پنڈلی سے پنڈلی جُڑ گئی تھی۔ آنکھیں کبھی کھُلتیں کبھی بند ہو جاتیں۔ سانس کبھی آسانی سے آتے کبھی اُکھڑ جاتے۔ سب چارپائی کے گرد کھڑے تھے۔ بیٹے بھی‘ بیٹیاں اور بہوئیں بھی۔ پوتے اور نواسے بھی۔ ذرا سا ہوش آیا تو بیوی نے کلمہ پڑھا اشہد اَن لا الہ الا اللہ اور کہا کلمہ پڑھو۔ وہ جو نزع کے عالم میں تھا‘ اُس کی زبان سے لفظ نکلا، ’’دکان‘‘ اور غنودگی پھر طاری ہو گئی۔ سانس لمبے ہونے لگے۔
اِرد گرد کھڑے ہوئوں نے کلمہ خوانی اور تلاوت جاری رکھی۔ کچھ دیر کے بعد اُس نے پھر آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ اب کے بڑے بیٹے نے کہا ابا جی کلمہ پڑھیں۔ ابا جی نے ایک ہی بات کی‘ کیا دکان کو تالہ لگایا ہے؟ پھر سانس اُکھڑ گئی۔ وجود لرزا اور چہرہ ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ محلّے کے ایک بزرگ نے بعد میں بتایا کہ مرحوم کو پوری زندگی دکان ہی کی فکر رہی۔ یہی ان کا اوڑھنا تھا اور یہی بچھونا۔ کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے‘ کسی کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں یا کوئی حادثے میں زخمی ہو کر سڑک کنارے ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ کوئی سوالی آیا ہے یا کسی کو مدد درکار ہے‘ مرحوم کو کوئی پروا نہیں تھی۔ دکان ہی ان کی زندگی تھی۔ دکان کے نفع نقصان کے آگے ان کی آنکھ دیکھ سکتی تھی ،نہ دماغ سوچ سکتا تھا۔ مرتے وقت کلمہ پڑھنے کے بجائے زبان پر دکان تھی اور دکان کا تالہ تھا!
یہ واقعہ مدتوں پہلے ایک بزرگ نے سنایا تھا۔ آج اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے ارد گرد اُن لوگوں کی تعداد روز بروز زیادہ ہو رہی ہے جنہیں دکان کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہیں اور اس دکان پرستی میں وہ اُن لوگوں کی زندگیاں بھی حرام کر رہے ہیں جنہوں نے اُن کی دکانوں سے کوئی سودا نہیں لینا۔
آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ آپ کو ایئرپورٹ پہنچنا ہے۔ مہمان کا جہاز اُترنے والا ہے اور آپ پہلے ہی دیر سے روانہ ہوئے ہیں۔ اتنے میں آپ کے موبائل فون پر پیغام موصول ہونے کی مخصوص گھنٹی بجتی ہے۔ اِرد گرد گاڑیوں کا اژدہام ہے۔ آپ گاڑی چلاتے ہوئے پیغام پڑھیں تو حادثے کا خطرہ ہے لیکن آپ سخت متجسّس ہیں کہ یہ کس کا پیغام ہے۔ کیا مہمان ایئرپورٹ پر باہر آ چکا ہے؟ کیا بچہ سکول سے واپس نہیں آیا؟ کیا آپ کی بیٹی کالج میں خیریت سے ہے؟ جو حالات ملک کے ہیں اور جس طرح شاہراہوں‘ چوراہوں‘ گلیوں اور بازاروں میں موت بٹ رہی ہے‘ ڈاکے پڑ رہے ہیں اور جس طرح اغوا برائے تاوان کامیاب ترین صنعت بن چکی ہے‘ اس کے پیشِ نظر آپ کو فوراً یہ پیغام پڑھنا چاہیے۔ آپ گاڑی کو ٹریفک کے جنگل سے بمشکل نکالتے ہیں اور ایک طرف کھڑی کر کے پیغام دیکھتے ہیں۔ یہ کسی پراپرٹی ڈیلر کا پیغام ہے۔ اُس نے آپ سے فرمائش کی ہے کہ چونکہ فلاں فلاں فیشن ایبل علاقے میں اُس کے پاس فلاں فلاں سائز کے پلاٹ ہیں اس لیے آپ اُسی سے خریدیں۔ آپ کا جسم غصّے سے کانپنے لگتا ہے۔ آپ پیغام بھیجنے والے کے نمبر پر کال کرتے ہیں لیکن وہ اُٹھاتا نہیں۔ اتنے میں آپ کو یاد آتا ہے کہ پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔ آپ گاڑی کو سرپٹ ایئرپورٹ کی طرف بھگاتے ہیں۔
آپ کی بیٹی کمرۂ امتحان میں بیٹھی پرچہ حل کر رہی ہے۔ وقت کم ہے اور سوالوں کے جواب تفصیل طلب ہیں۔ اُسے پیاس لگی ہے لیکن وہ پانی نہیں مانگ رہی کہ ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے۔ وہ سر جھکائے لکھ رہی ہے۔ لکھے جا رہی ہے۔ اتنے میں اُس کے موبائل فون پر پیغام وصول ہونے کی مخصوص آواز آتی ہے۔ اُس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ گومگو کی کیفیت میں ہے۔ فون بیگ سے نکال کر پیغام پڑھے یا ملتوی کردے۔ پھر اچانک اُس کا بدن جھرجھری لیتا ہے۔ دادا ابو کی طبیعت خراب تھی۔ خدا خیر کرے۔ کوئی اور مسئلہ نہ ہو گیا ہو‘ پرسوں سے پڑوسیوں کا بچہ گم ہے‘ ہمارے گھر میں بھی کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو۔ وہ قلم رکھ کر بیگ کی زِپ کھولتی ہے۔ ٹیلی فون نکالتی ہے۔ آن کرتی ہے۔ بے تابی سے پیغام پڑھتی ہے۔ یہ کسی نجی کمپنی کا اشتہار ہے جو براڈ بینڈ انٹرنیٹ کنکشن بیچ رہی ہے اور اُس کا اصرار ہے کہ انٹرنیٹ کنکشن اُسی سے لیا جائے۔ بیٹی کو سخت غصّہ آتا ہے۔ یہ اُس کی پرائیویٹ زندگی میں مکروہ مداخلت ہے جس کی اجازت قانون دیتا ہے نہ اخلاق۔ اُس کا امتحان متاثر ہوا ہے۔ اُس کا اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ مقابلہ ہے لیکن اُس کے کئی قیمتی منٹ ضائع ہو گئے ہیں۔ وہ پرچہ ختم کر کے کمرۂ امتحان سے باہر نکلتی ہے تو اشتہار دینے والے کو کال بیک کرتی ہے۔ کوئی جواب نہیں آتا۔ پھر وہ اُس نمبر پر فون کرتی ہے جو پیغام میں درج ہے۔ دکاندار فون اٹھاتا ہے۔ وہ اُسے کہتی ہے کہ تم مجھے اشتہار بھیج کر کیوں پریشان کر رہے ہو۔ دکاندار ادائے بے نیازی سے کہتا ہے کہ بی بی‘ اشتہار بھیجا ہے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے‘ آپ ہمارے ہاں سے انٹرنیٹ بے شک نہ خریدیں۔
یہ محض دو مثالیں ہیں۔ لیکن اس مکروہ مداخلت کی حد ہے نہ وقت۔ یہ اشتہار آپ کو نماز کے دوران مل سکتا ہے‘ سوتے میں جگا سکتا ہے۔ کھانا کھانے کے دوران اٹھا سکتا ہے‘ یہ ایسا غیر محرم ہے جو کسی بھی وقت آپ کے گھر میں گُھس سکتا ہے ،آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ روپیہ کمانے کی خاطر یہ دکاندار‘ یہ تاجر‘ یہ بزنس مین بائولے ہو چکے ہیں۔ ان کے مونہوں سے جھاگ نکل رہی ہے ۔انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ہر شخص کی جیب میں گھس کر گھنٹی بجانے سے ان کا مال نہیں بک سکتا ،انہیں اور ان کے پورے طبقے کو بددعائیں اور کوسنے ضرور ملتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو آخری سانسوں میں کلمہ نہیں پڑھیں گے ، کاریں ، پراپرٹی اور انٹرنیٹ کنکشن فروخت کریں گے۔
موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے کا نام پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) ہے۔اُن سے بات کی تو ذمہ دار افسر نے بتایا کہ وہ مکروہ مداخلت کے اس عفریت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔قانوناً یہ اشتہار بازی جرم ہے۔پی ٹی اے نے ANTI-SPAM-FILTER لگایا ہوا ہے۔اشتہار بھیجنے والوں کا نمبر ، اکثر و بیشتر ، اس فلٹر میں آجاتا ہے اور ان کا نمبر بلاک کردیا جاتا ہے۔یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ ادارے کے جن اصحاب سے بات ہوئی وہ خوش اخلاق تھے اور اس مسئلے کے سماجی پہلوئوں سے آگاہ ؛تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے پی ٹی اے کو ٹیلی ویژن پر اس سلسلے میں اشتہار دینے چاہئیں۔موبائل فون کمپنیوں کی بھی (جو ٹیلی فون کنکشن فروخت کرتی ہیں) اس ضمن میں ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صارفین کو سختی سے منع کریں اور ان پر واضح کریں کہ اشتہار بازی کے نتیجہ میں ان کی سم بند کی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ مہذب ترقی یافتہ ملکوں میں اس بیماری کا کوئی وجود نہیں۔
لیکن اصل مسئلہ وہ ذہنیت ہے جو تاجر کو آپے سے باہر کردیتی ہے۔یہ تاجرانہ ذہنیت ، یہ پیسے کمانے کی بیماری ، اُسے اندھا کردیتی ہے۔اُس کا دماغ شل ہوجاتا ہے اور وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جن سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو وہ یہ اشتہار بھیج رہا ہے ، ان میں سے چند ہی ہوں گے جو اس خریداری میں دلچسپی لیں گے اور اکثریت موبائل فونوں کے ان مظلوم صارفین کی ہے جو اس اشتہار بازی سے پریشان ہوں گے۔آخر یہ دکاندار اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بھی تو اشتہار دے سکتے ہیں!مگر شاید موبائل فون کے ذریعے یہ اشتہار بازی ارزاں پڑتی ہے۔دکاندار دوسروں کی زندگی حرام کرنے پر تیار ہے لیکن اپنا پیسہ خرچ نہیں کرتا!
کاش انہیں کوئی بتائے کہ جب پنڈلی سے پنڈلی جُڑجائے گی، سانس اکھڑ رہے ہوں گے ،چہرہ ایک طرف ڈھلکنے والا ہوگا ، خلقِ خدا کو پریشان کرنے والے کے منہ سے کلمہ نہیں ، موبائل فون پر دیاجانے والا اشتہار نکلے گا۔
http://columns.izharulhaq.net/2013_03_01_archive.html
“