تاریخ کےبعض چھوٹےچھوٹےحادثات ایک بڑےسانحےکاسبب بنتےہیں۔مگرتاریخ کی گردمیں یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں کہیں چھپ جاتی ہیں۔انکوکھوجناشایدناممکن ہو۔ایسےہی ایک حادثہ1968میں رونماہواتھا۔جس کازکرکہیں کھوگیاہے۔واقعہ قائداعظم اورفاطمہ جناح کی وراثت کامقدمہ ہے۔اس مقدمےنےہماری تاریخ بدل دی تھی۔
11ستمبر1948کوقائدنےوفات پائی۔24ستمبر1948کوفاطمہ جناح نےاپنا اوروزیراعظم لیاقت علیخان کادستخط شدہ حلف نامہ کراچی ہائیکورٹ میں جمع کروایا۔جس میں قائد کےاثاثوں کواہل تشیع کےمطابق مس جناح کےنام کرنےکی درخواست کی گئی تھی۔عدالت نےدرخواست منظورکی۔قائدکی جائیداد فاطمہ جناح کےنام ہوئی۔
جب تک فاطمہ جناح زندہ رہیں وہ قائدکی جائیدادکی نگہبان رھیں۔9جولائی1967کوانکی وفات کےکچھ دنوں بعدانکی ہمشیرہ شیریں بائی اپنےبیٹےاکبرپیربھائی کیساتھ کراچی تشریف لائیں۔اکبرپیربھائی نےوزیرخارجہ شریف الدین پرزادہ سےدرخواست کی انکی صدرایوب سےملاقات کروائی جائے۔یہ ملاقات کروائی گئی۔
فاطمہ جناح کےبھانجےاکبرپیربھائی نےایوب کوانکےقتل کی تحقیقات کیلئےعدالتی کمیشن بنانےکی تجویزدی۔جسےیہ کہہ کرمستردکیاگیاکہ اعلی سطحی حکومتی کمیشن اسکی تحقیقات کریگا۔اسکےبعداکبرپیربھائی نےاپنی والدہ شیریں بائی کوپاکستانی شھریت دینےکی درخواست کی۔تاکہ وہ مس جناح کی جائیدادسنبھال سکیں۔
صدرایوب نےاس بات کی یقین دھانی کروائی کہ شریں بائی کوپاکستانی شہریت دی جائےگی۔اسکےعلاوہ حکومت فاطمہ جناح کی جائیدادسنبھالنے پر کوئی اعتراض نہیں کریگی۔6فروری1968کو شیریں بائی کراچی ہائیکورٹ میں درخواست دی کہ مسلک اہل تشیع کی رو سے وہ فاطمہ جناح کی تمام جائیداد کی واحد حقدارہیں۔
کراچی ہائیکورٹ نےشیریں بائی کےحق میں فیصلہ دیا۔ڈیڑھ سال بعد29اکتوبر1970 کوقائدکےچچازادبھائی حسن علی والجی نےمقدمہ دائرکیاکہ قائداورفاطمہ جناح سنی حنفی مسلمان تھے۔انکی جائیدادسنی حنفی قانون کےتحت تقسیم ہونی چاھیے۔جس کےمطابق آدھی جائیدادشیریں اورآدھی رشتہ داروں میں تقسیم کی جائے۔
حسن علی نےموقف اختیارکیاوہ خود اسماعیلی شیعہ ہیں نہ کہ اثناعشری شیعہ۔عدالت نےشریف الدین پرزادہ کومعاون مقررکیا۔انکےمطابق قائد1901میں اسماعیلی شیعہ سےاثناعشری ہوئےتھے۔اسکی وجہ اسماعیلی برادری کااعتراض تھاانکی2بہنوں رحمت بائی اورمریم بائی کی شادیاں سنی خاندانوں میں کیوں ہوئیں۔
شریف الدین پرذادہ نے عدالت کوبتایاکہ قائداورنکاخاندان اثناعشری شیعہ ہواتھا مگرانکےباقی رشتہ داروں نےایسانہیں کیا۔اس بیان کےبعد24فروری1970کوجسٹس عبدالقادرشیخ نےمس جناح اورلیاقت علیخان کادستخط شدہ خلف نامہ مسترد کردیا۔انہوں نے فیصلہ سنایاکہ قائدنہ شیعہ تھےنہ سنی وہ صرف مسلمان تھے۔
شیریں جناح نے اس فیصلےکیخلاف اپیل کی۔شیریں بائی کےاہم گواہان میں ایم۔ایچ۔اصفحانی,سیدانیس الحسنین اورمطلوب الحسن سیدتھے۔مطلوب1940-1944تک قائدکےپرائیویٹ سیکرٹری تھے۔اصفحانی کےبقول قائدنےانکو1936میں بتایالندن سےواپسی پر1894میں وہ اثناعشری ہوئےتھے۔انکانکاح اہل تشیع فرقہ کےمطابق ہوا۔
دوسرےگواہ مطلوب سیدنےبتایاقائدکی نمازجنازہ وصیت کےمطابق پہلےاہل تشیع مولاناانیس الحسنین نےپڑھائی۔جس میں ہاشم رضا,یوسف ہارون اورآفتاب علوی نےشرکت کی تھی۔لیاقت علیخان موقع پرموجودتھے۔انیس الحسنین نےبیان دیامس جناح کی ہدایت کےمطابق انہوں نےقائدکواہل تشیع طریقےپرغسل دیااورنمازپڑھائی۔
تمام گواہان کو سننے کے بعد 23 دسمبر 1976 کو جسٹس ظفر مرزا(والد ذوالفقار مرزا) نے شیریں بائی کے حق میں فیصلہ دیا اور جسٹس عبدالقادر کا فیصلہ کالعدم قرار پایا۔جسٹس ظفر مرزا نے حسن علی والجی اور جینا بائی بیوہ جان محمد نتھو کی درخواستیں خارج کردیں۔یوں ایک مسئلہ حل ہوگیا تھا۔۔مگر۔۔
1981میں جسٹس ظفرمرزاکےفیصلےکو حسن علی نےسندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔موقف اختیارکیاقائداورمس جناح سنی حنفی مسلمان تھے۔جائیدادکی تقسیم سنی حنفی طریقےسےہو۔ضیاکاآمرانہ دورتھا۔اسلام کانعرہ عام تھا۔مقدمےکی سماعت شروع ہوئی۔سماعت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عبدالحئی قریشی کررھےتھے۔
مقدمےکی سماعت کےدوران قائدکےحج پرجانےکاارادہ,تلاوت قرآن اورشبیرعثمانی کوسنائےجانےوالےخواب کی پذیرائی شروع ہوئی۔قائدکی صدارتی نظام والی ڈائری بھی اس دورکی اہم دریافت ہے۔مقدمےکی سماعت میں قائدکےایمانی ثبوت ڈھونڈڈھونڈکرپیش کئےگئے۔قائدکوسیکولرازم کامخالف اوراسلام پسندبناکرپیش کیاگیا۔
23دسمبر1984کوعدالت نےجسٹس ظفرمرزاکافیصلہ کالعدم قراردیا۔جسٹس قریشی نےفیصلہ دیاقائدنہ سنی تھےنہ شیعہ وہ مسلمان تھے۔حکومت کوقائدکےمذھبی افکارعام کرنےکابھی حکم دیا۔اس فیصلےکی آڑمیں قائدکی شناخت گم کی گئی۔قائدکی2بہنوں کی شادی سنی اورایک بہن کی شادی اسماعیلی گھرانےمیں ہوئی تھی۔
قائدکےبھائیوں(بندےعلی اوراحمدعلی)نےغیرملکی خواتین سےشادیاں کیں۔احمدعلی کی بیٹی فاطمہ نےایک غیرملکی لڑکےسےشادی کی تھی۔ان سب کےقائدکیساتھ اچھےتعلقات تھے۔تاریخ سےقائدکےلبرل تشخص کومٹایاگیا۔یہی باتیں لکھی جائیں توپابندی عائدہوگی۔مگرعدالتی فیصلے؟پنجاب اسمبلی نےبل کیوں پاس کئےہیں؟