شاعری، یا فکشن، یا کسی بھی صنف ادب کا اثر سماج پر پڑتا ہے، یہ معاملہ بہت مشکوک ہے۔ اور اگر مشکوک نہیں تو متنازعہ فیہ ضرور ہے۔ ارباب اقتدار، اور خاص کر مستبد اور آمر ارباب اختیار (جیسا کہ سوویٹ روس کا معاملہ تھا) ہر اس شے سے خوف کھاتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ان کی قوت یا با اختیار حیثیت کو شک کی نظر سے دیکھتی ہو، یا دیکھ سکتی ہو۔ ادب میں چونکہ یہ صلاحیت بہت ہوتی ہے، کہ وہ ہر شے، ہر خیال، ہر صورت حال پر آزادانہ اور اپنے تصور یا تاثر یا وقتی جذبے کی روشنی میں اظہار خیال کر سکے، اس لئے مستبد اور جابر طبقہ ادب سے خوف کھا تا ہے کہ نہ جانے کب وہ کیسی بات کہہ دے اور کس انداز میں کہہ دے۔ اسی لئے ایسے تمام معاشروں میں، جو استبداد پر مبنی ہوں، ادب (یعنی اظہار خیال) پر پابندی ہوتی ہے۔
یہ بات غور کرنے اور سمجھ لینے کی ہے۔ ادب، یا اظہار خیال پر پابندی کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ جابر اور آمر کو ادب سے خطرہ ہوتا ہے، بلکہ جابر اور آمر کو اختلاف سے ڈر لگتا ہے۔ اختلاف اس کے اعتماد کومتزلزل کر دیتا ہے۔ اختلاف سے اس کے آمرانہ غرور کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس وجہ سے وہ ادب، یا اظہار خیال پر پابندی لگاتا ہے۔ یعنی یہ پابندی اس لئے نہیں ہوتی کہ اسے خوف ہے کہ ادب (یا ادب کی کوئی بھی صنف) سماج پر اثر انداز ہو گی، اور یہ اثر اس کی طاقت کے لئے، یا ’امن عامہ‘کے لئے، یا ’عوام کے اخلاق ‘کے لئے مضر ہو گا۔ اسے تو اختلاف رائے سے خوف ہے، چاہے وہ اختلاف کتنے ہی کمزور الفاظ میں یا کتنے ہی کمزور انداز میں بیان کیا جائے۔ (مثلاً کوئی بلاگ ،جس کا پڑھنے والا بلاگ نویس کے سوا کوئی نہ ہو،حکومتیں اس سے بھی ڈرتی ہیں۔)
اب رہی یہ بات ،جو بہت مشہور ہے، کہ سماج پر ادب کا اثر ہوتا ہے، تو یہ بالکل غلط ہے۔ ہم ادیبوں نے اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ مفروضہ گھڑ لیا ہے کہ ہم سماج کے لئے بہت اہم ہیں، ہم رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہم ملکوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں، اور اگر اتنا نہیں تو یہ تو ضرور کر سکتے ہیں کہ لوگوں کو کسی گوشوارۂ عمل کی طرف مائل کر دیں۔
یہ سب باتیں محض طفل تسلیاں ہیں۔ ان کو عام کرنے میں پرانی کتابوں کا بھی کچھ ہاتھ ہے جن میں غیر مصدقہ واقعات اس طرح درج کئے گئے ہیں گویا وہ بالکل تاریخی ہوں۔ مثلاً یہ کہ عرب میں فلاں قبیلے کے لوگ جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے جب فلاں شاعر نے ان کی غیرت کو للکارا۔ یا اس کے بہت دن بعد ایران کے رودکی نے بادشاہ کو اپنے اشعار سنائے جن میں وطن کے دریاؤں اور اس کے خوش گوار ماحول کی یاد کا مضمون تھا تو بادشاہ صاحب فوراً کھڑے ہو گئے اور پوری فوج کو وطن واپس لے گئے۔ یہ سب حکایات ہیں۔ ممکن ہے سچ ہوں، ممکن ہے اس طرح سچ نہ ہوں جس طرح ہم انھیں سمجھتے ہیں۔ چھوٹے موٹے اور سادہ معاشروں میں، جہاں زیادہ تر چیزیں فوری اور زبانی ہوتی تھیں، ممکن ہے ایسے واقعات کبھی کبھی پیش آجاتے ہوں۔ لیکن ان سے ادب کی حقیقت نہیں، بلکہ معاشرے کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔
جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں (اور اکثر ہی پوچھتے ہیں) کہ ادب ہمارے سماج پر کس طرح اور کس قدر اثر انداز ہو تا ہے، تو میں ان کے سامنے آڈن (W.H.Auden)کے یہ مصرعے پڑھ دیتا ہوں:
For poetry makes nothing happen, it survives
In the valley of its own making where executives
Would never want to tamper…
کیونکہ شاعری کے ذریعہ کچھ ہوتا ہواتا نہیں:شاعری باقی رہتی ہے
اپنی ہی خلق کردہ وادیوں میں،جہاں ارباب اختیار کے کارندے
اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے بالکل ہی گریز کر تے ہیں۔
میرا دوسرا جواب روس کے عظیم شاعر جوزف براڈسکی (Joseph Brodsky) کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے:
“اگر سماج کے تئیں شاعر کا کوئی فریضہ ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ اچھا لکھے۔ (سچ تو یہ ہے کہ) اقلیت میں ہونے کے باعث اسے کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ اگر وہ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہے تو وہ گمنامی میں غرق ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلاف، شاعر کے تئیں سماج کا کچھ بھی فریضہ نہیں۔ اپنی نوعیت ہی کے اعتبار سے سماج اکثریت میں ہے اورخوب سمجھتا ہے کہ شاعری چاہے وہ کتنی ہی عمدہ کیوں نہ ہو، لیکن اسے پڑھنے کے علاوہ بھی کئی دوسرے کام اور کئی انتخاب ہیں جنھیں وہ اختیا ر کر سکتا ہے۔”