یہ کہنا کہ چاول موٹا کرتا ہے یا چاول کھانے سے جسم کو نقصان ہوتا یا ذیابیطس کے چانسز بڑھ جاتے ہیں قطعی غلط ہے۔ اعتدال کے ساتھ ہر غذا کھانی چاہئے۔
دنیا میں آدھی سے زیادہ آبادی کی بنیادی غذا چاول ہیں۔ چین، مشرق بعید، بنگلہ دیش، اور دیگر کئی ممالک میں لوگ روزانہ چاول کھاتے ہیں۔ دوسری بات جو کہی گئ ہے کہ چاول کے ایک پیالے میں پیپسی کے ٹن جتننے حرارے ہوتے ہیں تو بھائ اس میں حیرت کی کیا بات؟ تمام اناج کاربوھائیڈریٹ سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ ہضم ہونے کے بعد شکر یا گلوکوز میں ہی تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ ہماری خوراک میں توانائ فراہم کرنے والے بنیادی جز ہیں۔ چاول ایک انتہائ نفیس اور زود ہضم غذا ہے۔ چاول ابال کر اگر اس کی پیچ یا پانی پھینک دیا جائے تب تو چاول بہت ہی زیادہ ہلکے ہو جاتے ہیں۔ تمام اناج ادل بدل کر کھاتے رہنے چاہئیں۔ زرا گندم کی دو روٹیوں میں بھی کاربوہائیڈریٹ یا حرارے معلوم کرلیجئے۔سو گرام سفید چاولوں میں 130 حرارے ہوتے ہیں۔ جبکہ سو گرام گندم کی روٹی میں اس کے ڈبل یعنی 264حرارے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاول کھانے کے چند گھنٹے بعد پھر بھوک لگنے لگتی ہے کہ آپ نے مطلوبہ مقدار سے کم حرارے لئے ہیں۔ ارے بھائ حرارے نہیں ہونگے تو خوراک کس کام کی؟؟؟ ہماری غذا دیکھئے۔ ہم یورپین لوگوں کی طرح سکا یا تلا ہوا گوشت اور ابلے آلو یا سبزیاں نہیں کھاتے۔۔۔ ہماری غذا میں روغنی شوربے کی رکابی میں دو بوٹیاں اور ایک آلو کے ٹکڑے یا کسی سبزی کے چند ٹکڑوں کے ساتھ روٹی یا چاول۔۔۔ اب وہ نرا پانی اور گھی تیل والا والا شوربہ یا دو بوٹیاں کتنی توانائ فراہم کریں گی؟؟ ہم کو جو توانائ ملتی ہے وہ روٹی چاول یا اناج اور چکنائ سے ہی ملتی ہے۔ یا تو آپ ایک پلیٹ میں پائو بھر گوشت کی تلی یا ابلی چانپوں کے ساتھ ایک پورا ابلا ہوا آلو اور سلاد اور تلے یا ابلے مٹر کھائیں تب تو آپکو اناج کی ضرورت نہیں۔ یا قیمے کےموٹے کباب والا برگر جس کے ساتھ فرنچ فرائز بھی ہوتی ہیں وہ لیجئے۔ بروسٹڈ چکن میں تلے چکن کے ساتھ زرا سا ڈنر رول ہوتا ہے اور پلیٹ بھر فرنچفرائز۔ تو یہاں روٹی یا چاول کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہمارے اکثر گھروں میں یہاں پائو یا ادھ کلو گوشت کا سالن پانچ چھ افراد کے لئے بنتا ہے۔۔تو لازمی ہے کہ روٹی یا چاول ساتھ ہوں تاکہ بنیادی غزائ ضرورت پوری ہوسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ کاربو ھائیڈریٹ سے مسلز نہیں بنتے بلکہ یہ پیٹ کو موٹا کرتا ہے۔ اسی لئے ہمارے ملک میں لوگوں کی توند نکل آتی ہے۔ وجہ آرام طلبی اور کھائ گئی غزا کو پوری طرح جسمانی مشقت سے حراروں کو خرچ نہ کرنا۔اصل میں جو چیز موٹا کرتی ہے وہ چکنائ ہے۔ اگر آپ ہمارے کھانوں پر نظر ڈالیں تو ان میں بغیر روغن یا تار نہ رنگ آتا ہے نہ ذائقہ ۔ ہمارا ہر کھانا پائو بھر تیل میں بنتا ہے۔ یہ بریانی کے چاول نہیں بلکہ اس میں موجود چکنائ موٹا کرتی ہے۔ چین کے لوگ روز چاول کھاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ جو بھی چکن یا سبزیاں گریوی کے ساتھ ڈالتے ہیں وہ بغیر چکنائ کے سوپ نما ہوتی ہے۔ یورپ امریکہ میں سبزیوں اور گوشت کا جو اسٹیو بنتا ہے وہ بھی بغیر چکنائ سوپ نما بنتا ہے جس کو چمچے کی مدد سے کھایا جاتا ہے۔ وہ لوگ زیادہ تر پنیر استعمال کرتے ہیں۔ یا پھر اگر کوئ چیز فرائ کرنی ہوتو گھی تیل استعمال کرتے ہیں۔
اگر موٹاپے اور بیماریوں ںسے بچنا ہے تو گھی تیل کم از کم استعمال کیجئے۔ اپنا انداز بدل دیجئے۔
ہم کاربو ھائیڈریٹ بھی کھا رہے ہیں اور ساتھ چکنائ بھی۔ چکنائ ہمارے جگر پر بے انتہا مشقت ڈالتی ہے اور یہ جسم میں براہ راست چربی کی صورت جمع ہو جاتی ہے کہ کاربو ھائیڈریٹ زیادہ لینے کی وجہ سے اس کے استعمال کی نوبت نہیں آتی اور جسم کو حسب ضرورت توانائ کاربو ھایئڈ ریٹ سے ہی مل جاتی ہے۔ بلکہ کاربو ھائیڈریٹ کی زائد شکر بھی چربی بن کر پیٹ پر جمع ہو جاتی ہے۔ ساری خرابی کی جڑ ہمارے کھانوں میں چکنائ کی بے انتہا زیادہ مقدار ہے جس سے بے شمار امراض اور پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کوشش کیجئے کہ بھاپ میں پکا یا ابلا ہوا یا ٓگ پر سیکا ہوا کھانا یا گریوی کی صورت میں سوپ نما کھانا استعمال کیجئے۔ کچھ عرصہ اس پر پابندی سےعمل کرنے کے بعد ٓٓآپ خود اپنے جسم میں خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے۔ جہاں چکنائ کا استعمال ناگزیر ہو وہاں زیتون کا تیل یا خالص سرسوں کا تیل یا مکئ کا تیل استعمال کیجئے۔ پھر آٓپ کو نہ چاول موٹا کرے گا نہ گندم ۔یورپی اور امریکن جو موٹے ہوتے ہیں تو وہ کھا پی کر موٹے ہوتے ہیں اور ان کے سینہ و بازو اور دیگر اعضا پر گوشت ہوتا ہے کیونکہ وہ کم کاربو ھائیڈریٹ لیتے ہیں اور پروٹین زیادہ۔۔۔ ہمارے یہاں پیٹ تو ڈھول ہو جاتا ہے لیکن باقی جسم کمزور ہی رہتا ہے۔۔پیپسی کے حرارے اس لئے نقصان دہ ہیں کہ وہ چینی ہوتی ہے۔ سفید چینی کے بے شمار نقصانات ہیں۔ یہ فوری جسم میں حل ہو کر زائد شکر جگر میں جمع کردیتی ہے۔ جبکہ تمام اناج بتدریج جسم میں حل ہوتے ہیں۔ اور دھیرے دھیرے توانائ فراہم کرتے ہیں۔