عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ فیصل آباد (جس کا پہلا نام لائل پور تھا) گھنٹہ گھر، آٹھ بازاروں اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی وجہ سے معروف ہے…اگرچہ گھنٹہ گھر پنجاب کے دیگر شہروں جیسا کہ ملتان، سیالکوٹ اور سمندری میں بھی تعمیر کیے گئے تھے، لیکن فیصل آباد کے گھنٹہ گھرنے زیادہ شہرت پائی۔
لائل پور شہر کی منصوبہ بندی یونین جیک (برطانیہ کے قومی پرچم) کی طرز پر کی گئی تھی، آٹھ شعاعی بازاروں کو گھنٹہ گھر سے نکال کے آگے بڑھایا گیا ہے۔ گھنٹہ گھر کے نچلے حصے میں لکھی ہوئی عبارت سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ عمارت چناب کالونی کے وفادار باشندوں نے ملکہ وکٹوریہ کی محبت میں بنائی تھی۔ بازاروں کو اس انداز سے تشکیل دیا گیا ہے کہ گھنٹہ گھر کو ان تمام بازاروں کے کونوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بازاروں کو جس طرح آپس میں اور پھر گھنٹہ گھر کے ساتھ مرکز میں جوڑا گیا ہے وہ حیرت انگیز اور حیران کن ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل ایوب خان، جو کہ پاکستان میں پہلے فوجی آمر تھے، کے صدارتی نظام کے کچھ مبصرین نے اس کے صدارتی نظام اور شہر کے مابین ایک مماثلت ڈھونڈی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ جس طرح صدارتی نظام میں ’صدر‘، جنرل ایوب خان، نمایاں تھے بالکل اسی طرح لائل پور میں گھنٹہ گھر نمایاں تھا۔ بعض دوسرے مبصرین نے گھنٹہ گھر اور اس کے آٹھ بازاروں، خاص طور پہ جس طرح سے انھیں تعمیرکیا گیا ہے، کی پاکستان میں فوجی طاقت کے ساتھ مماثلت یا برابری کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ فوجی آمر طاقت کو اپنے ہاتھ میں مرکوز کرتے ہیں اور جس طرح گھنٹہ گھر شہرکا مرکز ہے بالکل اسی طرح فوجی آمر ملک کی سیاست اور طاقت کے محور ہیں۔ بالفاظِ دیگر، جس طرح تمام سڑکیں گھنٹہ گھر کی طرف جاتی ہیں بالکل اسی طرح تمام فیصلے یا تو بالواسطہ یا پھر بلاواسطہ ہیرا پھیری سے ڈکٹیٹر کرتے ہیں۔
اس طرح کی تماثیلوں اور اس کے انوکھے فن تعمیر کی وجہ سے گھنٹہ گھر نہ صرف شہر کا مرکز ہے بلکہ شہر میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔ مثال کے طور پر انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت اس جگہ پر جلسہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ احتجاجی مظاہروں کا بھی یہی حال ہے۔ گھنٹہ گھر میں مختلف مقاصد کے لئے مختلف مذہبی گروہوں کے جلسے اور جلوس بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فیصل آباد کا میئر یہاں پر اپنی تقریر کرتا ہے اور پرچم کشائی بھی کرتا ہے۔
آٹھ بازاروں کے نام ان سمتوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جن کی طرف وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ کچہری بازار، چنیوٹ بازار، امین پور بازار، بھوآنہ بازار، جھنگ بازار، منٹگمری بازار، کارخانہ بازار اور ریل بازار ہیں۔ مصنوعات کو ان بازاروں میں خرید و فروخت کے لئے لایا جاتا ہے۔ ہر بازار میں مصنوعات کی ایک الگ قسم ہوتی ہے۔
صرف معدودے چند ہی جانتے ہیں کہ یہ پہلا گھنٹہ گھر نہیں ہے جو شہر میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس حقیقت سے پردہ سب سے پہلے ایک نوجوان صحافی سلمان فاروق نے اٹھایا تھا۔ بعد میں اس کی تصدیق محکمہ آبپاشی کے کچھ ممبروں نے بھی کی، جن میں ایک سابق ملازم محمد شفیع گجر بھی شامل تھے۔ انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ پہلا گھنٹہ گھر انگریزوں نے محکمہ آبپاشی کے دفتر کے قرب و جوار میں بنایا تھا۔
یہ گھنٹہ گھر متعدد مقاصد کے تحت بنایا گیا تھا: پہلا، برج پر نصب گھڑی اس علاقے کے لوگوں کو وقت کے بارے میں آگاہ رکھنے کے لئے ہر گھنٹے بعد بجتی تھی۔ دوم، یہ کہ اس برج کی چوٹی پر ایک تیر تھا جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا رخ شہر کی طرف کیا گیا تھا جبکہ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا تاکہ مسلمان اپنی نماز کے دوران صحیح سمت کا تعین کر سکیں۔ علاوہ ازیں انگریز علاقے کے لوگوں کو ان سے یا تو ٹیکس وصول کرنے کے لئے یا پھر ان کو کوئی اہم پیغام پہنچانے کے لئے برج پر لگائی گئی گھنٹی بجا کر جمع کرتے تھے۔
اس کے علاوہ بارش کی شدت کی پیمائش کرنے کے لئے اس عمارت پر بارش ماپنے والا میٹر بھی لگایا گیا تھا۔ جمع کی گئی معلومات کو بعد میں اس علاقے کے باشندوں تک پہنچا دیا جاتا تھا۔ محکمہ آبپاشی کے دفاتر، ریلوے لائنیں اور ریلوے اسٹیشن بعد میں تعمیر کیے گئے تھے۔ گمٹی اور قیصری دروازہ پہلی دو یادگاریں تھیں جو مقامی لوگوں نے بنیادی طور پر ملکہ وکٹوریہ کی سالگرہ کے موقع پر ان کے اعزاز کے لئے تعمیر کی تھیں۔ تاہم، مسلمانوں نے احتجاج کیا کہ یہ یادگار صرف ہندو برادری کی نمائندگی کرتی ہے۔ پھر انھوں نے ملکہ وکٹوریہ کے اعزاز کے لئے مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کے لئے ایک یادگار بنانے کا فیصلہ کیا۔ تب برطانوی انتظامیہ نے مسلمانوں کو قائل کیا کہ وہ دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ ایک یادگار یعنی دوسرا (اور موجودہ) گھنٹہ گھر بنانے کے لئے تعاون کرے۔ یہ بات گھنٹہ گھر کے نچلے حصے میں چارمختلف کندہ کی گئی عبارتوں سے جھلکتی ہے۔ یہ عبارتیں مسلمانوں، سکھوں، ہندوؤں، اور عیسائیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔
اس کی بنیاد 14 نومبر 1903ء کو برطانوی لیفٹیننٹ گورنر پنجاب، سر چارلس ریواز اور عبداللہ پور کے میاں خاندان نے رکھی تھی۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر کا کام میونسپل کمیٹی کے حوالے کردیا گیا تھا اور اس پر خرچ ہونے والی رقم کو زرعی اراضی پر ٹیکس عائد کرکے حاصل کیا گیا تھا۔
دوسرا اور موجودہ گھنٹہ گھر، بغیر کسی شک کے، ایک قدیم یادگار ہے جو برطانوی راج کے دور سے اب بھی اپنی اصل حالت میں کھڑا ہے۔ تاہم، پہلا گھنٹہ گھر جو محکمہ آبپاشی کے دفاتر کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا خستہ حال ہے۔ جنوری 2014ء میں لائل پور ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے ضلع میں 45 تاریخی عمارتوں کو محفوظ کرنے کے لئے منتخب کیا تھا۔ تاہم، محکمہ آبپاشی والا گھنٹہ گھر اس فہرست میں شامل نہیں تھا۔ امور کے ذمہ داران کو تاریخی یادگار کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
یہ کالم روزنامہ جدوجہد کے اس لنک سے لیا گیا ہے۔
“