بابا بھوک لگئی ہے
بابا دروازے تک تو جاتا ہے پر آنسو پونچھتے ہوئے واپس آتا ہے
بیٹی کیا ہوا بابا
امام مسجد کچھ بھی تو نہیں
تو کیا کھانا لے آئے
بیٹا صبر کرؤ اللہ تعالی مدد فرمائے گا
امام مسجد کمیٹی کے پاس جاتا ہے پر وہاں جواب ملا صبر کیجئے نا مولوی صاحب اکثر گھروں میں کچھ بھی نہیں ہے کوئی دیتا ہی نہیں
امام مسجد جی مسجد کا بینک بیلنس تو ہے اسی میں سے قرضہ اٹھا کر دیجئے نا یا بیت المال سے تھوڑی مدد کریں نا سات آٹھ مہینوں کی تنخواہ میں سے کچھ تو دیں
کمیٹی جی امام صاحب مسجد کا بینک بیلنس مسجد کے تعمیری کام کے لئے ہے اللہ نے چاہا تو اس کو مزید کشادہ کیا جائے گا اور ہاں قالین بھی ڈالے جائیں گئے اور یہ رقم اسی لئے رکھی ہے اور بیت المال تو غریب نادار مفلس کے لئے ہے آپ تو خیر سے اچھے بلے ہیں اور آپ کا خرچہ ہی کتنا ہے ادھر ادھر کر لیجئے
واپس آکر امام مسجد کہتا ہے گھر میں اللہ نے چاہا تو آج کچھ نہ کچھ ہو جائے گا اور پھر گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھوکا رہنے کے واقعات سناتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ کی بھوک پیاس کے واقعات سناتا ہے
بیٹی کہتی ہے بابا امی کو چکر آرہے ہیں شاید بھوک لگئی ہوگئی
نہ بیٹا نہ وہ پہلے سے ہی کمزور ہے نا اس لئے چکر آرہے ہوں گئے
امام مسجد پریشان ہے کہ کیا کرے اب اسی اثناء میں ریلیف بھانٹنے والے آتے ہیں وہ امام مسجد سے کہتے ہیں غریبوں کی لسٹ دیں جی ہمیں ان کی مدد کرنی ہے امام مسجد کہہ نہیں پاتا کہ صاحب ہم پچھلے تین چار دن سے بھوکھے ہیں اسے توکل کے منافی جان کر ہونٹ سی لیتا ہے
دیکھا کہ چاول کی دکان پر ہنستے مسکراتے اس کے اپنے مقتدی چاول کی بوریاں خرید رہے ہیں پر اس کی تنخواہ تو ابھی ملی نہیں نا اس لئے اک سرد آہ بھر کر چلتا گیا
آخر تنگ آکر ایک غیر مسلم دوست سے قرضہ لیا اور گھر کے لئے کچھ سامان خریدا کھانے پینے کا اور اس قرضہ کی شہرت ہوگئی امام صاحب گھر پہنچے تو بیوی بیٹی آخری سانسیں لے رہی تھی امام صاحب سامان ایک کونے میں رکھ کر ان کے لئے کچھ کرنے کو دوڑا پر ہاتھ خالی تھا اور کوئی اس کی مدد کرنے پر آمادہ نہ تھا
واپس آیا تو بیوی اور بیٹی کا جنازہ اٹھا ہوا تھا مولوی دل ہی دل میں خوش بھی ہورہا تھا کہ چلو ان کو تو میری التجائیں اب نہیں کرنی پڑیں گئیں اب کم سے کم انہیں درد تو نہیں ہوگا جو یہ میرے ساتھ سہہ رہے تھے پر آنسو نکل پڑے کوشش کے باوجود بھی نہ روک سکا اپنے آنسوؤں کو جوں ہی لوگوں کی نظر پڑی تو سب نے اسے کہنا شروع کیا کہ دیکھو یہ ہمارے زمانے کے عالم ہیں یہ اس زمانے کے دین کے ٹھیکیدار ہیں بیوی اور بیٹی کو مار دیا پر ان کا خیال نہ رکھا
بیوقوف مولوی نابکار اسے شرم نہیں آئی کما کما کر پتہ نہیں کہاں خرچ کرتا ہے
مولوی بیچارہ آنسو بہاتا ہوا سوچ رہا تھا کہ کیا مصیبت ہے یہ میری تنخواہ بھی نہیں دیتے اور مجھے ہی کوستے ہیں اب کروں تو کیا کروں جاؤں تو کہاں جاؤں ہائے میری بیکسی و بے بسی
اور پھر
مولوی نے سسکتے سسکتے مولا سے کہا میرے مولا اب تھک گیا ہوں مجھے اب آپ کی رفاقت چاہئے جنت میں کیوں کہ اب یاد آرہی ہے اپنوں کی خودکشی نہیں کی کیونکہ وہ جائز نہیں ہے نا اس لئے مولا کی محبت میں دنیا سے آخرت کی طرف جانے کی دعا کی جو رب نے قبول کی اس کی جیب سے تسبیح کے دانے مسواک ایک سوکھی روٹی کے ٹکڑے ملے اور مولوی صاحب اپنے خالق سے ملاقات کے اشتیاق میں چلے گئے اس امید کے ساتھ کہ اب وہاں طعن و تشنیع سے بچا رہوں گا اور بھوک بھی نہ لگئے گی اور دکھ بھی نہ ہوگا
اور ملا کی تنخواہ مسجد کی تعمیر میں ایصال ثواب کے لئے خرچ کی گئی اور پوری بستی سے ہر گھر سے لوگوں نے نیاز کا کھانا بھانٹ دیا اور اپنے آنسو پونچھ لے کہ اللہ تعالی مغفرت فرمائے اچھا امام تھا بیچارہ پتہ نہیں کیسے مر گئے سب ہی اہل خانہ کیا بھوک سے بھی کوئی مرتا ہے
“