::: " کیا ادب کا تنقیدی نظریہ دم توڈ رہا ہے " : ایک مختصر فکری خاکہ :::
اردو ادب کا قاری ہی نہیں تنقیدی دانش ور بھی اپنی ذات،روایت ، ورثے اور متروکات کے سبب کچھ زیادہ ہی کنفیوز ہے اور وہ دنیا کی فکری روشنی میں کھڑا نہیں ہو پاتا۔ اس کی آنکھیں چنددھیاتی جاتی ہیں اور ان کی آنکھوں میں اندھیرہ پھیل جاتا ہے کیونکہ وہ سطحی اور تاثراتی ذہن کا مالک ہے۔ تجزیاتی، عملی اور تقابلی سطح پرمتن کے ادراک اور اس کی تشریح کرنے کا بھی اہل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اردو میں نظریاتی تنقید سے اغماض برتا جارہا ہے۔ اور یہ آہستہ آہستہ معدوم بھی ہوتی جارہی ہے۔ عصری ادبی تنقیدی نظرئیے میں ثقافتی سطح پر کوئی دانشوارانہ وظیفہ نہیں رہا کیونکہ عام ادبی فکریات میں شامل ہونے والی مباحث اپنے عروج و زوال کے درمیان مشکوک اور نہ سمجھ میں آنے والا رشتہ ادبی تنقیدی نظریات کو ابھی تک مکمل طور پر تو مسمار نہیں کرسکا مگر میں اس کو " دیمک زدہ " دیکھ رہا ہوں۔ شاید اس کی وجہ فکری خشک سالی، عدم مطالعے اور خول سے باہر نہ نکلنے والے رویّے کا المیہ پوشیدہ ہیں۔ جس میں لسانی، علاقائی اور جغرافیائی تنقیدی نظرئیے کی "نظریاتی انّا" ایک دوسرے کے چہرے کو کھروچنے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنے فکری دغدار چہرے کی غازہ بندی کررہے ہیں تو دوسری طرف اردو کی تنقید میں بھی یہ کہا جارہا ہے۔ کہ نیا تنقیدی ادبی نظریہ ہماری "اردو" کی روایت اور فکری طہارت کو مسمار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جس میں تنقیدی نظریات کا ابلاغ کا روایتی راہوں پر الٹی سمت سفر کررہا ہے اور ادب کی تفھیم و تشریحات کی مناجیات کی تطہیر اور تادیبی فلسفیانہ اور منطقی مناجیات نے فکری سکہ بندی کو زد پہنچائی جس نے بے دردری سے نہایت سفاکانہ طور پر اس سے آگہی کے اصل سچ کو پالینے کی کوشش کی اور تنقیدی متن کی " مثبت " روہوں کو متعین کرنے کو کوشش کی جس میں آئیڈیالوجی کی بلاغت کو نئی اور پرانی تفھیمات اور تشریحات میں تبدیل کرکے ان میں معنی تلاش کئے گئے۔ اس مقام پر یساریت پسندوں { مارکسٹ} کو بڑی ذہانت کے ساتھ ایک جال میں پھسنا دیا گیا اور ان نظریات میں ادبی تحریکوں کے مباحث سیاسی، ثقافتی اور تاریخی واقعات کی " تحدیدات" کے گٹھ جوڑ کوکچھ زیادہ ھی بے نقاب کیا گیا جو ایک معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے کو توڑنے سے قاصر تھا اور اس کو نئے روپ میں مابعد ساختیات میں ممکنہ طور پر سامنے لاکر نئے مفاہیم اجاگرکرکے اسے سامنے لایا گیا ۔ جسے رد تشکیّل کے نظرئیے میں سمودیا گیا۔ جس نے زبان اور ثقافت کے ادبی متن کے ڈھانچے کو ایک ریڈیکل فکر کی صورت میں اجاگر کیا۔ اس کا مخاطبہ {ڈسکورس} فرانس میں ریڈیکل طلبا کے تحریک میں نظر آئی۔ سوال یہ ہے کی اردو میں ادبی نظریہ ، تنقیدی نظرئیے کو کس طور پر تشکیل سے پاتا ہے۔ کیا اردو میں تنقیدی ادبی نظریہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو فنا کرہا ہے۔ دور جدید میں ادب کی فکری اور نظریاتی تنقید کو گذشتہ صدی کے نظریہ دانوں سے زیادہ کٹھن اور مشکل صورتحال سے نبر آزما نظر آتی ہے جو یہ خبر سناتا ہے کی ادب کی موت ہوگئی ہے ، مصنف بھی اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ ایک مبالغہ آمیز، مفروضیاتی اور شکست خردہ ذہن و فکر کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے یوں لگتا ہے کی جدید تنقید "فن" سے آگاہ نہیں ہے مگر مکمل طور پر یہ سائںس کے پیمانے اور کلیہ نہیں ہوتے۔ ادبی تنقید کی جمالیات ایم مخصوص مقام پر ہی قیام کرکے متن کی ہیت اور اس کے مفاہیم کے مخاطبے کی بھول بھلیوں میں نئی یادوں کو تازہ کرتی ہیں۔ اس عمل میں شناخت کی گمشدگی کے علاوہ استدلال کا تناو ، ریڈیکل بیزاری کے علاوہ تفھیماتی ار مابعد الطیعاتی محروکات معروضی اور موضوعی سیاق میں متن کی عملیات کوموثر بناتے ہیں۔ یہ متن کے ثقافتی متعلقات ایک اعتباطی سطح پرامتزاجی مزاج لیے ہوتا ہے جو متنون اور سیاقیت میں بین المعنویت میں نئی بیں لسطور کی معنویت سے وابستہ کردیتی ہیں۔ جو واضح طور پر اپنے بطن میں " شعور اجتماعی " کا فکری فریم ورک ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ادبی نظرئیے میں ادب کی فطرت، ادیب کا متن اور تاریخ، قاری اور معاشرے سے بحث کی جاتی ہے۔
اس مضمون کے ساتھ ہی ادبی تنقیدی نظرئیے کا ایک جدول بھی دیا جارہا ہے تاکہ اس سے قارئین کے زہن میں ادبی تنقیدی نظریات، تحریکوں اور رجحانات کا خاکہ شفاف طور پر واضح ہوجائے۔ :::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔