کیااعظم خان جیسے جنرل کا مارشل لا ہماری ضرورت نہیں ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ میری گزشتہ پوسٹ کا تسلسل ہے
1۔۔نظریاتی اورتصوراتی قسم کی مثالی جمہوریت کا متبادل بلا شبہہ کویؑ دوسرا نظام نہیں ہو سکتا۔۔لیکن کیا آپ دل سے سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر ماشل لا کے بعد رایؑج کی جانے والی ہر جمہوریت ایسی ہی تھی۔۔مثلا" ایوب خان کی بنیادی جمہوریت۔۔جنرل ضیاع کی مجلس شوریٰ والی جمہوریت یا اس کی موجودہ مسخ شدہ عملی صورت؟آپ کس جمہوریت کے گن گارہے ہیں؟ وہ جو کتابی ہے۔۔ایک اییؑڈ یل ہے۔۔مگر حقیقت میں یہاں صرف ایک سیاسی نعرہ ہے۔۔کیا چین روس فرانس ترکی کوریا کی ترقی جمہوریت کی مرہون منت ہے یا انقلاب کی
2۔میں اس ملک کے بارے میں کتنا رجاییؑت پسند ہوں؟ اس کا اندازہ ایک بار پھر میری پوسٹ "بستی بسنا کھیل نہیںہے" دیکھ لیجےؑ۔میں نے اس کو کاک سے اٹھتا دیکھا ہے اور اب پھر خاک ہوتا دیکھ رہا ہوں
3 ۔ ۔ میرے لکھے کی بنیاد صرف ایک نکتے پر ہے۔۔اب لا قانونیت اور نا انصافی کے سیلاب کو جس میں آج ہم سب بہہ چکےہیں ۔۔۔ صرف سخت ترین سزاوں سے اور ظاقت سے روکا جاسکتا ہے۔۔یہ طاقت پولیس کے پاس ہے؟۔اگر اپ اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ قانون کی عملداری لا سکتی ہے تو معاف کیجےؑ گا آپ کو پاگل خانے میں ہونا چاہےؑ؟
4۔ کیا ہر جنرل ویسا ہی ہوتا ہے جیسا آپ نے دیکھا۔۔یا سنا؟ جنرل تو امریکی صدر آیؑزن آور بھی تھا۔۔جنرل تو فرانس کا صدر ڈیگال بھی تھا مگر ان کو جا نے دیں۔میں آپ کو ایک پاکستنی جرل سے متعارف کراتا ہوں ۔۔وہ تھا اعظم خان
ہمارے ملک کے اکلوتے فیلڈ ماشل عیوب خان کے تین دست راست تھے جنہوں نے پہلے مارشل لا کے نفاز میں اس کی مدد کی۔۔دوسرا جنرل شیخ اور تیسرا برکی۔۔ لیکن اعظم خان ایک چھوٹے مارشل لا کا تجربہ رکھتا تھا جو 1953 میں لاہور تک محدود رہا۔۔ یہ ایک مزہبی شورش کو دبانے کیلےؑ تھا جو لوٹ مار آتشزنی اور خون خرابہ بن گیؑ تھی۔۔ جن کو دبایا گیا ان کا اعظم خان کی جان کا دشمن ہونا فطری بات تھی
5 سال بعد جب ملک میں مارشل لا نافذ ہوا تو جنرل شیخ وزیر داخہ۔۔جنرل برکی وزیر صحت اور جنرل اعظم وزیر بحالیات بنے۔ اکثریت نے کبھی ایسی وزارت کا نام نہیں سنا ہوگا۔۔ در اصل 1947 میں ہندو سکھ یہاں جایدؑدادیں چھوڑ کے فرار ھوےؑ۔ دوسری طرف سے مسلمان بھاگے تو طے کیا گیا کہ کافروں کا مال غنیمت مہاجرین میں تقسیم کرکے کچھے کچھ تلافی کی جاےؑ
یوں پاکستان میں کرپشن کی پہلی اینٹ رکھی گیؑ
کچھ کے نقصانات کے دعوے سچ تھے تو جھوٹےدعویدار بن کر آگےؑ۔۔ایک لظیفہ مشہور ہوا کہ "ہمارا تو تین میل لمبا باغ تھا۔۔پودینے کا" اور آہستہ سے اضافہ کرتے تھے کہ "چھ انچ چوڑا"۔۔پھر دلال میدان میں اترے اور وہ پیچھے رہ جانے والی جایؑداد کے "مصدقہ" کاغزات بنا کے دینے لگے۔۔ایک ایسی ہی مافیا انڈیا میں بنی ان ان کے درمیان مفاد باہمی کا سمجھوتا ہوگیا۔۔محکمہؑ بحالیات کے افسران نے اس بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا۔منظور یا نا منطور کرنے والے تو وہی تھے یہ دھندا 10 سال چلا 1۔اعظم خان نے چارج لینے کے بعد کہا" واٹ ازآل دس؟ دس سال میں کلیم سیٹل نہیں ہوےؑ۔۔۔بس ایک سال دیتا ہوں میں ۔۔پھر محکمہ بند" ۔۔میں تفصیل میں نہیں جاتا کہ اس نے کتنے چھاپے اورکتنوں کو ڈنڈے مارے۔۔ایک واقعہ چشم دید گواہی کے ساتھ ۔۔پنڈی میں بحالیات کا دفتر پلازا سینیما کے ساتھ تھا۔۔ نوتس آیا کہ فلاں تاریخ کو وزیر صاحب دورہ کریں گے ۔ وزیر صاحب دو دن پہلے سایل بن کے صبح ٹھیک وقت پر ٹپک پڑے۔ پہچانتا کویؑ نہیں تھا۔ میرا گواہ دوست کینٹین سے منگوا کے ناشتا کر رہا تھا ا۔ نظراٹھا کے دیکھے بغیر اس نے کہا" چاچا تھوڑی دیر بعد آنا"۔وہ آگے بڑھ گیا لیکن صاحب سمیت بیشترعملہ ابھی پہنچا ہی نہیں تھا وہ واپس چلا گیا اور جب مقررہ تاریخ پردوبارہ وزیر کی شان سے نمودار ہوا تو سارے حاضر اور مستعد۔۔پہچان جانے والوں کی پتلونیں گیلی/ ڈھیلی۔۔مگر اس نے کہا کہ میں ایک بار ضرور معاف کرتا ہون۔۔۔ دوسری بار نشان عبرت بنا دیتا ہوں۔۔۔ ۔۔ یوں ایک سال میں کام ختم محکمہ ختم
2 پھر اس چراغ الہ دین کے جن سے کہا گیا" 6 ماہ میں کورنگی کراچی کے 20 ہزار کورٹر بناو۔ سڑکیں بجلی پانی سب ہنا چاہےؑ" اور اس نے کہا "جو حکم میرے آقا"۔۔اور 6 ماہ میں بستی آباد ہوگیؑ،، گواہ شاید ہوں جنہوں نے جنرل صاحب کو حسب عادت وقت بے قوت چھاپے مارتا دیکھا۔۔ ایک خاکی نیکر اور سولا ہیٹ میں اپنی جیپ ڈراییؑو کرتا دیکھا
3۔پھر اس نے ایک سال میں لاہور کا "قومی ہارس اینڈ کیؒٹل شو" شروع کیا جو مارچ میں تین دن چلتا تھا لیکن اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملٹری اورعوام یکساں جوش و خروش سے شریک ہوتے تھے ۔ دیہی عوام اپنے مویشی لاتے تھے فوجی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے اور شہری داد دیتے تھے۔۔ ایسی قربت جو مثالی تھی۔۔ تیسرے دن اس کا اختتام ملٹری کی شاندار پرفارمنس سے ہوتا تھا۔۔ایک موٹر ساییکل پر کتنے سوار ہیں۔۔لوگ گنتے تھے۔۔12۔۔وہ16 نکلتے تھے۔۔ 16 گنتے تو ۔۔18۔۔ملٹری کے درجن بھر بینڈ کمال کی پرفارمنس دیتے تھے۔۔ پیرا شوٹ کی مدد سے جہاز سے جمپ لگانے والے اسٹیڈیم کے وسط میں اترتے تھے رات کو مکمل اندھیرے میں " ٹے ٹو" مشعل برداروں کا شو عجیب جادویؑ لگتا تھا۔
4۔ بالاخر جنرل اعظم کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کے بھیجا گیا۔۔اب دیکھا تو میں نے نہیں بس پڑھا۔۔لیکن یہاں بنگالی بھت تھے جو ہم سے نفرت اور تعصب بہت رکھتے تھے،،میں نے ان سے تصدیق کی کہ کیا واقعی جنرل اعظم نے بنگالیوں کے دل جیت لےؑ ہیں تو انہوں نے مانا کہ ایسا ہی ہے۔۔بہت زیادہ تفصیل تو نہیں معلوم۔۔لیکن جب سیلاب آےؑ تو ڈھاکا شہر میں پینے کو پانی نہ رہا۔۔جنرل اعظم نے سب واٹر ٹینکر ضبط کےؑ اور پانی کی سپلایؑ کی خود نگرانی کی۔۔لوگوں نے اسے خاکی نیکر پہنےسولا ہیٹ لگاےؑ گھٹنے گھٹنے پانی میں دن رات ہر جگہ کھڑا دیکھا۔۔ایک بات یہ بھی سنی کہ اس نے کسی آرمی فارمیشن میں دو واٹر ٹینکر کھڑے دیکھے تو اند جا کے معلوم کرنا چاہا۔۔سنتری نے اسے روک دیا اور اس پر بالکل یقین نہیں کیا کہ میں گورنر ہوں جنرل اعظم۔۔ اس نے کہا کہ "اچھا اپنے کمانڈنگ افسر کو بلاو"۔۔سنتری نے گیٹ پر ڈیوٹی چھوڑ کے جانت سے انکار کردیا۔۔جنرل اعظم نے انتظار کیا۔۔پھر ایک جیپ اندر جانے لگی تو اعظم نے اسے روکا۔اس میں کویؑ افسر تھا۔۔وہ اعظم کو سی او تک لے گیا۔۔لیکن اعظم نے سنتری کو سزا نہیں شاباش دی اور اس کی پروموشن کردی
اب عیوب خان کو جنرل اعظم کہ یہ مقبولیت اپنے لےؑ خطرہ نظر آنے لگی۔۔ جنرل اعظم کو معطل کر کے واپس بلا لیا گیا۔ وہ نہ جانے کہاں تھا۔۔ڈھاکا آنے کیلےؑ ٹرین میں بیٹھا تو بنگالی ریلوے لایؑن پر لیٹ گےؑ اور "آجم کھان امارا جان" کے نعرے لگاتے رہے۔۔بڑے مظاہرے ہوےؑ۔۔واللہ اعلم۔۔کویؑ ویسٹ پاکستانی دل جیت لے بنگالیوں کے ۔۔ ناممکن سی بات تھی لیکن بنگالی دوستوں نے پھر تصدیق کی
جب میں نے اسے دیکھا تو وہ لاہور کی مال پر عین فورٹریس اسٹیڈیم کے سامنے پیچھے والی سڑک پر اپنے عام سےگھر کے باغ میں بنیان اور نیکر پہنے پایؑپ سے پانی دیتا نظر آتا تھا۔۔ جنرل کے ردوازے پر کویؑ گارڈ نہیں تھئ۔میں ساییکل پر اپنے آفس جاتےہوےؑ اسے روز سلام کرتا تھا اور وہ ہاتھ اٹھا کے جواب دیتا تھا ۔۔ذرا آگے موڑ پر ہایؑ کورٹ کے جج انوار ا لحق کی کوٹھی "الرحمت" تھی۔۔پھر کینٹ اسٹئشن کے مقابل میرا افس۔ اس دور میں بھی وہ ہارس اینڈ کیٹل شو میں آیا تو اسٹیڈیم میں بھرے لوگوں نے کھڑے ہوکر اور تالیاں بجا کے استقبال کیا یہ بھی۔سناتھا کہ وہ بلا اجازت کہیں آ جا نہیں سکتا ۔۔ اللہ جانے۔۔لیکن ایک جنرل کیلےؑ عوام کی محبت میں نے دیکھی ہے
ایسا نہیں ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں ہمیشہ دست و گریباں رہے ۔۔بہت پرانےوقتوں کی بات میں نہیں کرتا جب دوسری جنگ عظیم میں اپنے کرنل فیض احمد فیض ہی کیا بیشتر نامور ادیب ترقی پسند شاعر فوج کے محکمہؑ تعلقات عامہ میں تھے۔۔ پنڈی میں 1960 کے بعد بھی ظہیر بابر تو تھے۔ان کی بیگم تھیں خدیجہ مستور ۔ پھر کراچی میں کرنل (بعد میں بریگیڈیر) صولت رضا جو ہیڈ کورٹر 5 کور میں بیٹھتے تھے کیا دوستدار تھے۔نہ پاس نہ کہیں اندراج۔۔ دن رات آفس میں اور باہر ۔ادیبون اخباری نمایندوں اور صحافی دوستوں میں گھرے گپ شپ کرتے نظر اتے تھے۔میرا ایک کرایہ دار کپتان کرایہ نہیں دے رہا تھا۔میں نے ذکر کیا تو انہوں نے 24 گھنٹے میں مکان خالی کرادیا ۔پھرغالبا:کرنل اشفاق حسین آےؑ تو مزاح نگار۔۔لیکن اسی زمانے میں ایؑ ایس پی آر کے ایک نےؑ ڈایؑریکٹر جنرل ۔بریگیڈیر ریاض اللہ کراچی آےؑ۔(یہ بھی بعد میں میجر جنرل ہوےؑ)۔۔ انہوں نے کراچی کے کچھ ادیبوں صحافیوں کو نیول آفیسرز میس میں لنچ پر بلایا۔ ان میں میرے علاوہ زاہدہ حنا اور ظہور احمد تھے۔۔وہ چاہتے تھے کہ مستقبل میں فوج اور عوام کو قریب لایا جاےؑ،انہوں نے گلہ کیا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم پر کتنے افسانے ناول لکھے گےؑ کتنی فلمیں بنایؑ گیؑں لیکن بھارت سے دو جنگوں کے بعد بھی ادیبوں نے اسے موضوع نہیں بنایا۔۔ان کی خواہش تھی کہ ہم کھل کے بات کریں
سب سے پہلے تو زاہدہ حنا نے کہا کہ ترانے گا کے سرحدی جھڑپ کو جنگ عظیم نہیں بنایا جاسکتا۔۔پھر میں نے کہا کہ ہم خاک لکھیں ۔۔اس کیلےؑ مشاہدہ چاہےؑ ۔ہم تو آرمی انسٹالیشن میں داخل نہیں ہو سکتے۔۔کسی اور نے کہا کہ میں نے آبدوز کی شکل نہیں دیکھی اور نہ دیکھ سکتا ہوں کہ وہ کام کیسے کرتی ہے اور اندر سے کیسی ہوتی ہے۔۔ کویؑ اور بولا کہ میں نیوی کے ڈیسٹرایؑر پر قدم نہیں رکھ سکتا جیسے دشمن ہون
بہترین سفاری سوٹ میں ملبوس خوش مزاج ریاض اللہ نے سبمسکراتے ہوےؑ سنا اور ان کے حوصلہ افزا رویے کی وجہ سے بحث میں وہ بھی کہا گیا جو آج ناقابل برداشت ہو اور بولنے والے کا پتا نہ چلے کہ اسے جن بھوت لے گےؑ یا چور ڈاکو۔بعض سوالات کے جواب انہوں نے لنچ کے بعد آف دی ریکارڈ بھی دےؑ۔۔قصہ مختصر۔۔انہوں نے وعدہ کیا کہ ادیبوں کو اسپیشل پاس جاری ہوں گے جس سے وہ ہر ملٹری یونٹ جہاز، بحری جہاز پر کسی بھی وقت بلا روک ٹوک آ جا سکیں گے۔ انہوں نے ہماری یہ تجویز بھی مان لی کہ ہر کینٹ ایریا میؐں کلچرل اور ڈراما ٹروپ شو کریں آرمی ایسے میلے کرے جس میں سویلین بھی شریک ہوں۔ان کے درمیان مقابلے ہوں۔۔اور بھی بہت کچھ تھا جس سے امید پیدا ہو چلی تھی کہا اب سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی نہیں رہے گی۔۔بد قسمتی سے بریگیڈیر ریاض اللہ بہت کم عرصہ زندہ رہے ۔۔میجر جنرل بننےکے بعد کینسر کےموذی مرض میں ان کی وفات ہو گیؑ ۔اگر وہ زندہ رہتے تو امید کی جاسکتی تھی کہ اس ملک کے عوام اور فوج پہلے کی طرح مل جاییؑ گے۔میں ایک خبر بھی دوں کہ بھارت نے چھاونیاں کتم کرنے کا اایک پروگران بنایا ہے۔۔فوجی اور شہری کیوں ساتھ نہیں رہ سکتے؟ رہ سکتے ہیں۔۔دونو ایک ہی ملک کے باسی ہیں ایک دوسرے کی طاقت ہیں
لیکن آج صورتحال کیا ہے۔۔ایک سویلین کتنا بھی معزز کیوں نہ ہو شناختی کارڈ ۔۔ ڈراییؑونگ لایسنس اور گاڑی کے کاغزات گیٹ پر جمع کراےؑ بغیراندر داخل نہیں ہو سکتا خواہ وہ ثابت کردے کی میں یونیورسٹی کا وایؑس چانسلر ہوں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہؑ صحافت کے سربراہ کو ملیر کینٹ میں نہیں جانے دیا گیا جس پر اخبارات نے احتجاج بھی کیا۔پہلے میں اپنے بچپن کے دوست سے ملنے آفیسرز کالونی واہ کینٹ چلا جاتا تھا۔ پھر ایک بار مجھے کہا گیا کہ حسن ابدال والے گیٹ سے جاو۔۔ اس کے بعد تو حد ہوگیؑ۔۔مجھ سے کہا گیا کہ اپنے دوست کو باہر بلا کے مل لو۔آخر کیا حاصل سیکیورٹی کے نام پرعوام کی اس تذلیل سے۔ پہلے بھی تو یہی عوام تھے۔میرے بچے 14 اگست کو ٹینکوں پر اور7 ستمبر کو ماری پور میں جہازون پر کھیلتے رہے۔70 سال پہلے پاکستان انے کے بعد میرے خاندان کا ایک فرد ایک بار بھارت نہیں گیا اورمیں اتنا ہی پاکستانی ہوں جتنا آرمی چیف
مجھے جمہوریت دشمن قرار دے کر مجھ پر آرٹیکل 6 لگانے کے شایق دیکھ لیں کہ میں نے آرمی کی اچھایؑ کا حوالہ دیا ہے تو اس امید میں کہ ارمی میں کتنی اچھایؑ بھی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نیں کہ سب اچھا ہے جو ہورہا ہے
ہ گےؑ انے والی جمہوریت سے توقعات کی بات۔۔تو میں بھی یہیں اور آپ بھی۔۔25 جولایؑ 1919 کی تاریخ انے دیں۔۔پھر میں پوچھوں گا ہم کہاں کھڑے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔