اگر کوئی جاہل یہ کہتا ہے کہ فرنگی راج میں پنجابیوں نے مزاحمت نہیں کی تھی تو اسکو یہی مشورا دیا جاسکتا ہے کہ؛ وہ مشہور تواریخ دان عزیزالدین کی کتاب "پنجاب اور بیرونی حملہ آور" کا مطالعہ کرلے۔
عزیز الدین ایک اردو اسپیکنگ لکھاری ہیں اور مکمل طور پر غیر جانبدار شخصیت ہیں۔ اُن کے مطابق پنجابیوں نے راجہ پورس سے لیکر بھگت سنگھ تک پنجاب کی سر زمین کے ایک ایک اِنچ پر مزاحمت کی ہے۔
دنیا کی مشہور قتل گاہ جلیانوالہ باغ ' جہاں پنجابیوں نے مزاحمت کا ریکارڈ قائم کیا ' کتاب میں اِسے پنجاب کی کربلا کہا گیا۔ دُلا بھٹی پنجاب کا رابن ھُڈ ' پنجابیوں کی مزاحمت کی ایک لافانی مثال ہے۔ 1857 کی جنگ ازادی شروع دلی سے ہوتی ہے ' اسکا انت پنجاب سے ہوتا ہے ' جب گوجرانوالہ پر انگریز بمباری کرتا ہے۔
پنجاب ' ہندوستان کا وہ خطہ تھا جو انگریز کے دور میں بھی آزاد حثیت برقرار رکھے ہوئے تھا یعنی پنجاب ایک آزاد ریاست تھا اور یہ سب سے آخر میں انگریزوں کی گرفت میں آتا ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 1839 میں وفات کے بعد پنجاب پر انگریز کا قبضہ 29 مارچ 1849میں ہوتا ہے جب پنجاب پر ایک 10 سالہ کم سن بچے مہاراجہ دلیپ سنگھ کا راج تھا۔
مہاراجہ دلیپ سنگھ سکھ سلطنت کا آخری مہاراجہ تھا۔ وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ کنور دلیپ سنگھ 6 ستمبر1838ء کو لاہور میں پیدا ہوا۔ اس کی پرورش اس کی ماں مہارانی جنداں نے کی۔ مہاراجہ شیر سنگھ کے قتل کے بعد امرائے سلطنت اور وزیر اعظم ہیرا سنگھ نے باہمی مشاورت سے کنور دلیپ سنگھ کو تختِ لاہور پر بٹھایا۔ یہ ایک کٹھن دور تھا۔ خالصہ پنجابی فوج طاقت ور ہو چکی تھی اور جرنیلوں کے سامنے کوئی بھی مخالف بات کہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
پنجابی فوج 1849 میں انگریز فوج کے ساتھ ہونے والی جنگ میں دیدا دلیری سے لڑتی ہے۔ ہندو پنجابی ' سکھ پنجابی اور مسلمان پنجابی مل کر انگریز فوج میں بھرتی غیر مُلکیوں اور اترپردیش کے بھیا ' بہار کے بہاری کرائے کے غنڈوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ لیکن جیتی ہوئی بازی چند غدراوں کی وجہ سے ہار جاتے ہیں۔
پنجاب پر قبضے کے بعد بھی رائے احمد کھرل ' نطام لوھار ' مراد فتیانہ ' خانو ' مُلا ڈولا اور بھگتاں والا بھگت سنگھ چند ایسے کردار ہیں ' جنہوں نے بغاوت کا علم بُلند کیا۔ لیکن پنجابیوں نے اپنی زبان ہی نہیں بھُلائی ' اِن شہیدوں کا احسان بھی بھُلا دیا ہے۔
اگر پنجابی اپنی زبان سے رشتہ قائم رکھتے اور انگریز فوج میں شامل ہوکر 1849 میں پنجاب پر حملہ آور اور قابض ہونے والے اترپردیش کے بھیا کی زبان کو 1877 میں پنجابیوں پر مسلط نہ ہونے دیتے۔ لیکن اگر انگریز کے اترپردیش کے بھیا کی سرپرستی کی وجہ سے 1877 میں ممکن نہ تھا تو 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ہی اترپردیش کے بھیا کی زبان سے نجات حاصل کرلیتے تو؛ کسی کو بھی پنجابیوں کو کھُسرا کہنے کی ہمت نہ ہوتی۔