کیا اخبارنویس سب کچھ جانتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبارنویسوں کا ایک حلقہ ایسا ہے جسے معلوم نہیں کس وجہ سے یہ غلط فہمی ہے کہ وہ حکمرانوں سے زیادہ ہوشیار ، ذہین اور زیرک ہیں جبکہ ہمارے حکمران ، خاص کر منتخب سیاستدان تو پرلے درجے کے بے وقوف، ناسمجھ اوراچھے مشیر وں کی پہچان نہیں رکھتے۔اپنی تحریروں ، تجزیوں اور ٹاک شوز میں یہ صحافی، اینکر بڑھ چڑھ کر تنقید کرتے اور اپنی دانست میں دانائی پر مبنی مشورے دیتے ہیں۔ انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ اگر یہ سیاسی لیڈر اتنے ہی ”مومے کاکے“ ہوتے تو اپنے مخالفوں کو پچھاڑ، الیکشن جیت کر حکومت میں کیسے آتے؟کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی اقتدار میں آجائے، وہ علم ودانش کا پیکر ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں۔ غلطیاں ظاہر ہے، ان سے بھی ہوتی ہیں، غلط مشیر بھی چن لئے جاتے ہیں، ان بلنڈرز کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ کہنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ لیڈروں خاص کر سیاستدانوں کو کبھی ”ایزی“ نہیں لینا چاہیے ۔انہیں بے وقوف سمجھنے والے کے حصے میں اکثر شرمندگی آتی ہے۔
مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح اخبارنویس بھی اپنی طبعی پسندناپسند، مزاج اور ذہنی میلان کے حساب سے کسی لیڈر کو پسند اور ناپسند کرتے ہیں۔ رائے پہلے قائم ہوتی ہے اور پھر اس کے لئے دلائل تراش لئے جاتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ لیڈر کی ذہانت اور فراست کے ہم گیت گاتے اور ناپسندیدہ پر بے رحمی سے تنقید کے تیر برساتے ہیں۔صورتحال بیشتر کیسز میں مگر ویسی ہوتی نہیں۔ بھٹو صاحب کو ہمارے ہاں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ان کی المناک موت نے ان کے گرد ایک انوکھا رومانوی ہالہ بنا دیا ہے۔ بھٹو صاحب کے حامی انہیں دیوقامت سیاسی شخصیت سمجھتے ہیں،دانش ، تدبر اور وژن جن کا اساطیری نوعیت کا تھا۔کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ایسا بھی کیا وژن کہ یہ علم نہ ہوپائے صرف چند برس بعد دنیا بھر سے نیشنلائزیشن کا بھوت رفوچکر ہوجائے گا اور یہ سب کچھ ریورس کرنا پڑے گا۔ بھٹو صاحب کی ایک خوبی کا ذکر کم ہوتا ہے، دو تین جگہوں پر یہ بات پڑھی اور پھر پرانے سیاستدانوں سے تصدیق بھی کی۔ بھٹو اپنے جلسوں میں سیاسی مخالفین کا تمسخر اڑاتے، ان کے مضحکہ خیز نام رکھتے ۔ اپنی نجی محفلوں اور سیاسی مشاورت میں مگر وہ ہر ایک کا سنجیدگی سے تجزیہ کرتے اور اسے کم اہم نہ سمجھتے۔
میاں نوازشریف وہ سیاستدان ہیں، جن کے حوالے سے بے شمار لطیفے مشہور ہوئے، کچھ سچے، بہت سے جھوٹے ، مگر عوام ان پر مزے سے یقین کر لیتے ہیں۔میاں صاحب اپنے ہی انداز کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ چہرے پر بھولپن اور نرمی تھی، جس کا وہ عمدہ استعمال کرتے۔ اکثر لوگ انہیں بھولا بھالا، ناسمجھ قرار دیتے ، بے وقوف بننے کے بعد انہیں پتہ چلتا کہ بھولے میاں صاحب نہیں، بلکہ وہ خود تھے۔ میری میاں نواز شریف سے ایک آدھ ملاقات ہی ہے۔ ہمارے تھنکرز فورم سی این اے (کونسل آف نیشنل افیئرز)کو مئی 2013ءکے انتخابات سے پہلے میاں نواز شریف نے جاتی عمرہ مدعو کیا ، ڈھائی تین گھنٹوں کا تفصیلی سیشن ہوا۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ اپنی رائے ظاہر کرنے سے گریز کرتے اور اکثر سوال پوچھنے والے سے جوابی سوال پوچھ ڈالتے کہ آپ کے خیال میں کیا کرنا چاہیے ؟اس پر خوش ہو کر
سوال کرنے والے ایک طویل ”بصیرت افروز“ تقریر جھاڑتے۔ میاں صاحب مسکراتے ہوئے سنتے رہتے، کبھی نوٹس بھی لینا شروع کر دیتے ۔میرے جیسے ناتجربہ کار اخبار نویس یہ سمجھتے کہ شائد ہماری باتوں کا ان پر اثر ہو رہا ہے یا ہم واقعی اتنے سمجھدار ہیں کہ وقت کا حکمران ہماری تجاویز نوٹ کر رہا ہے۔ نواز شریف صاحب کے ساتھ برسوں کی قربت رکھنے والے اخبارنویس بتاتے ہیں کہ یہ میاں صاحب کا سٹائل ہے۔ وہ جانتے بوجھتے سادہ لوح اور بھولے بن جاتے ۔اخبارنویسوں سے مشورے مانگتے اور یوں تاثر دیتے جیسا وہ دل سے قائل ہو کر نوٹس لے رہے ہیں۔ یہ سب دھرا رہ جاتا اور کرتے وہی، جو ان کے من میں ہوتا۔
آج کل عمران خان بھی اخبارنویسوں، تجزیہ کاروں، اینکروں کے ہدف پرہیں۔ روزانہ کے حساب سے منوں ، ٹنوں وزنی تجاویز، مشورے اور کامیابی کے فارمولے ان پر برسائے جارہے ہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ بیچارہ خان حکومت کا بوجھ توجیسے تیسے اٹھا لے گا،ہمارے مشوروں کا وزن اٹھاتے اسے چُک نہ پڑ جائے۔مشورے دینے والوں کو یقین کامل ہے کہ عمران خان کو گورننس کا کچھ پتہ نہیں، سیاست اسے چھو کر نہیں گزری ، مردم شناسی نام کی کسی چیز سے وہ قطعی واقف نہیں ،ٹیم بنانااس کے بس کی بات نہیں اور رہی حکمرانی تو اگر ہم نے رہنمائی نہ کی تو یہ سو دن بھی نہیں نکال پائے گا۔ حیرت ہوتی ہے کہ انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اگر ایسا ہی کچا، ناتجربہ کار اور نااہل ہے تو پونے دو کروڑ کے قریب ووٹ کیسے لے لئے؟سیاست نہیں آتی ، لیکن پھر بھی اس کے بہت سے امیدواروں نے مخالفین کا صفایا کر ڈالا۔جن ہیوی ویٹس کو ہم جیسے اخبارنویس کامیابی کی ضمانت سمجھتے تھے،ان میں سے بیشتر ہار گئے اور صداقت عباسی، عامر کیانی جیسے اپنے مضبوط ترین حریفوں کو ہرا کر جیت گئے۔پورا میڈیا جہلم کے ناکام جلسے کا مذاق اڑاتا رہا، فواد چودھری کو بے نقط سناتا رہا، اسی جہلم سے فواد چودھری اور ان کا کزن چودھری الطاف مزے سے الیکشن جیت گئے۔
تجزیہ کاروں کے الیکشن کے دوران مختلف بیانات اور دعوے اگر یاد کریں تو حیرت ہوتی ہے۔ الیکشن کی نشریات میں کئی اینکر حضرات اس پر بضد پائے گئے کہ ہنگ (معلق)پارلیمنٹ ہوگی اور چودھری نثار اپنے جیپ والے” گوریلو ں“ کے ساتھ وزیراعظم بن جائیں گے۔ چودھری نثار اپنی تمام تر نخوت، خبط عظمت اور نرگسیت سمیت غلط فہمیوں کے صحرا میں دفن ہوگئے ۔کئی بڑے بڑے نام قبلہ زرداری صاحب کی ذہانت کے گیت گا رہے تھے، ان کا خیال تھا کہ آخری شاٹ زرداری کا ہوگا۔ یعنی مخلوط حکومت بنے گی، جو زرداری کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوپائے گی، وہ عمران خان کو باہر رکھ کر مخلوط سیٹ اپ بنوائیں گے۔ بعد میں سمجھ آئی کہ کیسی مخلوط حکومت اور کون سی ذہانت؟حال تو یہ کہ اپنے برخوردار کو زندگی کا پہلا الیکشن لڑوایا اور دو حلقوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نجانے کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ سوات سے لڑیں؟ لیاری جیسے محفوظ مستقر سے بغیر ہوم ورک کے بلاول کو لڑایا اوروہ غریب وہاں سے ہارنے والا پہلا بھٹو( یا پہلا بھٹو زرداری) بنا۔ہمارے بعض دینی مزاج رکھنے والے صحافی دوست اپنی خوش گمانی میں ایم ایم اے سے امیدیں باندھے بیٹھے تھے۔ خاکسار نے ان
میں سے ایک رپورٹر دوست کو الیکشن سے پہلے ہی یہ خبر سنا دی کہ ڈیرہ کے لوگوں کے بقول مولانا فضل الرحمن اس بار ڈیرہ کی دونوں نشستوں سے ہار رہے ہیں۔ جواب ملا کہ مولانا کی فراست اور سمجھداری کا آپ کو اندازہ نہیں۔ مجھے واقعی اندازہ نہیں تھا، پچیس جولائی کی شام کو زیادہ بہتر انداز میں علم ہوا۔
اب یہی اندازے، گمان ، تجزیے عمران خان کی گورننس کے بارے میں قائم کئے جارہے ہیں۔ اس نے بیکار بیوروکریٹس کو لگایا ہے، وہ بیورو کریسی کے ہاتھوںمیں کھیل رہا ہے۔بھائی جی اگر پوری بیورو کریسی کو نکال دے تو پھر نظام کیسے چلے گا؟ کیا کرکٹ ٹیم سے کھلاڑی لا کر سیکرٹری بنائے؟ فلاں فلاں لوگ شہباز شریف کے ساتھ کام کرتے رہے، انہیں کیوں لیا ؟ حضوروالا ، پچھلے دس برس تو پنجاب میں شہباز شریف ہی تھا۔ بیوروکریٹ کیا اس تمام عرصہ میں نوکری چھوڑ جاتے؟ جو دستیاب لوگ ہیں، ان میں سے بہتر کا انتخاب کیا جائے گا۔ ممکن ہے بعض اندازے پر پورا نہ اتریں تو کیا تردد ہے، کچھ دن گزرنے کے بعد ٹرانسفر ہوجائیں گے۔ فلاں صاحب مشرف کے ساتھی تھے،کابینہ میں اسے کیوں لیا؟بھیا جی جو لوگ ارکان اسمبلی بنے ہیں، ان میں سے انتخاب کرنا پڑے گا، ممکن ہے کوئی وزیر اچھا پرفارم نہ کر پائے تو اسے بدلا جا سکتا ہے۔ مرکز میں فواد چودھری اور پنجاب میں فیاض چوہان کو وزارتیں کیوں دی گئی ہیں ؟بھئی صاف ظاہر ہے جو لوگ پارٹی کا دفاع کرتے رہے، سیاسی موقف کو دبنگ انداز میں بیان کیا، انہیں ہی حکومت میں آنے کے بعد حکومتی موقف بیان کرنے اورپالیسیوں کے دفاع کی ذمہ داری دی جائے گی۔وزیر اطلاعات حکومت کا ترجمان ہی ہوتا ہے۔ایسا تو نہیں ہوسکتا تھاکہ کسی نے مشکل وقت میں تحریک انصاف کا دفاع نہیں کیا، اسے بولنے کی جرات ہی نہ ہوئی ، اب اقتدارملنے پر اسے وزیر بنا دیا جائے ، آخر کیوں؟اور ہاں ،سیاسی وفاداری پر پارٹی انعام نہ دے تو کیا سزاد ے ؟ پارٹیوں کے ساتھ وفا کرنے ، اس کے لئے قربانی دینے والوں کو دنیا بھر میں صلہ دیا جاتا ہے، اس میں تنقید کا پہلو کہاں ہے؟دانیال عزیز، طلال چودھری وغیرہ پر تنقید ن لیگ کی ترجمانی پر نہیں کی جاتی رہی، بلکہ اس پر کہ پانامہ کیس میں صریحاً غلط اور جھوٹے موقف کا وہ دیدہ دلیری سے دفاع کر رہے ہیں۔ اپنی جماعت کا دفاع کرنا، اس کے موقف کو واضح کرنا تو ہر پارٹی ترجمان کا جمہوری حق ہے۔
سو باتوں کی ایک بات ہے کہ اخبارنویس کوصرف اپنا کام کرنا چاہیے۔اپنی بات ضرور کہے ، مگر کسی زعم سمجھداری کے بغیر۔ جو سمجھ میں آتا ہے وہ لکھا ، کہا جائے ، مگر سیاستدانوں کو بنیادی چیزوں اور سیاسی سوجھ بوجھ سے نابلد سمجھنا عقلمندی نہیں۔ایسی غلط فہمیوں پر غلط تجزیے جنم لیتے ہیں اور پھرندامت اٹھانا پڑتی ہے۔
یہ تحریر یفس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔