کئی سال پہلے میرا ایک انٹرویو چھپا تھا، جسے دہلی میں مقیم تصنیف حیدر نے کیا تھا۔ انھوں نے نہ جانے کس وجہ سے مجھ سے ایک سوال کیا کہ اردو کے دو ایسے نام بتائیے جن کا تخلیق کردہ ادب آپ کو پسند نہیں ہے۔ اِس سوال کے جواب میں مَیں نے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو اپنا ناپسندیدہ ترین ادیب کہا؛ اِن کے ساتھ ساتھ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بابا یحیٰ وغیرہ کو بھی اِسی صف میں رکھا۔ بعد میں اِسی سوال کو بنیاد بنا کر ریختہ کی طرف سے زمرد مغل نے ایک ویڈیو انٹرویو کیا جہاں ، مَیں نے مزید وضاحت سے درج بالا مصنفین کے ساتھ صوفی ازم پر بھی سوال اُٹھایااور اُسے انسانوں کے لئے ایک افیون قرار دیا۔ اس کے ردِ عمل میں جن لوگوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اُن میں زیادہ تر خواتین تھیں، جو انتہائی
نازیبا زبان کے ساتھ اپنا اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔ یہ نازیبا زبان ابھی تک انٹیویو کے کلپ کے کساتھ پاک ٹی ہاوس کے پیج پر موجود ہے
مجھے اِس بات کی توقع تھی کہ عوام کی طرف سے بہت مخالفت کا سامنا ہو گا لیکن خواتین کی طرف سے اِس قدر زیادہ اور سخت مخالفت ہو گی ، اِس کی توقع نہیں تھی ۔ مگرمیری حیرانی اُس وقت ختم ہو گئی جب غور کرنے پر اور معاشرے کے خد و خال پر نظر کی تو پتا چلا تصوف در اصل خواتین ہی کی سب سے بڑی غذا ہے ۔ اب سنیے ، ہندوستان اور پاکستان کا یہ معاشرہ، جہاں جہالت، احساسِ کمتری، غربت ، افلاس، جنسی ناآسودگی اور مذہبی اجارہ داری تمام انسانوں کے مقدر کا لکھا بن چکی ہے۔ وہاں عورت کے لئے یہ مسائل مرد سے زیادہ بھیانک ثابت ہوتے ہیں اور اِن سے بچاؤ کا عملی طور پر کوئی طریقہ نہیں۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ معاشرہ بہت سے معاشی ، سماجی اور مذہبی طبقات میں تقسیم ہے اور ایک طبقے کا دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مردوں کی نسبت عورتوں نے بے عملی پر ابھارنے والے تصوف کا استعمال زیادہ کر کے اُسے اپنی تسکین کا وسیلہ بنانے کی کوشش زیادہ کی ہے۔ آپ ایسے تصوف کی تاریخ پڑھ جایئے، اِس نابکار پیشے پر جو کچھ عورت کا خرچ ہوا ہے، مردوں کا اُس کے شمہ برابر بھی نہیں لگا۔ جادو، ٹونے سے لے کر تعویذ گنڈے اور وہاں سے پیروں فقیروں کے مقبروں مزاروں کی حاضری اور چڑھاوے عورت ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ یہ عورت چاہے دیہاتی ہو یا شہری، سستے طریقے سے اپنے مقصد کے حصول تک پہنچنا اِس کا مطمع نظر رہا ہے۔ اور اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اِسی کے پردے میں یہ مزید استحصال کا شکار ہوئی ہے۔ مگر یہ بات وہ ماننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ معاشرے اور کائنات کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنا ہی نہیں چاہتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ میرے بیان کردہ نظریے کا تعلق دیہاتی عورت سے ہے، شہری عورت پڑھی لکھی اور باشعور ہے، تو مَیں یہ بات اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں ہو ں کہ اس بے عمل تصوف کی موجودہ دور میں زیادہ راہ دکھائی ہی ہماری پڑھی لکھی خواتین نے ہے۔ اور وہ بھی بڑی ناول نگار خواتین نے! اِن میں سب سے بڑی اس وقت بانو قدسیہ تھی اور اُس کے بعد نمرہ اورعمیرہ احمد ہیں۔ اِن خواتین نے اصل میں معاشرے کا وہ حال کیا ہے جو کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حتیٰ کہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مغربی این جی اوز میں بھی اِن کا اثر رسوخ ڈھکا چھپا نہیں۔
یہ تصوف، جس میں سارا زور صبر اور قناعت پر دیا جاتا ہے اور اُس کے نتیجے میں کسی لافانی طاقت کو اپنا دوست بنایا جاتا ہے۔ اِن خواتین ناول نگاروں نے اُسے بڑی بے دردی سے استعمال کر کے عورت کو مزید کنویں میں پھینکنے کی کوشش کی ہے۔ این جی اوز سمجھتی ہیں کہ وہ عورت کے حقوق کی بات کر رہی ہیں حالانکہ وہ ایسا کچھ نہیں کر رہیں ہوتیں ماسوائے اپنی ذاتی تسکین کے۔
ہمارے معاشرے کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی شخص بندھے ٹکے اصولوں پر ضرب لگاتا ہے تو تمام طبقات کے لوگ اُس کے پیچھے لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن آپ دیکھیں گے، ہمارا سوشل میڈیا ، ٹیلی وژن ، اخبار، ڈرامے ایسی ہی خواتین کے کام سے اور تحریروں سے بھرے پڑے ہیں، جو عورت کے حقوق کے نام پر اُلٹا عورت کی جڑیں کھودنے کا کام کر رہے ہیں۔ عورت مارچ کرنے والی کسی بھی خاتون سے آپ اپنی پسندیدہ ناولسٹ یا ڈرامہ نگار کا نام پوچھ لیں وہ یہی نام لیں گی ۔ کھانے وانے گرم کرنے اور نہ کرنے کے لا یعنی نعروں نے اصل میں عورت کے اصل مسائل کو پسِ پشت ڈال کراُنھیں متنازعہ کر دیا ہے۔ اصل مسائل عورت کی زبردستی شادی ، وراثت میں حصہ نہ ملنا ، کم سنی کی شادی ، اولاد حاصل کرنے اور خاوند کو راضی کرنے کے لیے پیرو فقیروں سے استحصال، ٹوپی نما برقعے اور قبائلی عورت کو جانوروں کی زندگی سے نکال کر انسانی زندگی میں داخل کرنا ہے ۔ یہ مسائل نعروں اور مارچوں سے نہیں ، زبردست سیاسی ، تعلیمی اور قانونی انقلاب اور اصلاحات سے حل ہو ں گے دوسری طرف جن خواتین کو ٹی وی پر یا مارچ پر سامنے لایا جاتا ہے اُن کا اصل مسائل سے دور دور کا واسطہ نہیں وہ عجیب سی انگریزی میں بیہودہ سے کٹے پھٹے جملے اور کارٹون بنا کر لے آتی ہیں جو ایک نئی بحث کا آغاز کر دیتے ہیں اور عورت بچاری وہیں کھڑی دیکھتی رہ جاتی ہے ۔ اُن کے ہاں کبھی وراثت کی تقسیم کا نعرہ نظر نہیں آئے گا نہ کبھی دیہاتی عورت کی آواز کا نعرہ دکھے گا ۔
دوسری بات ہمارے معاشرے کی یہ ہے کہ اُس نے عربی زبان میں تمام لکھنے والوں کو پاکیزہ و متبرک ہستیاں، پنجابی اور فارسی میں لکھنے والوں کو صوفی، انگریزی میں لکھنے اور بولنے والوں کو دانشور، اور روسی زبان میں لکھنے والوں کو ملحد سمجھ لیا ہے۔ میرے خیال میں پنجابی زبان کے شاعر محض شاعر تھے، وہ صوفی ہوں گے تو بعد میں ہوں گے۔ وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ فرید، شاہ حسین کی پہلی پہچان شاعری ہے، صوفی ہونا نہیں۔ اور اِن شاعروں کے ہاں فقط عورت کا مسئلہ ہی شاعری بنا ہے
آپ مانیں یا انکار کریں، ہماری خواتین آج بھی بدھا کے دور کی راہبانہ زندگی کو ترجیح دینے کو تیار ہیں اور یہ فقط اس لئے ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور این جی اوز اُسے یہی کچھ رکھنا بھی چاہتی ہیں تاکہ آئندہ کی نسلیں بھی ایسی ہی فکری اور عملی طور پر بانجھ پیدا ہوں۔
بلاشبہ عورت جبر اور ظلم کا شکار ہے مگر یہ جبر اور ظلم اِس لیے ہے کہ قانون بے اثر ہے۔ حقوق موجود ہیں مگر اُن کو بازیاب کرانے میں قانون کی گرفت موجود نہیں ہے ۔
اگر وقت کا چلن ایسے ہی رہا جیسا کہ آج کل ہے تو پھر مزید آنکھیں بند رکھئے؛ آنے والے دور میں مزید عمیرہ احمد جیسی لکھاری پیدا ہوں گی، خلیل قمر جیسے ڈرامہ نگار آئیں گے اور ماروی سرمد جیسی ہی این جی اوز فنڈگ یافتہ حقوق کی بازیابی کرائیں گی اور اُن کو پروموٹ کرنے والا میڈیا ایسا ہی کرتا رہے گا؛ ۔ میرا خیال ہے کہیں نہ کہیں ، بانو قدسیہ ،عمیرہ احمد ،ماروی سرمد اورخلیل قمر ایک ہی مشن پر ہیں