شیخ امیر محمد کا خط
محترمی ڈاکٹر خالد سہیل!
میں ’ہم سب‘ پر آپ کے کالم بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں اور بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ مجھے انسانی نفسیات سے گہری دلچسپی ہے۔ اس لیے آپ سے چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں
نروس بریک ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟
اس کی علامات کیا ہیں؟
کیا اس کا علاج ممکن ہے؟
اگر آپ چاہیں تو اپنے جوابات کا ایک کالم بنا لیں تا کہ ’ہم سب‘ کے دیگر قارئین بھی استفادہ کر سکیں۔
مخلص شیخ امیر محمد
پاکستان
۔ ۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب
۔ ۔
مکرمی شیخ امیر محمد صاحب!
یہ میری خوش بختی کہ آپ جیسے سنجیدہ قاری میرے کالم شوق سے پڑھتے ہیں اور انسانی نفسیات کے بارے میں اہم سوال پوچھتے ہیں۔
نروس بریک ڈاؤن کوئی سائنسی یا طبی اصطلاح نہیں ہے۔ جب کوئی انسان شدید نفسیاتی بحران کا شکار ہوتا ہے اور اسے علاج کے لیے نفسیاتی ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے تو دوست رشتہ دار یہ کہنا شروع کرتے ہیں کہ اس انسان کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان نفسیاتی بحران کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اس بات کو سمجھانے کے لیے میں ایک مثال استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ ہر انسان جسمانی طور پر ایک خاص مقدار کا وزن اٹھا سکتا ہے یا دباؤ برداشت کر سکتا ہے۔ اگر وہ شخص پچاس پونڈ اٹھا سکتا ہے اور آپ اسے سو پونڈ اٹھانے کو کہیں تو عین ممکن ہے وہ لڑکھڑا کر گر جائے اور اپنے بازو یا ٹانگیں زخمی کر بیٹھے۔ اسی طرح ہر انسان نفسیاتی طور پر ایک خاص حد تک ذہنی دباؤ یا جذباتی بوجھ برداشت کر سکتا ہے۔ اگر وہ بوجھ بڑھتا جائے تو ایک وقت آتا ہے جب وہ انسان اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے اور اگر یہ دباؤ قائم رہے تو انسان نفسیاتی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔
ماہرین نفسیات کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کوئی انسان کتنا ذہنی دباؤ برداشت کر سکتا ہے۔ میری نگاہ میں ذمہ دار انسانوں کو خود بھی جاننا چاہیے کہ وہ کتنا جسمانی وزن اٹھا سکتے ہیں اور کتنا ذہنی دباؤ برداشت کر سکتے ہیں تا کہ ان کا دباؤ اس حد سے زیادہ نہ ہو۔
ویسے تو ہر انسان کی قوت برداشت مختلف ہے لیکن جن دو ماہرین نفسیات نے اس سلسلے میں اہم تحقیق کی ان کا نام تھامس ہومز اور رچرڈ راہی تھا اس لیے ان کے سکیل اور کسوٹی کو THE HOLMES–RAHE LIFE STRESS INVENTORY کا نام دیا گیا۔
ان دو ماہرین نے 1960 کی دہائی میں ہزاروں ذہنی مریضوں کی تشخیص اور تجزیے کے بعد ایک کسوٹی بنائی کہ لوگ زندگی کے کس مسئلے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے ہر مسئلے کو دس سے سو نمبر دیے۔ جو مسئلہ زیادہ پریشان کن تھا اسے زیادہ نمبر جو کم پریشان کن تھا اسے کم نمبر۔
اگر کسی انسان کی زندگی میں چھ ماہ سے ایک سال میں نفسیاتی مسائل کے ملا کر یہ نمبر تین سو سے بڑھ جائیں تو اس کے نفسیاتی بحران کا شکار ہونے کے امکانات بڑھنے لگتے ہیں۔ یہ فہرست طویل ہے۔ آپ یہ فہرست انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں میں یہاں صرف چند مثالیں پیش کرتا ہوں
مسئلہ۔ ۔ ذہنی دباؤ کے نمبر
شریک حیات کی موت۔ 100
طلاق۔ ۔ 75
شریک حیات سے جدائی۔ 63۔
ملازمت ختم ہونا۔ ۔ 47
شادی۔ ۔ 45
حمل ٹھہرنا۔ ۔ 40۔
بچے کا گھر چھوڑ کر جانا۔ 29
باس سے جھگڑا کرنا۔ 23
چھٹیوں پر جانا۔ ۔ 13
ماہرین نفسیات نے یہ جانا کہ بعض دفعہ خوشی کے مواقع بھی ذہنی دباؤ ڈال سکتے ہیں اور انسان پریشان ہو سکتا ہے۔ اس لیے اچھی یا بری ’مثبت یا منفی دونوں طرح کی جذباتی یا سماجی تبدیلیاں نفسیاتی دباؤ کی وجہ بن سکتی ہیں۔
جب کسی انسان پر ذہنی دباؤ بڑھ جائے تو پہلے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے جس کی علامات اینزائٹی یا ڈپریشن یا غصے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں اور اگر بر وقت علاج نہ ملے تو انسان کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے اور وہ ایک PSYCHOTIC EPISODE کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر کسی انسان کے خاندان میں ذہنی بیماری ہے تو وہ انسان نفسیاتی بحران میں
سکزوفرینیا یا بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہو کر اتنا بیمار ہو سکتا ہے کہ اپنا خیال بھی نہ رکھ سکے اور اسے نفسیاتی ہسپتال میں داخل کروانا پڑے۔
شدید نفسیاتی بحران کے شکار مریض کو غیبی آوازیں آنے لگتی ہیں جو HALLUCINATIONS کہلاتی ہیں۔ توہمات ہونے لگتے ہیں کہ لوگ اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا قتل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے توہمات DELUSIONS کہلاتے ہیں۔ سوچ اور گفتگو غیر منطقی اور بے ترتیب ہو جاتے ہیں جو THOUGHT DISORDERکہلاتے ہیں۔ بعض مریض اتنے دکھی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اقدام خود کشی کر لیتے ہیں۔
نفسیاتی ہسپتال میں ماہرین نفسیات ان مریضوں کا علاج ادویہ سے، تعلیم سے اور تھراپی سے کرتے ہیں۔
اگر علاج بر وقت ہو جائے تو بہت سے نفسیاتی بحران کا شکار مریض صحت مند ہو کر واپس گھروں کو جا سکتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی زندگی دوبارہ شروع کر سکتے ہیں لیکن اگر بر وقت علاج نہ ہو تو وہ بحران وقت کے ساتھ شدید سے شدید تر ہو سکتا ہے۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی بعض قومیں ایسی ہیں اور ہر قوم میں بعض لوگ ایسے ہیں جو نفسیاتی مسائل اور ذہنی امراض کو قبول نہیں کرتے۔ وہ نفسیاتی امراض کو روحانی مسائل سمجھتے ہیں اور ادویہ اور تھراپی سے علاج کرنے کی بجائے ذہنی مریضوں کو پیروں فقیروں کے پاس گنڈے تعویز سے علاج کروانے لے جاتے ہیں اور مریض کی حالت بد سے بدتر ہو جاتی ہے۔
میری نگاہ میں یہ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھروں اور اسکولوں میں ذہنی صحت کی تعلیم دیں۔ یہ ریڈیو ’اخبار‘ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذمہ دار لکھاریوں اور جرنلسٹوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ذہنی صحت کی تعلیم عام کریں اور نفسیاتی مسائل پر سیمینار اور پروگرام ترتیب دیں۔ ہم نے اب فیس بک پر ایک گرین زون کمیونٹی کا صفحہ بنایا ہے جس میں لوگ نفسیاتی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ذہنی صحت کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری دو رفقا کار ثمر اشتیاق اور زہرہ نقوی اور بہت سے وولنٹیر ماہانہ گرین زون سیمیناروں کا اہتمام اور انتظام کرنے اور گرین زون کمیونٹی کو فعال رکھنے میں میری بہت مدد کرتے ہیں
آپ بھی اگر چاہیں تو گرین زون کمیونٹی میں شریک ہو سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...