٥ ستمبر، یوم اساتذہ!
پیشہ تدریس سے وابستہ تمام اساتذہ کے لیے خصوصی تکریم کا دن۔ یہ دن آپ تمام اساتذہ کو مبارک ہو!
اس خصوصی دن میں طلبہ کی جانب سے آپ کی حد درجہ تکریم کی گئی۔ صدر جمہوریہ ہند، ریاستوں کے گورنروں اور اضلاع کے ضلع مجسٹریٹوں نے بھی تدریس کے شعبہ میں آپ کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کیا۔ آپ آج ہی نہیں ہر دن اور ہر لمحہ اپنے طالب علموں کے ذریعہ لائق تکریم ہیں۔ حکومت اور سماج کی نوازشوں کے بجا طور پر حق دار ہیں۔ اللہ کرے کہ آپ پر ایسی نوازشوں کی بارشیں ہمیشہ ہوتی رہیں۔ لیکن ان نوازشوں کو قبول کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا آپ اپنی کار کردگی سے خوش ہیں؟ کیا آپ کو اس بات کا اطمینان ہے کہ آپ اپنا فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دے رہے ہیں؟ آپ کو سادہ لوح طالب علم نے جس تکریم سے نوازا، وہ طالب علم جب اس لائق ہوجائے گا کہ وہ اپنے برے بھلے کو سمجھ سکے اور اپنے پچھلے دنوں کا محاسبہ کرے تو وہ آپ کو اسی عزت سے نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ عزت سے یاد کرے گا اور کہے گا کہ وہ جو کچھ ہے آپ ہی کے احسانات اور محنتوں کا ثمرہ ہے؟ اگر آپ کو اس کا اطمینان ہے اور آپ کے سینے میں زندگی کے ساتھ دھڑکنے والا دل آپ کی کار کردگی پر مطمئن ہے تو آپ کو یہ دن مبارک !صد بار مبارک!!
لیکن اگر آپ خود اپنی کار کردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور اگر ابھی آپ کے سینے میں موجود زندہ دل آپ سے یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے اس گیلی مٹی کو بگاڑ دیا ہے جس میں کچھ بننے کی صلاحیت تھی، اس کے اندر موجود توانائی کو تم ضائع کر رہے ہو اور جو تم ان کے ساتھ کر رہے ہو وہی اگر تمھارے ساتھ ہوتا تو تم اس پر کیا کرتے، تو آپ اپنی کار کردگی میں تبدیلی لے آئیں کیونکہ یہ سادہ لوح آج آپ کی چاہے جتنی نوازش کریں جب یہ با شعور ہوں گے اور ان کا مستقبل تباہ ہوچکا ہوگا تو یہ آپ کو نہیں بخشیں گے۔ یہ آپ کے سامنے سے گزریں گے اور ان کی نظر آپ کے احسان سے جھکے گی نہیں بلکہ ان کا سینہ اکڑا ہوا ہوگا اور یہ نفرت کی نظر سے آپ کی طرف دیکھیں گے۔ سوچیے اس وقت آپ کے دل پر کیا گزرے گی۔ آپ کو یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ چیزوں کو بے کار چھوڑ دینے کا نقصان صرف یہ نہیں ہے کہ وہ چیز کام میں نہیں لائی گئی بلکہ اس کے اندر جو توانائی موجود تھی وہ ضائع ہوگئی اور اس توانائی سے خود اس کے ساتھ مخلوق کو جو فائدہ حاصل ہوتا اور دنیا کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں جو مدد ملتی وہ بھی اکارت چلی گئی۔ جو توانائی ایک بار ضائع ہوجاتی ہے وہ دوبارہ حاصل بھی نہیں ہوپاتی ہے۔
معاف کیجئے گا اگر آپ اس لائق نہیں ہیں کہ گیلی مٹی کو خوب صورت شکل دے سکیں تو آپ اپنے پیشے کو چھوڑ دیں۔ کوئی اور کام ڈھونڈ لیں مگر خدا را دنیا میں بھدی مصنوعات تیار کر کے ملک اور سماج کے ذوق جمال کو تباہ نہ کریں۔
آپ کی حیثیت ایک کمہار کی ہے۔ آپ کے سامنے مٹی ہے۔ آپ کو اس مٹی سے برتن بنانا ہے۔ ان سے خراب برتن تیار ہونے سے بہتر ہے کہ نہ بنے۔ اگر آپ خراب برتن بناکر بازار میں اتاریں گے تو یہ نہ بکیں گے۔ اگر آپ کو بنانا ہی ہے تو خراب بنانے سے بہتر ہے کہ بہتر بنائیں۔ اس سے آپ کے دل کو بھی یک گونہ اطمینان ہوگا۔ آپ اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوں گے اور آپ کا دل آپ کو تشفی دلائے گا۔ لیکن بہتر تب ہوگا جب آپ چاہیں گے اور جب آپ میں بہتر بنانے کا ہنر ہوگا۔ ہنر کوئی ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں آتا ہے۔ وہ سیکھتا ہے اپنی انتھک کوششوں سے۔ آپ کوشش کریں ہنر مند ہوجائیں گے۔ لیکن اگر کوشش نہیں کریں گے تو آپ ہنر مند نہیں ہوسکتے ہیں اور جب ہنر مند نہیں ہوں گے تو آپ بہتر نہیں بناسکتے ہیں۔ مٹی بھی الگ الگ قسم کی ہوتی ہے۔ کون مٹی کتنی گیلی ہوگی اور کتنی گوندھی جائے گی تو برتن اچھے ہوں گے یہ تبھی پتہ چلے گا جب آپ ہنر مند ہوں گے۔ بچے بھی اس کچی مٹی کے مانند ہیں جو کچھ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھیں آپ چاہیں تو سنوار دیں اور چاہیں تو بگاڑ دیں۔ اگر سنوار دیں گے تو آپ کے دل کو اطمینان ہوگا اور آپ اپنے پراڈکشن پر خوش ہوں گے اور اچھے پراڈکشن کے لیے آپ کو صارفین کی جانب سے بھی بہتر قیمت اور بہتر انعام ملے گا۔
طالب علم بھی ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ ہر قسم کے طالب علم کے لیے ہر قسم کی ہنر مندی ضروری ہے۔ آپ کو ان کی خوبیوں اور خامیوں اور ان کی صلاحیتوں کو پہچاننا ہوگا تبھی آپ انھیں ان کی صلاحیت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔
مجھے ایک کہانی یاد آ رہی ہے۔ ایک استاد تھے۔ انتہائی تعلیم یافتہ اور فلسفی۔ وہ اپنے شاگردوں کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے کسی دوست نے کہا کہ بھائی تم بچوں کی اتنی زیادہ عزت کیوں کرتے ہو؟ اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا کہ تم نہیں جانتے کہ میرے سامنے اپنے وقت کے اپنے اپنے موضوعات کے ماہر بیٹھے ہیں۔ ان میں کوئی ماہر سائنس داں ہوگا۔ کوئی بڑا فلسفی ہوگا۔ کوئی ماہر استاد ہوگا اور کوئی بڑا ڈاکٹر اور کوئی بڑا انجینئر ہوگا۔ کوئی کسی چیز کا موجد ہوگا۔ کسی سے ایک خلق فائدہ اٹھائے گی۔ اس وقت شاید میں زندہ نہ رہوں تاکہ ان کی عزت کرسکوں۔ اس لیے میں آج ہی ان کی عزت کرلیتا ہوں۔
اس واقعے میں ایک بہت ہی سامنے کی بات یہ ہے کہ اپنے شاگردوں کی عزت کی جائے تاکہ آپ انھیں دوسروں کی عزت کرنا سکھائیں۔ جب وہ دوسروں کی عزت کریں گے تو آپ کی بھی عزت کریں گے اور وہ اپنی عزت کرنا بھی سیکھ جائیں گے۔ کیونکہ کوئی شخص اپنی عزت کے بغیر سماج میں با عزت نہیں ہوسکتا۔ یہ آپ کے لیے بھی مرتبے کی بات ہوگی کہ آپ کا طالب علم سماج اور ملک کا معزز شہری ہے۔ لیکن اس میں سب سے اہم نکتے کی بات یہ ہے کہ اس استاد کے سامنے ہدف کیا تھا؟ وہ اپنے بچوں کو بنانا کیا چاہتا تھا؟ اور حقیقت میں وہ جو چاہتا تھا اور جس کی وہ کوشش بھی کرتا تھا وہی اپنے بچوں میں قبل از وقت دیکھتا بھی تھا۔ وہ اپنے جس بچے میں جو خوبی دیکھتا تھا اس کو اس کا مرتبہ بھی دیتا تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ وہ اپنی کوششوں سے مطمئن تھا، اس نے اپنی غلطیوں پر قابو پالیا تھا اور مسلسل کوشش سے اپنے کام میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ اب وہ ہر طالب علم کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ کرلیتا تھا اور اسی کے مطابق اس پر اپنی محنت صرف کرتا اور اسے یقین تھا کہ وہ جس کو جو بنانا چاہتا ہے وہ بنے گا ہی۔
آپ جب تک اپنے بچوں کے لیے اعلا نصب العین متعین نہیں کریں گے اس وقت تک بڑے یا اچھے نتیجے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اگر آپ ابھی سے اپنے بچوں سے مایوس ہوں گے تو کیسے امید کرسکتے ہیں کہ آپ کا طالب علم اپنے مضمون کا ماہر ہوگا۔ جب آپ کسی بچے سے مایوس ہوجائیں گے تو اس کی جڑوں کو شاداب رکھنے کے لیے تازہ پانی دینا چھوڑ دیں گے۔ جب جڑ ہی سوکھ جائے گی تو اس کی شاخیں کہاں سے ہری ہوں گی۔ آپ اپنے بچوں سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ آپ مایوس ہوجائیں گے تو اس کا دل شکست خوردہ ہوجائے گا اور پھر وہ کہاں کامیاب ہوپائے گا۔
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کے اندر سے ابلتی ہوئی توانائی اس کی تخلیقیت سے مل کر جب کوئی مثبت رخ نہیں پاتی ہے تو نت نئی شرارتوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ استاد اس سے جھلا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کی ناکامی کا قطعی فیصلہ دے دیتا ہے۔ کبھی آپ نے محسوس کیا کہ اس سے کیا ہوسکتا ہے؟ اس سے طالب علم کے اندر اپنی کمی کے شک کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اس کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے۔ اس میں خود اعتمادی کی کمی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پودا جو گھنا اور مضبوط تناور ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا ابتدا میں ہی مرجھا جاتا ہے۔ آپ انھیں شرارت سے ضرور باز رکھیں لیکن آپ اس کی ایسی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی توانائی اور تخلیقیت کو مثبت استعمال میں لاکر کوئی نیا کام کرے۔ یہ مثبت استعمال اعلا نصب العین کو پانے کے ہدف کے ساتھ سامنے لایا جاسکتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کمہار کی چاک پر بسا اوقات کچھ مٹی بے قابو ہوتی رہتی ہے۔ کمہار انھیں اٹھاکر پھینک نہیں دیتا بلکہ وہ مسلسل اسے قابو میں لا کر اسے مجوزہ شکل دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ مٹی وہ نہیں بن پاتی جو کمہار چاہتا تھا تو بھی کچھ نہ کچھ بن ہی جاتی ہے۔ طالب علم میں بھی آپ کو اس کا تجربہ ہوگا اور کمہار سے زیادہ ہوگا۔ کیونکہ کمہار کے سامنے بے جان اور غیر مختار چیز ہے۔ جب کہ آپ کے سامنے جان دار اور اپنی منفرد خو بو والی ہستی موجود ہے جس کو آپ سے کوئی سیکھ لینے سے زیادہ اپنی آزادی اور خود مختاری عزیز ہے۔ ان سب صورت حال کے باوجود آپ کو انھیں کچھ بنانے کا ہدف رکھنے کی مسلسل کوشش کرتے رہنا ہے۔ تاکہ وہ وہ نہ بن سکیں تو کچھ تو بن ہی جائیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کے لیے اعلا نصب العین متعین کریں۔ نصب العین تب متعین ہوگا جب آپ کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجھے اپنے پیشے سے صرف روٹی نہیں کمانی ہے بلکہ ہمارے ہاتھ میں جو خام مال ہے اس سے کوئی نئی اور انوکھی چیز بنانی ہے جو میرے مرنے کے بعد میری نشانی ہو۔ لیکن یہ تب حاصل ہوگا جب آپ خود کو انھی بچوں میں گم کردیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ ان کا بہتر نتیجہ ہی آپ کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ آپ کو ماہر بننا ہوگا اور ماہر بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی کمیوں کا احساس کریں۔ جب تک آپ اپنی کمیوں کا احساس نہیں کریں گے اس وقت تک آپ اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں اور جب تک غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوسکتی آپ ماہر نہیں ہوسکتے۔
آپ کو اپنی کمیوں کو دور کرنے کے لیے اپنے کام کا احتساب کرنا ہوگا۔ آپ جب ایک درجے سے نکل کر دوسرے درجے میں داخل ہورہے ہوں اس وقت کو ذہنی آسودگی میں گزارنے کے بجائے احتساب کریں کہ آپ نے درجہ میں کہاں چوک کی۔ یا اگر آپ کا حافظہ کمزور نہ ہو تو آپ ایسا بھی کرسکتے ہیں کہ جب اسکول احاطہ سے باہر چلے جائیں یا جب اسکول کے کام سے فرصت مل گئی ہو تو اس وقت آپ پورے دن کے کاموں کا جائزہ لیں۔ آپ کو نظر آئے گا کہ آپ کون سا کام کیسے کرتے تو مزید بہتر نتیجہ سامنے آتا۔ جب آپ احتساب کریں گے تو آپ کو اپنی کمیوں کا احساس ہوگا۔ کمیوں کا احساس خامیوں کو دور کرے گا اور خامیوں کی دوری آپ کو ماہر بنادے گی۔ تو دیر مت کیجئے ماہر بن جائیے۔ اچھا پراڈکشن تیار کیجئے اپنے دل کو مطمئن کیجئے اور جب دنیا سے جائیے تو اس اطمینان کے ساتھ کے آپ کے ذمہ جو کام دیا گیا تھا تو اس کو آپ نے پورا پورا انجام دیا۔
میرے ہم منصب بھائیو! احتساب کے لیے وقت، دن اور تاریخ کوئی معنی نہیں رکھتے جس وقت احساس ہوجائے رخ بدلنے کے لیے وہی وقت مسعود و ممنون ہے۔اس کے باوجود آج جب کہ آپ کی عزت افزائی ہورہی ہے اپنی ذمہ داریوں کے تئیں احتساب کا اچھا موقع ہے۔ اس لیے ہمیں احتساب کرنا چاہیے اور جب ہمیں احساس ہوجائے گا رویہ میں تبدیلی بہت آسان ہوگی تو احتساب کیجئے اور اپنے رویہ میں تبدیلی لے آئیے۔
٭٭٭