کیا یہ بات واقعی درست ہے کہ اگر فرسٹ کزنز آپس میں شادی کریں تو ان کے بچوں میں جینیاتی خرابیوں کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے؟ اگر ہمیں جینیات کی سائنس کا بنیادی علم ہو تو اس سوال کا جواب سمجھنا کچھ آسان ہو جاتا ہے
تاریخی طور پر دنیا کے ہر حصے میں کزن میرج کا رواج عام رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ذرائع آمد و رفت اس قدر محدود تھے کہ ملنا جلنا چند میل کے دائرے تک ہی محدود ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ جیون ساتھی تلاش کرنے میں آپ کو زیادہ تر اپنی ہی فیملی کے لوگ دستیاب ہوتے تھے۔ اس لیے فرسٹ کزن اور سیکنڈ کزن سے شادی کرنا عام تھا۔
اگر کوئی شخص اپنے چوتھے کزن سے شادی کرے (یعنی ایسے شخص سے جس کی چوتھی پیڑھی – دادا کا دادا) مشترکہ ہو تو ان دونوں میں 0.2 فیصد ڈی این اے مشترکہ ہو گا۔ تیسرے کزن سے شادی کرے تو 0.78 فیصد ڈی این اے مشترکہ ہو گا۔ سیکنڈ کزن سے شادی کرے تو 3.13 فیصد ڈی این اے مشترکہ ہو گا۔ اور اگر فرسٹ کزن سے شادی کرے تو 12.5 فیصد ڈی این اے مشترکہ ہو گا۔ میاں اور بیوی میں جس قدر ڈی این اے مشترکہ ہو اسی قدر امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ بچوں میں کوئی جینیاتی مسئلہ ہو گا۔ بہن بھائی کی شادی ہر کلچر میں ممنوع ہے کیونکہ ایسا کرنے سے 25 فیصد ڈی این اے مشترکہ ہو گا جو کہ بچوں میں جینیاتی بیماری کے امکان کو بہت زیادہ بڑھا دے گا
بہت سے لوگ کزن میرج کا دفاع اس نکتے سے کرتے ہیں کہ ان کے خاندان میں کوئی جینیاتی مسئلہ موجود نہیں ہے اس لیے ان کے خاندان میں کزن میرج سے بچوں میں جینیاتی مسائل کا امکان نہیں ہے۔ لیکن یہ دلیل درست نہیں ہے۔ بچوں میں جینیاتی بیماری کے امکان کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ والدین میں کوئی ظاہری جینیاتی بیماری موجود ہو۔
مثال کے طور پر سسٹک فائبروسس کی بیماری CFTR جین میں نقص کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن یہ بیماری صرف اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے اگر کسی کے ڈی این اے میں اس جین کی دونوں کاپیاں میوٹیٹڈ ہوں۔ اگر کسی کے پاس اس میوٹیٹڈ جین کی صرف ایک کاپی ہے تو اس شخص میں سسٹک فائبروسس کی بیماری نہیں ہے۔ لیکن ایسے اشخاص اس بیماری کے حامل یعنی carrier تصور کیے جائیں گے۔ اگر میوٹیٹڈ CFTR کے carrier کی شادی کسی ایسے فرد سے ہوتی ہے جو اس میوٹیشن کا حامل نہیں ہے تو بچوں میں اس بیماری کے ہونے کا امکان صفر ہے۔ لیکن اگر میاں اور بیوی دونوں میں یہی میوٹیشن موجود ہے تو پھر بچوں میں اس بیماری کا امکان 25 فیصد ہوتا ہے یعنی اس بات کا امکان 25 فیصد ہو گا کہ انہیں ماں اور باپ دونوں سے یہ میوٹیٹڈ جین ملے گا اور بچوں میں سسٹک فائبروسس کی بیماری ہو گی
فرسٹ کزن کی شادی سے بچوں میں کسی بھی بیماری کا کتنا امکان ہے؟ یہ امکان تب پیدا ہوتا ہے جب میاں اور بیوی دونوں میں اس جینیاتی بیماری کے میوٹیٹڈ جینز موجود ہوں لیکن خود میاں اور بیوی میں وہ بیماری موجود نہ ہو۔ یہ کیلکولیشن اتنی آسان نہیں ہے جتنی بادی النظر میں معلوم ہوتی ہے۔ اگر دادا دادی، نانا نانی سب میں یہ جینز موجود ہیں تو اس سوال کا جواب مختلف ہو گا، اگر صرف دادا دادی میں ہیں نانا نانی میں نہیں ہیں تو جواب کچھ اور ہو گا، اگر دادی میں ہیں اور کسی میں نہیں تو جواب کچھ اور۔ البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جینیات کے ماہرین کی کیلکولیشن کے مطابق فرسٹ کزنز کی شادی سے بچوں میں کسی ایک جینیاتی بیماری کے ہونے کا امکان سات فیصد تک ہو سکتا ہے جبکہ عام آبادی میں اسی بیماری کا امکان 4 فیصد تک ہوتا ہے۔
آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ اگر عام لوگوں میں کسی جینیاتی بیماری کا امکان چار فیصد ہے اور کزنز کی شادی سے بچوں میں اس بیماری کا امکان سات فیصد ہو جاتا ہے تو یہ کوئی بہت بڑا رسک نہیں ہے۔ اگر انسانوں میں صرف ایک ہی جینیاتی بیماری ہوتی تو آپ کا خیال درست ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسی ہزاروں جینیاتی بیماریاں ہیں جن کے میوٹیٹڈ جینز ہمارے اجداد کے ڈی این اے میں موجود ہو سکتے ہیں۔ فرسٹ کزن میریج سے ان میں سے ہر جینیاتی بیماری کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر فرسٹ کزن میریج سے اس بات کا امکان بہت زیادہ ہو جاتا ہے کہ بچوں میں کم از کم ایک جینیاتی بیماری موجود ہو گی، اور یہ امکان عام آبادی میں جینیاتی بیماریوں کے امکان سے کہیں زیادہ ہے
اگر آپس میں شادی کرنے والے فرسٹ کزنز کے والدین بھی آپس میں فرسٹ کزنز ہیں تو بچوں میں جینیاتی بیماریوں کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگر ان کے دادا دادی بھی فرسٹ کزنز تھے اور نانا نانی بھی فرسٹ کزنز تھے تو یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں کئی پیڑھیوں سے خاندان میں نیا جینیاتی میٹیریل شامل نہیں ہوتا اور پرانے جینز کے نئے کامبینیشنز بنتے ہیں جن میں کئی کامبینینشز جینیاتی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں
ان تمام مسائل سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ خاندان میں شادیوں ے گریز کیا جائے اور خاص طور پر فرسٹ کزنز کی شادی سے مکمل طور پر گریز کیا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ہونے والے جوڑے کا جینیاتی ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیے تا کہ بچوں میں نسبتاً عام جینیاتی بیماریوں مثلاً تھیلیسیمیا کے امکان کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اگر یہ جینیاتی ٹیسٹس ایسی عام بیماریوں کا امکان ظاہر کریں تو پھر اس شادی کو منسوخ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ جینیاتی ٹیسٹس عموماً محض چند بیماریوں سے متعلق ہی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے اگر جینیاتی ٹیسٹس کے نتائج حوصلہ افرا ہیں تو ابھی اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ جن جینیاتی بیماریوں سے متعلق ٹیسٹ نہیں کیے گئے ان میں سے کچھ بیماریاں بچوں میں ہو سکتی ہیں۔
اوریجنل انفارمیشن کا لنک