ایک بحث یہ بھی ہے کہ خلائی مشن ایک انتہائی مہنگا پراجیکٹ ہے جس کے کوئی خاص مختصر مدتی فوائد نہیں ہیں، دو وقت کی روٹی، صاف پانی، اور صحت کی بنیادی سہولیات کو ترستی عوام کے لئے تو بالکل بھی نہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ خلائی تسخیر کی مہم جس ڈگر پر چل رہی ہے اس میں ہو بہو کلونیل دور کی مہم جوئی کا سا حرص دکھائی دیتا ہے۔ یعنی وسائل پر کون پہلے قبضہ کرے گا، کون کون چاند اور مریخ کے ایلومینیم اور ٹائٹینیم کے ذخائر کا مالک بنے گا۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن اگر آپ آنے والے وقت میں دنیا کی ایک با اثر قوم بننا چاہتے ہیں تو خلائی پروگرام کو تیزی سے ترقی دینا بہت ضروری ہے۔
کسی ایک سیارے کو خلا تک پہنچانے کے لئے جس سطح کی ٹیکنالوجی چاہئے ہوتی ہے اور جس تعداد میں اعلی تربیت یافتہ افرادی قوت چاہئے ہوتی ہے وہ بذات خود اجتماعی سطح پر قوم کے لئے ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔ انجنئیرنگ، ٹیکنالوجی، کمپیوٹنگ، میٹلرجی، میتھمیٹکس، کیمسٹری، ایوی ایشن، اور نجانے کون کونسے شعبوں کے ماہرین چاہئے ہوتے ہیں۔ فرض کریں ایک سیارے کو بھیجنے کے لئے سو ماہرین چاہئیں۔ چونکہ ان سب ماہرین کے لئے ضروری ہو گا کہ یہ اپنے اپنے شعبوں میں بہترین قابلیت کے حامل سمجھے جاتے ہوں، تو آپکو کم از کم ایک دو ہزار ماہرین تو پیدا کرنے پڑیں گے جن میں سے سو بہترین دماغوں کا چناو کیا جا سکے۔ اور یہ محض ایک معمولی مصنوعی سیارے کی بات ہو رہی ہے۔ چندریان جیسے مشن کے لئے تو ہزاروں ماہرین چاہئے ہوں گے۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک جال پورے ملک میں پھیلانا پڑے گا جو ایسے مشن کے لئے افرادی قوت تیار کر سکے۔ بھارت نے صرف اپنے غریبوں کی غربت دور کرنے کی بجائے خلائی پروگرام میں پیسہ نہیں جھونکا بلکہ افرادی قوت پیدا کرنے کا ایک پورا نظام بھی ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور یہ افرادی قوت ہی ہے جس کے بل پر آج بھارتی دنیا بھر میں آگے ہیں۔ عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں اعلی ترین عہدوں پر فائز بھارتیوں کو تو سب جانتے ہیں لیکن یہاں ایک اور سائنسدان کی مثال بھی دینا چاہوں گا۔ انکا نام ہے چھینوپتی جگدیش۔ پروفیسر جگدیش آسٹریلین اکیڈمی آف سائنس کے موجودہ صدر ہیں اور انہوں نے پی ایچ ڈی سمیت اپنی تمام تعلیم بھارت میں ہی حاصل کی ہے۔
افرادی قوت خلائی پروگرام کا واحد فائدہ نہیں۔ ٹیکنالوجی میں مجموعی استطاعت اور خود انحصاری کا فائدہ کئی دیگر شعبوں کو بھی پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ زراعت، موسمیات، اور عسکری شعبے بھی خلائی پروگرام سے مستفید ہوتے ہیں۔
آنے والا دور ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کا ہے۔ بھارت نے چندریان کو چاند تک پہنچانے کے لئے جو تکنیکی صلاحیت اور ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے وہ اس سے مالی فائدہ پہلے سے ہی اٹھا رہا ہے۔ بھارت میں اب پرائیویٹ کمپنیاں بھی وجود میں آچکی ہیں جو مصنوعی سیاروں کو خلا میں پہنچانے کی کمرشل سروس فراہم کرتی ہیں۔
پھر یہ کہ چاند کے قطب جنوبی پر پانی کے ممکنہ ذخائر آنے والے وقت میں بہت اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اور بھارت وہاں سب سے پہلے پہنچنے کی وجہ سے کم از کم معلومات کی حد تک ایک لمبے عرصے تک اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکتا ہے۔ تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس اجارہ داری کے کیا کیا مالی، سیاسی، اور تزویراتی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
قصہ مختصر، خلائی پروگرام پر اعتراضات اپنی جگہ، لیکن جہاں ایک طرف عالمی خلائی پروگرام نے بالواسطہ طور پر پوری دنیا کے عام آدمی کے لئے ہزاروں آسائشیں پیدا کی ہیں، وہیں بھارتی خلائ پرگرام نے اپنے ملک و قوم کے لئے کئی ایک ٹھوس فوائد کے دروازے بھی کھول دیئے ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...