کیا دن تھے یار
رات آٹھ کے گھنٹے سے آگے نہ بڑھتی تھی کہ ہم تاروں کی چھاوں میں پڑی بان کی چارپائی پر آ پڑتے ۔ تھوڑی دیرمنقش فلک منڈل کے ستارے گنتے ، چاند ملکہ کی سلامی بھرتے، قطب ستارے کو ڈھونڈ کر اُسے مجرا کرتے اور آدھ ہی گھنٹے میں نیند کی دیوی کی گودی لے کر سو جاتے ۔ نیند ایسی گہری آتی کہ ساری رات ایک پَل میں اُڑ جاتی ۔ تب ہوش آتا جب صبح کاذب کا موذن اللہ اکبر کا آوازہ بلند کرتا ۔ چڑیوں کی چوں چوں کی حمدوں کا شور اُٹھتااور سویرے کے پرندوں کی تسبیح چلنے لگتی ۔ اِس سُرمئی عالم میں ہماری اماں ہمیں اُٹھا کے دم لیتیں ۔ اورتب تک چارپائی کا سرھانہ نہ چھوڑتی جب تک ہم نیند کی آنکھیں ملتے ہوئے گاوں کی بڑی مسجد کے طرف نہ نکل جاتے ۔ یہ مسجد بریلویوں کی تھی ۔ یہاں صلواۃ پڑھانے والے دیوبندی مولوی صاحب تھے ۔
روزی روٹی کے لیے بریلوی بنے ہوئے تھے ۔ اُدھر ایبٹ آباد والے کسی علاقے سے کسی کا قتل کر کے آئے تھے ۔ تمام عمر بہت شریفانہ رہے ۔ ہم سنیوں کے ساتھ اُسی مولوی صاحب کے پیچھے با جماعت نماز پڑھتے۔ نماز ختم ہوتی تو قُرآن کا درس پڑھتے ۔ عربی پڑھانے میں مولوی صاحب کو کمال حاصل تھا ۔ ایک گھنٹہ تک قرآن پڑھنے کے بعد چھٹی ہوتی، جب تک سورج کی شفقی کرنیں عالمِ آب و گل کے دوپٹے سے جھانکنے لگتیں ۔ ہم اُسی عالم میں بھاگے بھاگے گھر آتے ۔ اُس وقت چار بھینسیں ہمارے گھر میں تھیں ، اُن کا چارہ لانا ہمارے ذمے تھا ۔ فوراً درانتی پکڑتے ، گدھے پر واہنا رکھتے اور چارہ کاٹنے نکل جاتے ۔ کھیتوں کو جانے والا کچے رستے کی تراوٹ ننگے پاوں کو ایسے ٹھنڈا رکھتی کہ اُس کی ٹھنڈار اب تک جگر میں تازہ ہے ۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی علی اصغر جھٹ پٹ میں چارہ کاٹ کر گدھے پر رکھتے اور ڈیڑھ ہی گھنٹے میں گھر لوٹ آتے ۔ تب وقت سکول جانے کا سر پر پڑا ہوتا ۔ سکول ہمارے گھر سے بیس قدم پر ہی تھا ۔ گھر میں ہتھی والے نکلے پر اچھا بُرا نہاتے ،۔ تب تک اماں ہماری روٹی پکا چکی ہوتی ۔
دہی کے ساتھ مکھن میں تر بتر روٹی کھاتے ، لسی کے دو گلاس چڑھاتے جس کے سبب سارا دن کلاس میں اونگھتے ۔ اُسی وقت سکول کی گھنٹی کانوں میں ٹن ٹن سے بجنے لگتی ۔ اِدھر ہم بستہ اللہ جانے کہاں رکھ کر بھول چکے ہوتے تھے ، اُسے ڈھونڈنے میں گھر کی ہر شے اُلٹ پلٹ کردیتے ۔ اللہ اللہ کر کے یہ سراب پاوں سے گزرتا ، بستہ پاتے اور دوڑ سکول کی طرف لگا دیتے ۔ اسمبلی کھڑی ہو چکی ہوتی ۔ دیر سے آنے والوں کی الگ لائن کھڑی ہو چکی ہوتی ۔ ہم بھی اُسی لائن میں کھڑے ہو جاتے ۔ اسمبلی ختم ہونے کے بعد پی ٹی ماسٹر صاحب آگے بڑھتے، دو دو ڈنڈے دیر آید کے لگاتے ۔ یہ دو ڈنڈے صبح کے ہمارے لیے فرضِ عین تھے ۔ اُستاد صاحب فرماتے ،عجیب کاہل انسان ہو، اِدھر بچے دس دس میل سے چل کر ٹائم پر پہنچتے ہیں اور تم پہلو سے اُٹھ کر وقت پر نہیں آ سکتے ۔
ہم اُنھیں کیا سمجھاتے کہ اُستاد جی مکے میں بدو یہی کچھ تو کرتے ہیں ۔ خیر بھائی دوپہر دو بجے تک سکول کی کلاسیں جاری رہتیں ۔ اِس عرصے میں ہم گاہے گاہے دو تین بار گھر سے اُستادوں کے لیے لسی کے دونے بھر بھر لاتے ، اُنھیں پلاتے اور ثواب کماتے ۔ سب اُستادوں سے اِسی طور حالات کچھ اچھے تھے ۔ ایک دو سے بُرے تھے ،جن کو لسی کی بجائے سگریٹ کی عادت تھی ۔ دو بجے وآپس آتے ۔، بستہ پھینکتے ،چٹنی کوٹ کر یا لال مرچیں لسی میں گھول کر اُن کے ساتھ دیسی گھی میں گندھی روٹی کھاتے ،پھربھینسیں کھولتے اور اُنھیں دریائے بیاس کی اُس ندی میں لے جاتے جہاں پانی ابھی چلتا تھا اور اتنا چلتا تھا کہ ہزار رونقیں اُس کے دم سے تھیں ۔ بھینسوں کے ساتھ خود بھی تیرتے ۔ مچھلیاں پکڑتے ۔ خوب نہاتے ۔ ایک گھنٹے بعد بھینسوں کو نہلا دھلا کر پانی پلا کر وآپس لاتے ۔ گھر کی حویلی میں باندھتے ، اور ہاتھوں سے چارا کترنے والی مشین پر چارہ کترتے ۔
بھینسوں کے آگے ڈالتے ۔ تب تک سہ پہر ساڑھے تین کا عالم ہو چکا ہوتا ۔ یہی وقت تھا ، آوٹ آف سلیبس کتابیں چاٹنے کا ۔ شام چھ بجے تک رتن ناتھ سرشار ، فرحت اللہ بیگ ، مولوی آزاد ،عمران سیریز یا دوسری کلاسک کے پڑھنے کا ۔ چھ بجے سورج کی تپ کم ہوتی اور ہماری کھیل کود شروع ہوتی، اُسی سکول کے کھلے گراونڈوں میں، جہاں پڑھنے کی باتیں ہم کر چکے ہیں مگر پڑھے کم کم ہیں ۔ شام غربِ شفق کو ساڑھے ساتھ بجے لوٹتے ۔ اس وقت پرندوں کی ڈاریں پپلی کے جنگلوں میں جا رہی ہوتی تھیں ۔ چرواہے بھیڑوں کو لیے گاوں میں لوٹ رہے ہوتے تھے ۔ کچی سڑکوں کی دھول دھیمے دھیمے بیٹھ رہی ہوتی تھی ، درخت پر سکون شفقی میں خموش کھڑے شام کا مجرا بجا رہے ہوتے تھے ۔ گھر آ کر ہم تازہ پکے سالن سے روٹی پھر کھاتے ۔ پی ٹی وی کا کوئی ڈرامہ دیکھتے اور اُسی چار پائی پر لوٹ آتے جہاں سے صبح کاذب کے وقت اُٹھے تھے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔