کیا ایٹمی ذرات کو دیکھا جا سکتا ہے؟
اگرچہ یہ درست ہے کہ ایٹم کی شبیہہ بنائی جا چکی ہے لیکن یہ سوچنا درست نہیں ہو گا کہ ہم ایٹم کو دیکھ سکتے ہیں – بنیادی طور پر ایٹم ایک پیچیدہ ذرہ ہے اور وہ کیسا 'نظر آتا ہے' کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اس کی شبیہہ بنانے کے لیے کیا ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں
ایٹم کی شبیہہ عام روشنی سے نہیں بنائی جا سکتی – نظر آنے والی روشنی کی کم سے کم طول موج یعنی ویوو لینگتھ بنفشی شعاعوں کی ہوتی ہے اور ان شعاعوں کی موجوں کی لمبائی بڑے سے بڑے ایٹم کی جسامت سے بھی ہزاروں گنا زیادہ ہے – فرض کیجیے آپ کے پاس ایک دعوتی کارڈ آیا ہے جس میں دعوت نامہ ابھرے ہوئے حروف میں لکھا ہے لیکن اندھیرے کی وجہ سے آپ اسے پڑھ نہیں سکتے – اگر آپ اس پر باسکٹ بال اچھالیں اور بال کے اچھلنے کے زاویے سے کارڈ پر چھپے حروف کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں تو کیا آپ ایک بھی حرف کا درست اندازہ لگا سکیں گے؟ یقیناً نہیں – یہی صورت روشنی کے ساتھ بھی ہے – روشنی کا طول موج اتنا زیادہ ہے کہ یہ ایٹم سے ٹکرائے گی ہی نہیں اور نہ ہی منعکس ہو گی جو کہ شبیہہ بنانے کے لیے ضروری ہے
ہمیں ایٹم کی شبیہہ بنانے کے لیے کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے جو ایٹم سے بھی چھوٹی ہو – ایسی چیزیں موجود ہیں جو ایٹم سے چھوٹی ہیں – ہم کم ویوو لینگتھ کی روشنی یعنی برقی مقناطیسی لہریں (electromagnetic waves) استعمال کر سکتے ہیں – ایٹم کی جسامت کو دیکھتے ہوئے ہمیں روشنی کی جس طول موج کی ضرورت ہے وہ گیما ریز میں پائی جاتی ہے – لیکن کسی بھی شعاع کا طول موج جتنا کم ہو اس کی فریکونسی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور جتنی زیادہ فریکونسی ہو گی اتنی ہی زیادہ فوٹانز میں توانائی بھی زیادہ ہوگی – چنانچہ گیما ریز کے فوٹانز کی توانائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر ایٹم پر گیما رے فوٹانز کی بوچھاڑ کی جائے تو نہ صرف ایٹم کے تمام الیکٹرانز اپنے شیلز سے خارج ہو جائیں گے بلکہ ایٹم کے مرکزے کے بھی پرخچے اڑ جائیں گے – اس کی مثال ایسے ہی ہوگی کہ جس دعوتی کارڈ کا پہلے ذکر ہوا اسے پڑھنے کے لیے ہم مشین گن کی گولیاں استعمال کریں – یہ گولیاں اگرچہ باسکٹ بال سے چھوٹی ہیں لیکن ان کی توانائی اتنی زیادہ ہے کہ یہ کارڈ کے پرخچے اڑا دیں گی
ہم گیما ریز فوٹانز کی جگہ الیکٹرانز کی بیم (beam) استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بھی یہی ہو گا کہ ایٹم کی ہائی ریزولوشن تصویر بنانے کے لیے بہت زیادہ توانائی کے الیکٹران استعمال کرنا ہوں گے جو ایٹم کے اپنے الیکٹرانز کو اڑا کر لے جائیں گے
چنانچہ ایٹم کو براہِ راست 'دیکھنا' ممکن نہیں ہے البتہ بالواسطہ طور پر ان کی شکل و صورت کے بارے میں معلومات حاصل کر کے ان کی شبیہہ بنائی جا سکتی ہے – ایسے کئی طریقے موجود ہیں جن کے استعمال سے زیادہ توانائی کو استعمال کیے بغیر ایٹم کی صورت کے بارے میں انفارمیشن حاصل کی جا سکتی ہے اگرچہ یہ تمام کے تمام طریقے انتہائی مشکل اور صبر آزما ہیں – ان طریقوں کو استعمال کر کے 2013 میں ہائیڈروجن کے ایٹم کی ایک شبیہہ بنائی گئی تھی جو اس پوسٹ میں دی گئی ہے
آپ جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن کے ایٹم انتہائی سادہ ہیں جبکہ دوسرے عناصر کے ایٹم ان سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں چنانچہ دوسرے عناصر کے ایٹمز کی شکلیں بھی پیچیدہ ہوں گی – زیادہ تر ایٹم بالکل گول نہیں ہوتے اور آپ ان کے بارے میں جتنی زیادہ معلومات حاصل کریں یہ ایٹم اتنے ہی پیچیدہ نظر آنے لگتے ہیں
اب ہائیڈروجن ایٹم کی ہی مثال لے لیجیے – اس کے مرکز میں صرف ایک پروٹان ہے – لیکن ایٹم کی کل جسامت کے مقابلے میں پروٹان صرف ایک نقطہ ہی نظر آتا ہے – فرض کیجیے ہم کسی نہ کسی طرح اس ایٹم کی شبیہہ کی ریزولوشن بڑھاتے چلے جاتے ہیں – ایک مقام ایسا بھی آئے گا جب پروٹان کا اندرونی سٹرکچر بھی نظر آنے لگے گا – جیسے ایٹم پروٹانز، الیکٹرانز اور نیوٹرانز پر مشتمل ہوتے ہیں اسی طرح پروٹانز اور نیوٹرانز قوارکس پر مشتمل ہوتے ہیں – پروٹان کا اندرونی سٹرکچر بھی اس تصویر کی طرح بہت پیچیدہ نظر آئے گا – اس کے اندر مختلف مقامات پر قوارکس کی موجودگی کے امکانات مختلف ہوں گے – دوسرے الفاظ میں ہم پروٹان کے اندر قوارکس کے wave-function کو دیکھ پائیں گے –
ہم اس سفر میں قوارکس سے آگے نہیں جا سکتے کیونکہ قوارکس کو سائنس دان بنیادی ذرہ تصور کرتے ہیں جس کی مزید تقسیم ناممکن ہے – یعنی قوارکس کے اندر کوئی سٹرکچر موجود نہیں ہے – آپ خواہ کتنی ہی زیادہ توانائی کیوں نہ استعمال کر لیں آپ کو قوارکس کے اندر کوئی سٹرکچر نظر نہیں آئے گا – یہ بنیادی ذرات ایک نقطے کی طرح ہیں جس کا کوئی حجم اور کوئی جسامت نہیں ہے
لیکن ان ذرات کے ایک نقطہ ہونے کے باوجود بھی ہمیں ان ذرات کی کوئی واضح شبیہہ نہیں ملتی – ہم بنیادی ذرات کو 'دیکھنے' کا کوئی بھی طریقہ استعمال کریں ایک بنیادی حقیقت ہمیشہ موجود رہتی ہے اور وہ یہ کہ ہم جتنا چھوٹا ذرہ دیکھنا چاہ رہے ہیں اسے دیکھنے کے لیے اتنی ہی زیادہ توانائی درکار ہو گی – چنانچہ ایک حد سے زیادہ توانائی کے استعمال سے یہ بنیادی ذرات بھی نئے ذرات میں تبدیل ہونے لگتے ہیں (یعنی ان کو دیکھنے کی کوشش میں جو توانائی استعمال ہوتی ہے وہ نئے ذرات کے ماس میں تبدیل ہو جاتی ہے) – چنانچہ بہت زیادہ توانائی استعمال کرنے پر ایک واضح شبیہہ نظر آنے کے بجائے ہمیں بہت سے نئے ذرات کے فوارے چھوٹتے نظر آنے لگتے ہیں – یہی وہ بنیادی طریقہ ہے جو پارٹیکل ایکسیلیریٹرز میں استعمال ہوتا ہے – یعنی بنیادی ذرات کو بہت زیادہ رفتار اور توانائی دے کر انہیں آپس میں ٹکرایا جاتا ہے جس سے نئے ذرات کے فوارے چھوٹنے لگتے ہیں جن کے تجزیہ سے ہم عدم دریافت شدہ ذرات دریافت کرتے ہیں
اور اس پہلو سے بھی سوچیے کہ آخر بنیادی ذرہ ہے کیا چیز – اس وقت ہماری فزکس کی بہترین تھیوری کوانٹم فیلڈ تھیوری ہے جس کی رو سے بنیادی ذرات نہ تو کوئی 'چیز' ہیں اور نہ ہی یہ ذرات اس تھیوری کا بنیادی حصہ ہیں – کوانٹم فیلڈ تھیوری کا بنیادی تصور فیلڈز ہیں جس میں ہلچل کا نام ذرات ہے – اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نظریہ اضافت کی رو سے اگر آبزرور خود اسراع میں ہو یا کششِ ثقل کے فیلڈ میں ہو (نظریہ اضافت کی رو سے کششِ ثقل بھی اسراع کے ہی برابر ہے) – تو دو آبزرور ایک ہی ذرے کے مشاہدات سے دو مختلف نتائج اخذ کریں گے – چنانچہ آپ کسی ایسی شے کی شبیہہ کیسے بنا سکتے ہیں جو ایک آبزرور کے مطابق تو وجود رکھتی ہے لیکن دوسرے آبزرور کے مطابق وجود ہی نہیں رکھتی –
اگر یہ جواب آپ کی توقع سے لمبا ہے یا آپ کی اس جواب سے تشفی نہیں ہوئی تو جان لیجیے کہ فطرت ایسی ہی ہے – یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ فطرت کو اس طرح سے سمجھیں جس طرح سے یہ حقیقت میں ہے – فطرت کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ہمارے سامنے اس طرح سے ظہور پذیر ہو کہ ہمیں سمجھنے میں آسانی ہے – اور جیسا کہ اس بحث سے صاف ظاہر ہے، فطرت اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی
آرٹیکل کا لنک
https://www.quora.com/Atoms-have-been-vis…/…/Viktor-T-Toth-1
اردو زبان میں سائنس کے ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کیجیے
https://www.youtube.com/sciencekidunya
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔