ایرانی غلام نے خنجر سے تین وار کئے اور عمر فاروق اعظم گر پڑے۔ وہ تو صبح کی نماز پڑھانے کےلئے کھڑے ہوئے تھے۔ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں میں عمر کے پاس تھا۔ اُن پر مسلسل غشی طاری رہی۔ جب دن نکل آیا تو انہیں ہوش آیا۔ انہوں نے سب سے پہلے پوچھا ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ میں نے کہا ہاں۔ بولے : جس نے نماز چھوڑی وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسی حالت میں انہوں نے وہ سارے فیصلے کئے جو اُمت کےلئے ضروری تھے۔ چھ بہترین انسانوں کی کمیٹی بنائی جس نے نئے خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا اور اپنے فرزند کو خلیفہ نہ بنانے کی ہدایت کی۔ پھر وہ اپنے نفس کا محاسبہ فرمانے لگے۔ اب وہ وقت قریب تھا جب انہیں خدا کے حضور حاضر ہو کر اعمال کا حساب دینا تھا۔ ایک عیادت کو آنے والے نے کہا ”خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ آگ آپ کے جسم کو کبھی مس نہ کرے گی“ آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا، اُن کی آنکھیں آنسوئوں سے چھلک اُٹھیں۔ حاضرین کے دل بھر آئے۔ آپ نے اُس سے کہا ”اے شخص، اس معاملے میں تیرا علم بہت قلیل ہے۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں زمین کے سارے خزانے آنے والی آزمائش کے خوف پر نچھاور کر دیتا۔“
لیکن کیا اس معاملے میں اُن کا علم قلیل نہیں کثیر ہے جو دونوں ہاتھوں سے رات دن، سالہا سال سے زمینیں، ڈالر، روپے اور محلات اکٹھے کر رہے ہیں؟ شاید انہیں یقین ہے کہ آگ اُن کے جسموں کو چُھو نہیں سکے گی۔ ”کثیر“ علم رکھنے و الے اِن لوگوں میں قلم کے وہ رکھوالے بھی شامل ہیں جن کے بارے میں انٹرنیٹ پر کروڑوں لوگ جان چکے ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک کروڑ تو کسی نے دو کروڑ اور کسی نے تین کروڑ سے بھی زیادہ روپے لئے ہیں۔ کسی نے امریکہ کے تین اور کسی نے دبئی کے سات پھیرے ”کمائے“ ہیں۔ یہ وہ خوش نصیب ہیں جو اس دنیا میں ہمیشہ رہیں گے!
ایک نیم تعلیم یافتہ شخص چند سال میں کھرب پتی کیسے بنا؟ اُسے اس ملک کی اشرافیہ اور بیورو کریسی نے اس ”رُتبے“ پر پہنچایا، اداروں نے اُس کی خاطر قانون توڑے، پولیس نے اُس کا ساتھ دیا، ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں نے خزانوں کے منہ اُس کیلئے کھول دیے، سیاست دان اُس کی دہلیز پر بیٹھ گئے، افسر شاہی اُس کے پیچھے دُم ہلا کر چلنے لگی۔ پورے ملک کا نظام اُس کے سامنے آنکھیں بچھانے لگا، تب وہ شخص کھرب پتی ہُوا اور طاقت کا مرکز بنا۔ چوہدری نثار نے درست کہا کہ مشرف نے اُس پر مقدمہ چلانے کا کہا اور پھر اُس کا گرویدہ ہو گیا۔ بالکل درست۔ لیکن خود چوہدری نثار صاحب کی پارٹی کے اصحابِ قضا و قدر بھی گنگنا گنگنا کر یہ شعر پڑھ رہے ہیں
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
چیف جسٹس اس آزمائش سے بھی سرخرو ہو کر نکلے۔ شکار کرنے والے اس بار بہت غرور میں تھے مگر وہ اپنے ہی دام میں اُلجھ گئے لیکن اس سارے بکھیڑے کا ایک اور نتیجہ بھی نکلا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے بہت ہی بھیانک رُخ سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے سیاست دان علم و دانش کے نہیں بلکہ دولت کے پرستار ہیں۔ ایک معروف صحافی نے تحریری شہادت دی ہے کہ ”ملک ریاض پرویز مشرف کا بھی قریبی ساتھی تھا، یہ چوہدری برادران کا بھی بھائی تھا، یہ حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو کاروباری مدد بھی دے رہا تھا۔ اس نے میاں برادران کی الیکشن مہم کو بھی سپورٹ کیا۔ میں نے اُس کے گھر میں یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک کمرے میں شیخ رشید بیٹھا ہے اور دوسرے کمرے میں حنیف عباسی ہے۔“
آپ اگر غور کریں تو یقیناً گواہی دیں گے کہ یہ سب لوگ کسی سکالر یا علم و حکمت کے موتی بکھیرنے والے کسی عالم فاضل کے دروازے پر نہیں جا سکتے۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہوں نے شاید پوری پوری زندگی میں تاریخ یا فلسفہء تاریخ یا اخلاقیات پر ایک کتاب بھی نہ پڑھی ہو لیکن چونکہ ملک ریاض کے پاس دولت تھی اور بے پناہ، بے اندازہ دولت، اس لئے یہ سارے اُس کی دہلیز پر بیٹھے تھے۔ یہ اُس کے پاس پورے پروٹوکول کے ساتھ جاتے ہوں گے لیکن یہ طے ہے کہ یہ سب سائل تھے۔ طاقت کے یہ پُتلے عام پاکستانی کےلئے آسمان سے بھی اونچے ہیں۔ اس قبیلے کے ایک فرد کو میں نے کچھ عرصہ ہُوا اسلام آباد کلب میں دیکھا۔ وہ چل رہا تھا اور خدائے بزرگ و برتر کی قسم! یوں چل رہا تھا جیسے روئے زمین پر اُس سے بڑا شخص کوئی نہ ہو۔ مجھے اُس کی شاہانہ چال، آگے کو نکلا ہوا سینہ اور چہرے پر تکبر کی پرچھائیاں دیکھ کر قرآن کی آیت یاد آ گئی — ”اور زمین پر اکڑ کر مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ ہی لمبا ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ سکتا ہے۔“ میرے جی نے چاہا کہ میں آداب بجا لا کر پوچھوں کہ عالی مرتبت! آجکل کون سی پارٹی میں ہیں اور ایجنڈے پر اگلی پارٹی کون سی ہے لیکن پھر ایک اور آیت یاد آ گئی — ”کہ جب لغو کے پاس سے گذرو تو بس متانت سے گذر جائو۔“
دولت کی اس پرستش اور دولت کی دہلیز پر اس ہجوم کا نتیجہ یہ ہے کہ آج شہر کے شہر لائبریریوں سے محروم ہیں اور ڈاکٹر، انجینئر، سکالر، پروفیسر ملک چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں، تلچھٹ باقی رہ گئی ہے۔ ایسے میں اس ملک کی قسمت میں کوئی مہاتیر، کوئی ہنری کسنجر، کوئی پروفیسر کونڈا لیز رائس، کوئی ڈاکٹر من موہن کیسے ہو سکتا!
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہمارا دوسرا رُخ یہ سامنے آیا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو عزت راس نہیں آتی۔ ہم مملکتِ خداداد پاکستان کے معزز ترین اداروں کی چوٹی پر پہنچتے ہیں۔ ہمارے پاس آبرو بھی ہوتی ہے اور تمام دنیاوی آسائشیں بھی۔ ہم ملک کی آبادی کے ایک فیصد مراعات یافتہ طبقے میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم آخرکار سیٹھ کی نوکری کر لیتے ہیں۔
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ فرشِ خاک پر بیٹھنا سنہری پیٹی باندھنے سے زیادہ باعزت ہوتا ہے اور گرم تنور کے چبوترے پر لیٹ کر سرد رات گذارنا محل کے اندر سمور اوڑھنے سے کئی گنا زیادہ احترام و افتخار کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن افسوس! ہمارا وژن اُس چیونٹی کے وژن جتنا ہو جاتا ہے جس کے نزدیک زندگی کا مقصد گندم کے دانے کے چوتھے حصے کو کھینچتے ہوئے اپنے سوراخ میں لے جانا ہے۔ لیکن اِن لوگوں کو چیونٹی کے ساتھ تشبیہ دے کر میں چیونٹی سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ چیونٹی جب اتنی خوراک کا ذخیرہ کر لیتی ہے جو اُس کی ضرورت کیلئے کافی ہو تو اُس کے بعد وہ گندم ہو یا چینی، خوراک کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتی۔ چیونٹی کو راز کی یہ بات معلوم ہے کہ اگر اُس نے ضرورت سے زیادہ ذخیرہ کیا تو وہ اُس کے مرنے کے بعد وارثوں کا ہو گا، اُس کا نہیں! یہی وجہ ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہُوا کہ کوئی نیم تعلیم یافتہ چیونٹی کھرب پتی بن گئی ہو!