انھوں نے کہا کہ میں فوج کے خلاف لڑائی ملک میں رہتے ہوئے لڑوں گا۔
وکیل نے مشورہ دیا کہ یہ باتیں چھوڑیں اور فوراً ملک سے نکلیں۔ لندن چلے جائیں۔
انھوں نے کہا، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں مجرموں کی طرح فرار ہوجاؤں؟ آپ کو احساس بھی ہے کہ کیا کہہ رہے ہیں؟
لوگ کہیں گے کہ میں بزدلوں کی طرح بھاگ گیا۔ دوست دشمن سب مذاق اڑائیں گے۔
وکیل نے کہا، یہ حقیقت ہے کہ جیل جاکر آپ پوری دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ سکتے ہیں۔
مر گئے تو شہید کا رتبہ پالیں گے۔
لیکن یاد رہے کہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
لندن جاکر آپ طاقت حاصل کرلیں گے۔
آپ وہ سب کچھ کرسکیں گے جو کرنا چاہتے ہیں۔
کبھی کبھی بزدل بننے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وکیل کے آخری جملے نے ان پر اثر کیا۔
وہ لندن چلے گئے اور وہاں سے جدوجہد کرنے لگے۔
دوسری جانب فوج کا وقار داؤ پر تھا۔
جرنیلوں نے طے کر رکھا تھا کہ فوج غلطی نہیں کرتی اور جو کسی غلطی کی نشاندہی کرے، وہ ملک دشمن ہے۔
عدلیہ بھی جرنیلوں کے ساتھ تھی۔
لیکن پھر کیا ہوا؟
تاریخ میں لکھا ہے کہ فوج کے جرنیل ہار گئے اور وہ واحد شخص کامیاب ٹھہرا۔
ان کا نام ایمیل زولا تھا۔
وہ فرانس کے بڑے ناول نگار اور صحافی تھے۔ انھیں ملک کا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا تھا۔
ان کے دور میں ایک غدار فوجی افسر نے جرمنی کو خفیہ معلومات بھیجنے کی کوشش کی۔ وہ پیغام راستے میں پکڑا گیا لیکن یہ علم نہیں ہوسکا کہ وہ کس نے بھیجا تھا۔
فوجی قیادت نے ایک یہودی افسر کو مجرم ٹھہرا کے جیل میں ڈال دیا۔
کچھ عرصے بعد جرنیلوں کو حقیقت معلوم ہوگئی کہ اصل مجرم ان کا ایک ساتھی تھا۔ لیکن انھیں شرم آئی کہ اگر یہودی افسر کی سزا ختم کی اور اپنے ایک ساتھی کو سزا سنائی تو ان کا مذاق اڑے گا۔
انھوں نے بات دبا دی۔
یہودی افسر کی بیوی کو صورتحال کا علم ہوگیا۔ وہ ایمیل زولا سے ملی اور انھیں بتایا کہ اس کا شوہر بے قصور ہے۔ اس نے ٹپ دی کہ انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کو حقیقت کا علم ہے اور وہ عدالت میں گواہی دے سکتا ہے۔
زولا نے اخبار کے پورے صفحہ اول پر صدر کے نام خط لکھا جس میں فوج پر سخت الزامات لگائے۔ وہ سرخی اب تاریخ میں یادگار ہے، "میں الزام لگاتا ہوں۔"
مقدمہ چلا لیکن جج جانب دار تھے۔ وہ فوج کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ انھوں نے انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کی گواہی بھی مسترد کردی۔
زولا پر بھاری جرمانہ ہوا اور جیل کی سزا سنائی گئی۔ ان سے فرانس کا سب سے بڑا اعزاز بھی چھین لیا گیا۔
وکیل کے مشورے پر زولا لندن فرار ہوگئے۔ وہاں اپنی تحریروں سے مسلسل سچ بیان کرتے رہے۔
آخر حکومت پر دباؤ پڑا اور یہودی افسر کا مقدمہ کھولا گیا۔ الزام سے بری کرنے کے بعد فوج میں بحال کیا گیا۔ دوسری جانب تحقیقات کے بعد فوج کے سربراہ اور ساتھیوں کو فارغ کردیا گیا۔
ایمیل زولا عزت کے ساتھ وطن واپس آئے۔
ان کا انتقال 1902 میں 62 سال کی عمر میں ہوا۔
ہالی ووڈ میں ان کی زندگی پر 1937 میں دا لائف آف ایمیل زولا کے نام سے فلم بنائی گئی جسے آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔