حالیہ دنوں میں سکیورٹی اداروں پر ایک مرتبہ پھر سے حملوں میں اضافہ ہو اہے۔ ساتھ ہی ہم پرانے معمول پر واپس آ گئے ہیں۔ ادہر حملہ ہوا، ادہر حملے کے مجرموں کی نشاندہی کر دی جاتی ہے۔ پانچ منٹ بھی نہیں لگتے۔ بغیر کسی تفتیش کے، بغیر کسی ثبوت کے ہمیشہ یہی پتہ چلتا ہے کہ حملوں میں بیرونی ہاتھ ملوث تھا۔
یوں سیاسی مخالفین…اس بات سے قطع نظر کہ ان کا متعلقہ حملے سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا یا یہ کہ وہ پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں…کو با آسانی دشمن ملک کا ایجنٹ قرار دیدیا جاتا ہے اور ان پر کریک ڈاون شروع کر دیا جاتا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ جبر و تشدد کے نتیجے میں سیاسی مخالفین کچلے جائیں گے اور یوں ان کی آواز دب جائے گی۔
اسی پس منظر میں تین ہفتے قبل حفیظ بلوچ کو کالے رنگ کے ویگو ڈالے میں آنے والے نامعلوم افراد زبردستی لاپتہ کر کے لے گئے۔ یہ ہونہار نوجوان میرے ہی ڈیپارٹمنٹ آف فزکس، قائد اعظم یونیورسٹی، سے پارٹیکل فزکس میں ایم فل کر رہا ہے۔ حفیظ بلوچ کو ان کے آبائی شہر خضدار سے جب اٹھایا گیا تو وہ ایک پرائیویٹ سکول میں لیکچر دے رہے تھے اور یہ واقعہ ان کے طلبہ اور دیگر اساتذہ کے سامنے رونما ہوا۔
حفیظ بلوچ سردیوں کی چھٹیوں میں گھر واپس چلے گئے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سکول میں پڑھا کر تھوڑی سی رقم جمع کرنا چاہتے تھے جس کی انہیں شدید ضرورت تھی۔ اسلام آباد واپس آنے سے چند روز قبل انہیں اغوا کر لیا گیا۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ اور کلاس فیلوز نے مجھے بتایا کہ حفیظ بلوچ ایک کتابی کیڑا ہیں اور کسی قسم کے مسلح گروہ سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔
سکیورٹی فورسز کے خوف سے مقامی پولیس نے حفیظ بلوچ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ دوران حراست یقینا حفیظ بلوچ کو غیر ملکی ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہو گی۔ غیر قانونی حراست کے دوران لاپتہ ہونے والے دیگر بلوچ نوجوانوں کی طرح حفیظ بلوچ بھی نفسیاتی و جذباتی، بلکہ غالب امکان ہے جسمانی طور پر بھی، شدید طور پر زخمی ہوا ہو گا۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حفیظ بلوچ کی زندہ واپسی ہو گی بھی یا نہیں۔ اس واقعہ کے بعد ناراض بلوچ کی ناراضی ایک درجہ اور بڑھ جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی دشمن اس کی قومی یکجہتی کے در پے ہیں۔ سچ مگر یہ ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر خفیہ کھیل کھیلنے والے ملکی سلامتی کے لئے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔ انہی لوگوں کے ہاتھوں 2001ء سے 2014ء کے دوران ہمارا ملک دہشت گردی کے ہاتھوں بری طرح برباد ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ غیر ملکی مخالف قوتوں نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن اس عرصے میں پاکستان اپنے ہی ہاتھوں زیادہ گھائل ہوا۔
گیارہ ستمبر کے بعد جب جنرل مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تو بم دھماکے پاکستان میں روز کا معمول بن گئے۔ گیارہ ستمبر سے پہلے پاکستان طالبان کا سب سے بڑا حمایتی تھا اور سب کو معلوم ہے کہ یہ حمایت خفیہ طور پر جاری رہی۔ بظاہر پاکستان امریکہ کا ساتھ دے رہا تھا۔ طالبان سے اس بظاہر دھوکے کے خلاف غصے میں آ کر مدارس کے طلبہ نے بازاروں، ہسپتالوں اور سکولوں میں بارودی جیکٹ پہن کر پھٹنا شروع کر دیا۔ ہر حملے کے بعد اسٹیبلشمنٹ ہمیں یہی بتاتی کہ خود کش حملوں کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے اور خود کش حملہ آور بھی غیر ملکی ہیں۔ بار بار یاد دلایا جاتا: بھلا ایک مسلمان کس طرح دوسرے مسلمان کو مار سکتا ہے؟
غیر ملکی ہاتھ والی تھیوری کو پیش کرنے میں جنرل حمید گل سب سے آگے آگے تھے۔ جنرل حمید گل سے میری پہلی ملاقات 1998ء کے لگ بھگ قائد اعظم یونیورسٹی کے فزکس آڈیٹوریم میں ہونے والی ایک تقریب کے اختتام پر ہوئی۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ پاکستان کو دنیا بھر میں جہاد کی قیادت کرنی چاہئے۔ تقریر کے بعد جب سوال جواب کا سیشن شروع ہوا تو وہ اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ میں نے انہیں ہٹلر کا بھائی قرار دیا۔ بعد ازاں ہمارا مختلف ٹی وی چینلوں پر کئی مرتبہ آمنا سامنا ہوا۔ آخری بار ایسے ہی ایک ٹاک شو میں جب 2014ء میں ہمارا سامنا ہوا تو چند گھنٹے قبل ہی دو خوفناک خود کش حملے ہوئے تھے۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ خود کش حملہ آور غیر ملکی تھے اور ثبوت یہ تھا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔ جب ثبوت مانگا گیا تو وہ غصے میں آ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ 2008ء میں سوات پر مولوی فضل اللہ کے قبضے کے بعد ہی سچ کسی حد تک سامنے آنے لگا تھا۔ اس وقت بر سر اقتدار قوتیں مولوی فضل اللہ (اور خطرناک دہشت گرد منگل باغ) کی طرف پیٹھ کئے کھڑی رہیں۔ اس حکمت عملی میں تبدیلی تب آئی جب 2014ء میں آرمی پبلک سکو ل پشاور پر حملہ ہوا جس میں 149 طلبہ اور اساتذہ ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد خود تردیدی کا سلسلہ ختم ہوا۔ پھر فوج نے آپریشن ردالفساد شروع کیا۔ ’فساد‘ کا مطلب ہے اندرون خانہ گڑ بڑ۔ اس سے مراد بیرونی دشمن کے خلاف لڑائی نہیں ہے۔
اچانک پاکستانی اپنے ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر وہ پراپیگنڈہ ویڈیو دیکھنے لگے جس میں پاکستان فضائیہ کے جنگی طیارے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر نشانے داغ رہے تھے، توپیں پہاڑوں پر گولے برسا رہی تھیں یا اس آپریشن کے قصیدے بیان کئے جا رہے تھے۔ انسان حیرت سے آنکھیں مل رہا تھا کہ طالبان جو پاکستان میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، ان پر بمباری؟ ان کو غیر مسلم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہ بات تسلیم کرنے میں کافی وقت لگا کہ مولوی فضل اللہ کی ٹی ٹی پی والے مسلمان ہی ہیں۔ کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد اب افغانستان میں انہوں نے ٹی ٹی پی کو پناہ دے رکھی ہے اور وہ جھوٹ آشکار ہو چکا ہے جو جنرل حمید گل نے پھیلایا تھا۔ مگر کیا واقعی ایسا ہو گیا ہے؟ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ایک دن ٹی ٹی پی بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں انڈیا فنڈ کر رہا ہے۔ اگلے ہی روز انہیں بھائی قرار دے کر گلے لگا لیا جاتا ہے۔ تذبذب ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
طالبان کا ذکر فی الحال بند کرتے ہوئے بلوچستان کی بات کرتے ہیں۔ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ سچ کیا ہے؟ انڈیا کس حد تک ملوث ہے؟
بلاشبہ انڈیا بلوچستان میں پاکستانی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے۔ عام سا اصول یہ ہے کہ جب کسی ملک کی آبادی کا کوئی حصہ ناراض ہو تو بیرونی دشمن کو ناراض لوگوں کو حلیف بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ انڈیا کو یقین ہے کہ پاکستان نے وادی کشمیر سے جہادی تیار کر کے انہیں بھارت میں بھارتی افواج کے خلاف استعمال کیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر انڈیا نے پاکستان کو سبق سکھایا۔ آج جو صورت حال بلوچستان میں ہے اس کے بارے میں بہت سے ہندوستانیوں کا خیال ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وکرم سود اور ادت ڈوول جیسے سپائی ماسٹر یا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کئی بار پاکستان کو کشمیر میں مداخلت کا بھر پور جواب دینے کی بات کر چکے ہیں۔ پرمیت پال چوہدری جیسے دفاعی ماہرین تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کوہوا دے کرحساب برابر کیا جا سکتا ہے۔ پرمیت چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج جس طرح بلوچستان میں شدید ردعمل دکھاتی ہے اس کے نتیجے میں بلوچستان میں آگ بھڑکتی رہے گی۔ حفیظ بلوچ اور لاپتہ ہونے والے دیگر بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے والے دراصل پرمیت چوہدری کے پھیلائے اس جال میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ بلوچ کے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی سے فیڈریشن اور قومی جذبہ کمزور ہو رہے ہیں۔
اس سے پہلے کے ہماری قومی سلامتی کے ٹھیکیدار اس ملک کو اپنے کرتوتوں سے مزید نقصان پہنچائیں، ان کا حساب کتاب ہونا چاہئے۔
یہ کالم روزنامہ جدوجہد کے اس لِنک سے لیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...