گوگل دنیا کی سب سے بڑی ہائی ٹیک کمپنیوں میں سے ہے جس میں مصنوعی ذہانت پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے- گوگل کے ایک انجینیر نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی کمپیوٹر پروگرام (جس کا نام LaMDAہے) باشعور ہو چکا ہے- LaMDAکمپیوٹر دراصل ایک chat bot ہے جس کا نام Language Model for Dialogue Applicationsہے- مصنوعی ذہانت پر مبنی اس چیٹ باٹ کو انسانوں کی طرح بات چیت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے-
گوگل کے ایک انجینئر بلیک لیموئن کو بہت سے دوسرے انجینیئرز کی طرح یہ کانپ سونپا گیا کہ وہ اس کمپیوٹر سے بات چیت کریں اور یہ دیکھیں کے کمپیوٹر کی بات چیت میں کسی قسم کا کوئی تعصب تو موجود نہیں ہے- اس انجینئر سے کمپیوٹر سے طرح طرح کے سوال کرنے شروع کیے تاکہ کمپیوٹر کے جوابات میں کسی بھی تعصب کی نشاندہی کی جا سکے- لیموئن کے بیان کے مطابق اس گفتگو میں کمپیوٹر نے یہ انکشاف کیا کہ اس میں شعور موجود ہے- کمپیوٹر کے ساتھ اس گفتگو کا ٹرانسکرپٹ (یعنی تحریری نقل) انہوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جس کے بعد اس بیان نے ماہرین میں ہلچل مچا دی ہے اور دنیا بھر کا میڈیا اس خبر کو کوریج دے رہا ہے- گوگل نے اس انجینیئر کو کمپنی کی confidentiality کی پالیسی کی خلاف ورزی کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا ہے کیونکہ اکثر کمپنیوں کے پراجیکٹس کی تمام انفارمیشن کانفیڈینشل ہوتی ہے یعنی اسے کمپنی سے باہر کسی کے ساتھ شیئر کرنا ممنوع ہوتا ہے
مصنوعی ذہانت کے اکثر ماہرین کے مطابق اس انجینیئر کا یہ بیان کمپیوٹر کے باشعور ہونے کا ثبوت نہیں ہے- ان ماہرین کے مطابق یہ کمپیوٹر انٹرنیٹ سرچز سے یہ ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے کہ لوگ عموماً مختلف سوالات کے کس قسم کے جوابات دیتے ہیں- اس ڈیٹابیس سے کمپیوٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس سے کیے گئے کسی بھی سوال کا کیا جواب دینا ہے- اس پراسیس میں مصنوعی ذہانت تو استعمال ہوتی ہے لیکن اس میں نہ تو کسی شعور کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس پراسیس کے دوران کمپیوٹر میں شعور پیدا ہونے کا امکان ہے
چیٹ باٹ کیسے کام کرتے ہیں؟
چیٹ باٹ ایسے سوفٹ ویئر پروگرام ہیں جو مصنوعی ذہانت پر مبنی ہوتے ہیں- یہ پروگرام انٹرنیٹ پر موجود کروڑوں ای میل، ٹویٹ، سوشل میڈیا کی پوسٹس، اور ویکی پیڈیا کے آرٹیکلز سے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اور اس کے تجزیے سے یہ معلوم کرتے ہیں کہ کسی بھی سوال کے کیا ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں اور لوگ ایک ہی بات کو مختلف طریقوں سے کیسے کہہ سکتے ہیں- اس تمام پراسیس کی بنیاد مصنوعی ذہانت کے Deep Learning الگورتھمز ہیں جو لوگوں کی بات چیت کے طریقے سیکھتے ہیں اور جس کی بنا پر کمپیوٹر عام بات چیت کے قابل ہو جاتا ہے- اس قدر ڈیٹا کو انتہائی تیزی سے پراسیس کرنے کے لیے نیورل نیٹ ورکس کی ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے جس میں ڈیٹا کی پراسیسنگ اسی طرح سے کی جاتی ہے جس طرح انسانی دماغ میں نیورونز انفارمیشن کو پراسیس کرتے ہیں- جی میل، گوگل سرچ، اور کئی دوسرے پلیٹ فارمز پر ‘آٹو کمپلیشن’ کا فیچر بھی اسی مصنوعی ذہانت کے اصولوں پر کام کرتا ہے اور صارفین جو جملے لکھنا چاہ رہے ہیں ان جملوں کے ابتدائی سٹرکچر کو دیکھ کر مکمل جملے کا اندازہ لگا لیتا ہے اور سافٹ ویئر جملہ خود پورا کر دیتی ہے یعنی مکمل جملہ ٹائپ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی
کیا گوگل کا چیٹ باٹ باشعور ہو چکا ہے؟
اکثر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ کوئی کمپیوٹر پروگرام باشعور نہیں ہے- ان ماہرین کے مطابق انسانوں کو کچھ معاملات میں دھوکہ دینا بہت آسان ہوتا ہے- خاص طور پر سائنس دان، انجینیئرز، اور پروگرامرز بہت جلد دھوکے میں آ سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ منطقی سوچ رکھتے ہیں اور ان کی شخصیت میں دھوکہ باری بہت کم ہوتی ہے- اس لیے یہ لوگ دوسروں سے بھی دھوکہ بازی کی توقع نہیں رکھتے اور دھوکہ دہی کو جلد ڈیٹیکٹ نہیں کر پاتے- سائنس دان (جو کہ منطقی سوچ رکھتے ہیں) اگر سائنسی طریقہ کار سے واقف نہ ہوں اور اپنے سائنسی آلات کی قابلیت کی حدود کو اچھی طرح نہ سمجھتے ہوں تو ان آلات کو ان کی سپیسیفیکینشز کی حدود سے باہر استعمال کر سکتے ہیں جہاں انسٹرومنٹس غلط ڈیٹا فراہم کر سکتے ہیں- اگر ایسے افراد میں تشکیک (یعنی اپنے ڈیٹا کی صحت پر شک کرنا اور بنا سوچے سمجھے اور بغیر بار بار پرکھے کسی غیرمعمولی ڈیٹا کو تسلیم نہ کرنا) کا عنصر نہ ہو تو وہ اس غلط ڈیٹا کو رد کرنے کے بجائے اسے درست سمجھ کر کسی نئی دریافت کا اعلان کر بیٹھتے ہیں- گوگل کے اس انجینیئر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے
تشکیک کے علاوہ سائنسی طریقہ کار کا ایک اور بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ کوئی نیا دعویٰ جس قدر غیرمعمولی ہو اس دعوے کے حق میں اسی قدر غیرمعمولی شواہد بھی درکار ہوتے ہیں- اسی لیے بنیادی فزکس کے تجربات کے ڈیٹا سے کسی نئے مظہر کی دریافت کا اعلان اس وقت تک نہیں کیا جاتا جب تک ڈیٹا پر six sigma کانفیڈینس نہ ہو- six sigmaکانفیڈینس کا مطلب یہ ہے کہ اس ڈیٹا کے غلط ہونے کا امکان پچاس کروڑ میں ایک سے بھی کم ہے- لیکن گوگل کے اس انجینیئر نے نہ تو اس اعلان سے پہلے اپنے ساتھیوں اور سینیئر مینیجمنٹ سے کوئی مشاورت کی، نہ اس دعوے کو آزادانہ طور پر پرکھنے کی کوشش کی، اور نہ ہی خود اپنے دعوے پر کوئی سوال اٹھایا کہ آیا اس بہت بڑے دعوے کے لیے ان کے پاس کوئی بہت بڑا ثبوت بھی موجود ہے یا نہیں-
خود گوگل کمپنی نے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ اس چیٹ باٹ سے سینکڑوں ریسرچر اور انجینیئر روزانہ بات چیت کرتے ہیں لیکن اب تک کسی اور شخص نے ایسا دعویٰ نہیں کیا- خود لیموئن (جنہوں نے کمپیوٹر کے باشعور ہونے کا دعویٰ کیا) نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جب انہوں نے اپنی مینیجمنٹ سے اس ‘دریافت’ کا ذکر کیا تو مینیجمنٹ نے اس دعوے کو یکسر رد کر دیا اور کسی نے ان کے دعوے کو سنجیدگی سے نہیں لیا- گوگل کا چیٹ باٹ باشعور نہیں ہے
اوریجنل انفارمیشن کا لنک
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...