لارنس سمرز امریکی صدارتی مہم میں 1988 میں کام کر رہے تھے۔ شکاگو میں تقریر کرنے ائیرپورٹ پہنچے تو دیکھا کہ اس کے پچھلی سیٹ پر ایک فون نصب ہے۔ انہوں نے اس سے اپنی بیوی کو فون کیا اور بتایا، “گاڑی چل رہی ہے اور میں تم سے بات کر رہا ہوں”۔ اور کئی دوستوں کو فون کر کے اس حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا بتایا۔
سمرز 1997 میں مغربی افریقہ میں آئیووری کوسٹ پر ایک امریکی امداد سے فنڈ کئے گئے ہیلتھ کئیر پراجیکٹ کا افتتاح کر رہے تھے جو آبدجان کے قریب کے دیہات میں صاف پانی اور صحت کی سہولیات کے لئے تھا۔ اس دوران ان کے ساتھ مقامی آفیشل نے اپنا فون ان کی طرف بڑھایا، “آپ کے لئے واشنگٹن سے کال ہے”۔ شکاگو ائیرپورٹ سے ایک لگژری پِک اپ میں شیخی بگھارنے سے افریقہ کے دیہات میں ایک مقامی آفیشل کی ڈیوائس پر بات کرنے کا سفر صرف نو سال میں ہوا تھا۔
سمرز کہتے ہیں کہ یہ خیال مجھے اس کال کے بعد آیا۔ ٹیکنالوجی کی نہ صرف رفتار حیران کن ہے بلکہ اس کی عالمی پہنچ بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم سائنسی پراگریس کی لکیر بنائیں تو اس کا سلوپ بہت واضح ہے۔ پرنٹنگ پریس، ٹائپ رائٹر، مین فریم، ورڈ پراسسر، پرسنل کمپیوٹر، انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ، موبائل فون، سرچ، موبائل ایپ، بگ ڈیٹا، ورچوئل رئیلیٹی، انسانی جینوم سیکیونسنگ، مصنوعی ذہانت، خودکار گاڑی۔ اس طرح کی ایجادات کا اگر وقت کے حساب سے گراف بنائیں تو نظر آئے گا کہ ایک ہزار سال پہلے تبدیلی کی یہ رفتار وقت اور جگہ دونوں لحاظ سے سست رفتار تھی۔ اگر آپ بارہویں صدی میں رہ رہے تھے تو آپ کی زندگی گیارہویں صدی کے انسان سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ اور جو چیزیں ایشیا اور یورپ کے بڑے شہروں میں اپنا لی جاتی تھیں، انہیں قریب کے دیہاتوں میں پہنچنے میں بھی عرصہ دراز لگ جاتا تھا۔ افریقہ یا جنوبی امریکہ تو بہت دور کی بات ہے۔
بیسویں صدی میں ہمیں یہ رفتار تیزتر ہوتی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی دوسری ٹیکنالوجی کے کاندھے پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر بیس سے تیس سال ٹیکنالوجی کے ایک ایسے قدم کو لگ جاتے تھے جس کی تبدیلی کے نشان دنیا میں نمایاں نظر آتے تھے۔ مثال کے طور پر ہوائی جہاز یا کار۔ یہ ایک جنریشن کا وقفہ تھا۔
اور پھر اس گراف کا سلوپ بدلنے لگا۔ موبائل، براڈ بینڈ اور کلاوٗڈ۔ انہوں نے جدت لانے کے آلات عام کر دیے۔ اس میں کسی کے لئے بھی شرکت آسان ہو گئی۔ ایک جنریشن سے یہ وقت سکڑ کر پانچ سے سات سال میں آ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بہاوٗ کے ساتھ ایک اور بہاوٗ بھی ہے۔ یہ انسانیت، فرد اور معاشرے کا گراف ہے۔ کہ یہ کس قدر جلد خود کو بدل سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تبدیلیاں (جیسا کہ موبائل کنکٹیویٹی)، جیوفزیکل تبدیلیاں (ماحولیاتی)، سوشل تبدیلیاں (یہ زیادہ پرانا وقت نہیں جب رشتہ کرتے وقت لوگ ذات پات کا خیال کیا کرتے تھے)۔ کئی بڑی تبدیلیوں کے ساتھ سوسائٹی بدل گئی، کچھ کے ساتھ خوشی سے، کچھ سے ذرا پریشان ہو کر لیکن ہم بدل گئے۔
ہمارے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ خواندگی کا عام ہونا اور علم کا پھیلنا زیادہ موثر ہونے کی وجہ سے ہم خود زیادہ لچکدار ہو رہے ہیں۔ ہمارے ڈھلنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے جس چیز کو قبول کرنے میں دو سے تین نسلیں لگ جاتی تھیں، اب دس سے پندرہ برس میں ہم اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔
لیکن پھر ایک بری خبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی اور خیالات کی تبدیلی کی رفتار کا بہاوٗ اتنا تیز ہے کہ وہ کئی لوگوں کی اور کئی معاشرتی سٹرکچرز کے اس کو جذب کرنے کی رفتار سے زیادہ ہو رہا ہے اور یہ بہت سے افراد اور گروپس کے لئے معاشرتی بے چینی کا باعث ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟
جب پٹرول پر چلنے والا انجن آیا تو اس کی آمد سے لے کر گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن ہونے میں کئی دہائیوں کا وقفہ تھا۔ ٹریفک قوانین اور عادتیں، یہ ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں۔ ان کو بنانے اور اپنانے کے لئے ہمارے پاس وقت تھا۔ یہ آہستہ آہستہ بنتے گئے۔ ٹیکنالوجی اور معاشرت کی ان تبدیلیوں نے ہمیں گاڑیاں اور ہائی وے دیں اور محفوظ اور تیزرفتار سفر ممکن بنایا۔ اب سائنسی جدتوں کے لائے گئے زلزلوں کی رفتار اتنی تیز ہے کہ قوانین اور پرانے سسٹم بے معنی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہی سڑکوں اور گاڑیوں کے اسی نظام کے استعمال کا ملاپ جب سمارٹ فون ٹیکنالوجی سے ہوا تو اس نے ہمیں اوبر، کاریم، ائیر لفٹ جیسے ٹیکنالوجی دی۔ اس سے پہلے کہ کوئی اس کی ریگولیشن کی بات کا سوچے، یہ ہر طرف اپنائی جا چکی تھی اور اگر جب تک اس پر ریگولیشن بنائی جائے تو شاید اس کے اپنائے جانے اور عام ہونے تک یہ غیرمتعلقہ ہو چکی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روبوٹک سرجری، جین ایڈٹنگ، کلوننگ، مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کی اس یلغار کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنانے اور ڈھالنے کی رفتار بھی تیز کرنی ہے اور یہ ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اپنے شعبے کے ماہرین بھی اگر اس کا ساتھ نہ دیں تو جلد خود اپنے ہی شعبے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اصول، قواعد اور ضوابط بنانے والوں کے لئے یہ بڑا چیلنج ہے۔ اگر ٹیکنالوجی پانچ سے سات سال میں اگلا قدم لے رہی ہے اور معاشرہ اس کو جذب کرنے میں دس سے پندرہ سال لگاتا ہے تو پھر، اس کے سائیڈ ایفیکٹ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس کو بزنس کے حوالے سے دیکھا جائے تو روایتی طریقہ جس میں کوئی ایک کمپنی نئی کامیاب ٹیکنالوجی کے پیٹنٹ کی وجہ سے اگلے پندرہ سے بیس سال منافع کی توقع رکھتی تھی، اب بے کار ہو گیا۔ پیٹنٹ جاری ہونے میں اگر چار سے پانچ سال لگتے ہیں اور اتنے عرصے میں ٹیکنالوجی باسی ہو چکی تو اس طریقہ کار کی افادیت ختم ہو چکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرے کا بڑا چیلنج کیا ہے؟ تعلیم۔ روایتی طریقے میں آپ دس سال یا پندرہ سال تعلیمی ادارے میں جاتے تھے اور بس۔ اس کے بعد تعلیم کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اب تعلیم پوری عمر کا کام ہے۔ لیکن اس کی ضرورت کا ادراک عام نہیں۔ ہمیں اس کا علم ہے یا نہیں، ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، دنیا بھر میں پرانے سوشل سٹرکچر منہدم ہو رہے ہیں اور تبدیلی کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس اور ٹیکنالوجی سے مخالفت میں اضافہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اور اس کی وجہ ان تبدیلیوں کو جذب کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان تبدیلیوں کو مسترد کر دیا جائے۔ اس کو روکا جائے یا کم از کم رفتار سست کرنے کی کوشش کی جائے۔ دوسرا یہ کہ اس کو تسلیم کر لیا جائے کہ انسانیت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ ہمیں معاشرتی سٹرکچرز اور اداروں کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہے تا کہ ہم اس بہاوٗ کا حصہ بن سکیں۔ پہلا آپشن آسان لگے لیکن شاید سر کو ریت میں چھپانے جتنا مفید ہو گا اور ناقابلِ عمل بھی۔ ہمیں کئی طرح کے بحران کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی بحران ان میں سرِفہرست ہے۔ اور بڑے مسائل کا حل بھی سائنسی ترقی سے ممکن ہے۔
ٹیکنالوجی کی یہ ترقی فرد، معاشرے اور انسانیت کے لئے بڑا موقع بھی ہے اور بڑا چیلنج بھی۔ اگر ہم اس بہاوٗ کے ساتھ رہنے کی صلاحیت میں تھوڑا سا بھی اضافہ کر سکیں تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ہر فرد پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ ہماری سیاست، حکومت، صحت، معیشت اور عام شخض کے معیارِ زندگی پر گہرا اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطابقت پیدا کرنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ غلطیاں کرنے، تجربات کرنے اور ان سے فوری سبق لینے کی صلاحیت۔ ہر حکومتی ادارہ اسے اپنا سکتا ہے۔ یہ توقع رکھنا کہ ریگولیشنز کئی دہائیاں کارآمد رہیں گی، عبث ہے۔
دنیا میں اچھی یونیورسٹیاں اب تجربات کر رہی ہیں کہ جلد سے جلد نصاب کیسے بدلے جائیں۔ ہر کورس پر ایکسپائیری ڈیٹ کا اضافہ کیسے ہو۔ نصاب میں کونسے کورس اب ختم کر دئے جائیں۔ ایک بار نصاب بنا لینے کے بعد بیس پچیس سال تک کارآمد رہے؟ یہ کام نہیں کر سکتا۔ یہی طریقہ کار حکومت اپنا سکتی ہے۔
تجربہ کرنا، سیکھنا، اطلاق، کامیابی اور ناکامی کا تجزیہ۔ یہ مسلسل چکر ہے۔ ناکامی کے فوری بعد بھی اور کامیابی کے فوری بعد بھی۔ طویل عرصے تک رہنے والی یکسانیت کو استحکام کہنے کا دور گزر چکا۔ لیکن ہم ایک اور طرح کا استحکام حاصل کر سکتے ہیں، جو ڈائنمک استحکام کہلاتا ہے۔ یہ ویسا ہے جیسے سائیکل کا چلانا۔ ایک بار یہ شروع ہو جائے تو چلانا آسان ہو جاتا ہے لیکن اس حالت میں جانا ایک بار سیکھنا ہے اور ہم سب کو سیکھنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ دنیا چپٹی ہے۔”
کچھ لوگوں اپنی کلچرل بے چینی کی وجہ سے جہاں ہر طرح کے مضحکہ خیز قبول کر رہے ہیں، وہاں حقیقت یہ ہے دنیا چپٹی ہو رہی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی نے دیواریں گرا دی ہیں۔ رابطوں کے انقلاب نے فاصلے ختم کر دئے ہیں۔ بغیر فرکشن کے بہتے خیالات اور معلومات اس دنیا کو ہموار کر رہے ہیں۔ دنیا بھر سے سیکھا جا سکتا ہے، علم حاصل کیا جا سکتا ہے، عالمی برادری کا حصہ بنا جا سکتگا ہے، اس ترقی میں حصہ ڈالا جا سکتا ہے، خود کو اور اپنی اگلی نسلوں کو کیسے تیار کیا جا سکتا ہے ۔ غیرمحسوس طریقے سے ہو جانے والی یہ تیزرفتار گلوبلائزیشن بیسویں صدی کے برعکس عالمی معاہدوں کی محتاج نہیں تھی۔ ٹیکنالوجی نے اپنا کام کر دیا ہے اور کر رہی ہے۔ فرد، معاشرے اور انسانیت ۔۔۔ اس بہاوٗ کا سامنا کون کیسے کرے گا؟ یہ محض مجبوری نہیں، انتخاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو تفصیل سے پڑھنے کے لئے یہ دو کتابیں
The World is Flat: Friedman
Thank You for Being Late: Friedman
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...