کیا سول وفوج کے درمیان مفاہمت کا آغازہو گیا؟
صدر نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر آج اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے ۔لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے ذاتی وجوہات کی بنا پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست کی تھی۔ رضوان اختر نے دوران ملازمت ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی رینجرز سندھ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے استعفیٰ میں لکھا ہے کہ بوجھل دل مگر اطمینان کے ساتھ میں آج 9 اکتوبر پیر کو اپنی وردی اتار دوں گا۔انہوں نے درخواست کی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر مفروضوں سے گریز کیا جائے۔۔۔۔میڈیا زرائع کے مطابق فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انتہائی اہم فیصلے کر لئے گئے ہیں ۔یہ ایسے اہم فیصلے ہیں جس سے سویلین حکومت اور فوجی اسٹیبشلمنٹ کے درمیان تمام تنازعات آئندہ کچھ ہفتوں تک حل کر لئے جائیں گے ۔بعض سیاسی ماہرین کے انتہائی قریبی زرائع یہ خبریں دے رہے ہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاوید باجوہ صاحب نے کچھ دن قبل ہونے والی اسپیشل کورکمانڈرز اجلاس میں اہم فیصلے کئے ہیں ،یہ اجلاس سات گھٹے تک جاری رہا تھا ،اجلاس کے اختتام پر پریس ریلیز بھی جاری نہیں کی گئی تھی ،میڈیا زرائع یہ قیاس آرائی کررہے ہیں کہ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ سول حکومت اور فوجی اسٹیبشلمنٹ کے درمیان تمام تنازعات ختم کئے جائیں گے ،کیونکہ ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات پیچیدہ ہیں اس لئے سول و ملٹری کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے ۔یہ فیصلہ کورکمانڈرز اجلاس میں کیا گیا ۔میڈیا زرائع کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے کہہ دیا ہے کہ اب کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا ۔میڈیا زرائع کے مطابق آئندہ کچھ دنوں میں مزید مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی،یہ تبدیلیاں ایسی ہوں گی جس سے یہ تاثر نظر آئے گا کہ حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان تعلقات بہتر ہو گئے ہیں ،فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ سویلین حکومت میں بھی کچھ بڑی اہم تبدیلیاں ہوسکتی ہیں ۔بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے چیف جمہوریت کے قائل ہیں اور رول آف لاٗ چاہتے ہیں ،وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی سائیڈ سے کسی قسم کی مداخلت ہو ،وہ چاہتے ہیں کہ ہر ایک اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرے ۔کہا جارہا ہے کہ فوج کے چیف نے عالمی حالات کے پیش نظر سب کچھ بہتر کرنے کا اشارہ دے دیا ہے ۔بعض مبصرین کے مطابق خطے کی صورتحال کے پیش نظر سویلین اور فوجی حکمرانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔سویلین حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور اپنے وقت پر ہی عام انتخابات منعْقد کئے جائیں گے۔فوج اور جمہوریت کے امیج کو اعلی و ارفع اور مثالی بنانے بنانے کے لئے پیش رفت ہورہی ہے ،جس میں اعلی فوجی و سویلین حکام اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔مبصرین کہتے ہیں کہ فوج نے اصولی فیصلہ کیا ہے کہ وہ جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑی ہے ،لیکن کرپشن پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا ۔نوازشریف مسلم لیگ ن کے صدر رہیں گے ،نیب کی پیشیاں بھی بھگتیں گے ،لیکن کسی قسم کا سخت ردعمل نہیں دیں گے ،نواز شریف کی جانب سے مفاہمت کی باتیں سننے کو ملیں گی اور کسی قسم کی لڑائی یا جھگڑے کا بیانیہ سننے کو نہیں ملے گا ۔یہ تمام باتیں اگر سچ اور حقیقت پر مبنی ہیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی طور پر پاکستان کا بہتر امیج دیکھنے کو ملے گا ۔اور اندرونی صورتحال میں بھی بہتری ہوگی ۔میری زاتی رائے یہ ہے کہ فوج کا چیف زمہ داری اور بردباری کا مظاہرہ کررہا ہے ،وہ کسی قسم کے مارشل لاٗ یا قومی حکومت کے حق میں نہیں ہیں،وہ صرف قانون کی حکمرانی کے خواہش مند ہیں ،جمہوریت پسند ہیں اور ایک پروفیشنل سپہ سالار ہیں ،اس لئے میری نواز شریف اینڈ کمپنی سے اپیل ہے کہ جمہوریت کی بقاٗ اور ملکی استحکام کی خاطر لڑائی کی پالیسی ترک کریں اور اس ملک کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اسٹیٹ مین کا کردار ادا کریں ،کہا جارہا ہے کہ آئندہ یہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ میڈیا ہاوسز کے کچھ اینکرز حظرات جو ہمیشہ لڑائی اور مارشل لاٗ کی باتیں کرتے آرہے تھے ،وہ مفاہمت کا بیانیہ اختیار کریں گے ،میڈیا کے کچھ حلقوں کو بھی شٹ اپ کال دی گئی ہے کہ وہ سازشی نظریات کی بجائے مثبت اور مفاہمت کی باتیں کریں ۔مبصرین کے مطابق اگر کسی کے خلاف انتقامی کاروئیوں کا تاثر مل رہا تھا تو شاید وہ تاثر بھی اب کسی ادارے کی جانب سے نہیں ملے گا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے اگر کسی ادارے یا سیاسی فرد کو غیر جانبدارانہ رویہ نظر نہیں آرہا تھا تو اب مکمل طور پر غیر جاندارانہ رویہ نظر آئے گا ۔ یہ سب کچھ سچ ہے تو پاکستان کا مستقبل روشن ہے ۔آزاد میڈیا مبصرین کے مطابق سویلین حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان مفاہمت کا عمل شروع ہو چکا ہے ،جس کا ثبوت آئندہ کچھ دنوں تک سچائی کی شکل میں نظر آئے گا ۔سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو بھی چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے سیاست کو بہتر کریں ،الیکشن کی تیاری کریں اور خوامخواہ کسی ادارے کو متنازعہ بنانے کی کو شش نہ کریں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔