{ یہ کوئی سیاسی تحریر نہیں بلکہ کاشتکاروں کی دل کی آواز ہے }
گندم وہ واحد فصل ہے جو بدین سے لیکر وادی کیلاش تک کاشت ہوتی ہے . پرانے دور میں گندم کی فصل آنے پر کاشتکار اولاد کی شادی ، گھر بنانا یا کوئی اور تعمیری منصوبہ بناتا تھا کیوں کہ اس سے یکمشت آمد ہوتی تھی اور اچھا منافع بھی … اور بیوپاری حضرات 20 – 30 کے منافع پر کام کرتے تھے
پھر وقت نے پلٹا لیا جب میاں شھباز شریف نے باردانہ کی شرط عائد کی … اور گوداموں میں 3 سال تک کے اسٹاک رکھے …
جس سے
– پاسکو/ فوڈ بہت محدود مقدار میں خریداری کرتا تھا
– کاشتکار گندم بچنے کے لیے پٹواری کو ہزاروں روپے دے کر اپنا جائز باردانہ کا اندراج کرواتا تھا….. بلکہ نون لیگ کے کارندوں کے نام زیادہ ہوتے
– لسٹ میں نام ہونے کے باوجود پاسکو/ فوڈ کے عملہ کو 100 روپے بوری رشوت دیتا تو باردانہ ملتا
– زیادہ تر باردانہ بیوپاری اور نون لیگ کے مقامی ورکر لے جاتے
– پاسکو/ فوڈ کا عملہ ہر ٹرالی سے 2 گندم کی بوریاں پاس کرنے کی رشوت لیتا … ورنہ گندم میں کچرا ، نمی اور پتا نہں کیا کیا
غرض ایک مافیا نے جنم لیا …. جتنی ذلت سے کاشتکار گندم بچتا تھا …. اتنی ذلت تو افغانی کو افیون بچنے پر نہں ہوتی ہو گی
پھر ایک دو سال میں کاشتکار کو سمجھ آ گئی … وہ 1300 والی گندم 1100 میں بیچنے لگ گیا ….. 200 فی من کے نقصان پر …. جو کہ اس کا اصل منافع تھا ….. 40 من فی ایکڑ پر 8000 فی ایکڑ کا نقصان
…… کمایا ایک کاروباری طبقے نے ….
وہ کس طرح ؟
اپریل کے پہلے ہفتے میں برداشت ہونے والی گندم کا حکومت یکم مئی سے خریداری کا اعلان کرتی ….. جوعملا 10 مئی سے شروع ہوتی ….. ایک ماہ میں اکثر گندم فلور مل اور ذخیرہ اندوز 200 کم قیمت میں اٹھا لیتا …. اور فلورمل والا 1600 سے اوپر میں آٹا بیچتا …. چند ماہ میں ذخیرہ اندوز 1400 میں بآسانی فروخت کر دیتا
اس سے یہ ہوا کہ گندم صرف اپنا خرچہ پورا کرنے لگی ….. لیکن ان 5 سالوں میں کوئی شور نا اٹھا …..کیوںکہ بےزبان اور کوہلو کا بیل کاشتکار اپنے کام میں ہی جتا ہوا تھا ….
اب اس حکومت نے 3 سالوں سے رکھی بوریاں نکال دیں ….. پھر ذخیرہ اندوز مافیا سر گرم ہوا …. آٹے کا بحران پیدا کیا گیا ….. عوام اور میڈیا حکومت پر چڑھ دوڑی ……
سوال یہ کہ 5 سال یہ شور کیوں نہیں اٹھا ….. پچھلی حکومت اچھی تھی ….. کیوں کہ آٹے کا بحران نہں ہوا ….. لیکن کس کی قیمت پر …. کاشتکار ؟؟؟
اچھی کارکردگی اور طرز حکومت
آج کل بیوپاری 1350 میں خریدنے کو تیار ہے …… لیکن کاشتکارباآسانی 1400 میں خود بیچ سکے گا انشاالله
خدا را اپنی حکومت کی کارکردگی کاشتکار کی جنس کو سستا کر کے نہ دکھایں …..
اور میرے کاشتکار بھائی …. آپ بھی اپنی آواز بلند کرنا سیکھیں …. اپنے گلے کا چیک اپ کروایں