے ،میثاق جمہوریت پر عمل کرتے،لیکن آپ نے نہیں کیا ،چلو اب آپ کی پھرتیاں دیکھ لیتے ہیں۔یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جی ٹی روڈ پر آئیں گے ،یہ پارٹی جی ٹی روڈ سے شروع ہوئی تھی ،اس لئے لوگ آئیں گے ،اب نوازشریف کے پاس کوئی چوائس رہ نہیں گئی ،اب انہوں نے اپنی پارٹی کو زندہ رکھنا ہے ،اپنے آپ کو منوانا ہے ،این ائے ایک سو بیس کا الیکشن جیتنا ہے ۔ہمدردی کا رڈ کا استعمال کرنا ہے ۔اگر نواز شریف کا وکٹم کارڈ چل گیا تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور عدالت پر دباو بڑھے گا ۔اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے ۔نواز شریف جی ٹی روڈ کے راستے میں اہم باتیں کریں گے ،سازش کی بھی بات ہو گی اس سفر کے دوران وہ ریلیوں سے خطاب کے دوران اہم فیصلے بھی کریں گے ۔میرا زاتی خیال یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر باغیانہ موڈ میں نہیں ہیں ۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ سخت باتیں ہو گئی تو عدالت اور اسٹیبلشمنٹ ایکشن لے لے گی ۔سوال اب یہ ہے کہ کیا وہ انقلابی اور باغی رہنما کے روپ میں دیکھائی دیں گے یا نہیں ؟ کچھ حلقے کہہ رہے ہیں ،وہ باغیانہ موڈ میں ہوں گے ۔ادھر سے طاہر القادری کا موسم بھی شروع ہو گیا ہے ۔ایک بار پھر وہ ماڈل ٹاون کے شہداٗ کے قصاص کے لئے دھرنے کی تیاری کررہے ہیں ۔جب بھی سیاسی بحران میں شدت آتی ہے ،طاہر بھائی نمودار ہو جاتے ہیں ۔سانحہ ماڈل ٹاون کا بھی ڈراپ سین قریب ہے ،نجفی رپورٹ بھی اسی دوران منظر عام پر آسکتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ قادری کے سپورٹرز اور نواز شریف کے ووٹرز آمنے سامنے آگئے تو پھر کیا ہوگا ؟اگر یہ آمنا سامنا ہو گیا تو حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں ۔ادھر عمران خان گونواز گو کر چکے ،اب وہ کیا کریں ۔اب وہ کہہ رہے نواز شریف جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب نوازشریف کہتے تھے کہ وہ دھرنا کیوں دے رہے ہیں ،وہ جمہوریت کے خلاف سازش کررہے ہیں ۔عمران اب نواز ہو گئے ہیں اور نواز عمران ہو گیا ہے ۔اسی وجہ سے سیاسی حدت بڑھ رہی ہے ۔میرا زاتی خیال یہ ہے کہ جمہوریت خطرے میں ضرور ہے ۔کیونکہ جی ٹی روڈ کے سفر کے دوران لاکھوں عوام فوج کو خلاف نعرے لگائیں گے ،عدالت کو گالیاں پڑیں گی ۔اگر نواز شریف نے انقلابی لیڈر کا روپ دھاڑ لیا اور اداروں کے خلاف کھل کر باتیں کردی تو پھر جمہوریت کو بچانا مشکل ہو جائے گا ۔نواز شریف لاکھوں کے مجمعے میں جذبات کی رو میں بہہ گئے اور تمام سازشیوں کی تاریخ اور حقائق بتا دیئے تو حالات بدترین بھی ہو سکتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف limit کو کراس کریں گے یا پھر limit میں رہیں گے ؟اب تک کے لئے اتنا ہی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔