آپ چاہیں یا نہ چاہیں ہیں لیکن 5 جی موبائل فون بہت جلد آپ کے ہاتھ میں ہوگا
فائیو جی فون سے نکلنے والی تابکاری کے بارے بہت سے خدشات کو پھیلایا گیا ہے لیکن ڈاکٹر کارل کا خیال ہے کہ ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ فائیو جی نیٹ ورک ہمیں تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرے گا اور اس کے بارے میں پھیلائے گئے خدشات دب جائیں گے۔
ون گیگا بیٹ کی تیزرفتار ڈاؤنلوڈ رفتار معاشرے میں ایک انقلابی تبدیلی لے آئے گی جس سے ملازمتوں کے بہت سارے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
فائیو جی کے مخالفین تین طرح کے خوفناک دعوے کر رہے ہیں جیسے کہ فائیو جی کی وجہ سے بہت سارے ممالک میں پرندے مر رہے ہیں یا یہ دعوی کرتے ہیں کہ فائیو جی فوج کا ایک ہتھیار ہے۔وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فائیو جی کی وجہ سے کینسر کئی ممالک میں وبائی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر دعوے صرف سنی سنائی باتیں ہیں اور ان کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔
فائیو جی نیٹ ورک کو سمجھنے کے لئے ہمیں برقی مقناطیسی سپیکٹرم کی مدد لینی پڑے گی۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ آیا کیا واقعی فائیو جی نیٹ ورک ہماری صحت کے لئے نقصان دہ ہے یا یہ صرف سنی سنائی باتیں ہیں۔
فائیو جی نیٹ ورک اور پہلے سے موجود موبائل فون کم فریکوئنسی کی ریڈیو لہروں کا استعمال کرتے ہیں جو کہ ایک طرح کی برقی مقناطیسی لہریں ہیں جو کم توانائی والی ریڈیو لہروں کو استعمال کرتی ہیں۔ اسپیکٹرم تین سے تیس ہارٹز کے درمیان چلتا ہے اور جیسا کہ ہمیں پہلے سے پتا ہے کہ ریڈیو ویوز کے اوپر نیچے ہونے کے وقفے کے دوران ہم ڈیٹا ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
یہ کم فریکونسی کی لہریں ہمارے پیروں، سمندر کے نیچےاور زمین کے اندر سے گزر سکتی ہیں ہیں۔ جتنی فریکونسی تیز ہوگی اتنی ہی تیزی سے سے ڈیٹا کو ٹرانسفر کیا جاسکتا ہے۔ یہ لہریں پھر بھی زیادہ موٹے کنکریٹ اور دوسری ایسی سی چیزیں جیسے پہاڑوں سے نہیں گزر سکتی ہیں۔
ہمارے موجودہ فور جی نیٹ ورک 700 میگاہرٹز اور چند ایک گیگاہرٹز نیٹورکس پر چلتے ہیں۔ نیا فائیو جی نیٹ ورک دواہم بینڈز کا استعمال کرتا ہے جو کہ 6 گیگاہرٹز اور دوسرا چوبیس گیگاہرٹز سے اوپر کا ہے۔ یہ نئی ریڈیو فریکونسی پہلے سے موجود ریڈیو یو لہروں سے تیز ہیں لیکن یہ پھر بھی ابھی مرعی روشنی کی نسبت بہت کم رفتار ہے جو جو کہ سینکڑوں ہزاروں گیگاہرٹز میں آتی ہیں۔
آئنائزنگ اور غیر آئنائزنگ تابکاری
فائیو جی کے بارے میں صحت سے متعلق خدشات کی ایک اور وجہ یہ حقیقت ہے کہ کچھ برقی مقناطیسی لہریں ایٹموں کو تھرتھراتی ہیں۔ مائیکروویواون میں کھانا اسی اصول کے تحت گرم ہوتا ہے۔
ایسی لہروں کو آئنائزنگ لہریں کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایٹموں میں موجود الیکٹرونز کو اپنی جگہ سے تھرتھرا سکتی ہیں جس کی وجہ سے آئن بن جاتے ہیں اور مزید پیچیدگیوں کی وجہ سے سے کینسر ہوسکتاہے۔ برقی مقناطیسی لہروں میں رنگ بنفشی آئنائزنگ اور غیر آئنائزنگ لہروں کے درمیان ایک رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ رنگے بنفشی سے زیادہ فریکونسی والی کوئی بھی لہرکینسر کا سبب بن سکتی ہے۔
الٹراوائلٹ یا الٹراوائلٹ آئنائزنگ تابکاری سب سے کمزور ہوتی ہے اور جلد کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ ایکسرے اور گاماریز انتہائی درجہ کی فریکونسی استعمال کرتی ہیں اور ان میں توانائی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے کینسر ہونے کے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
دوسری طرف ریڈار، ایے ایم اور ایف ایم ریڈیو، ٹی وی مائیکرویو موبائل فون اور بجلی کی تاروں سے نکلنے والی تابکاری انتہائی کم ہوتی ہے اور ان سے ایٹموں کے اندر موجود الیکٹران کو تھرتھرانے کی صلاحیت بہت ہی کم ہے۔
گزشتہ نصف صدی کے دوران ہونے والی سینکڑوں تحقیقات یہ نہیں ثابت کر سکیں ہیں کہ ان لہروں سے کینسر ہو سکتا ہے۔ یہی اصول فائیو جی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
نان آئنائزنگ تابکاری اور کینسر سے متعلق امریکی قومی ادارہ صحت کی دو بڑی تحقیقات کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا۔ جب بھی موبائل فون اور کینسر کا کا حوالہ دیا جاتا ہے تو ان دو تحقیقات کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔ ان تحقیقات کے نتائج پر بات کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
پہلی تحقیق میں ان لہروں کا چوہوں پر استعمال کیا گیا جو کہ ہمارے موبائل فون خارج کرتے ہیں لیکن بہت بڑی مقدار میں۔ دو سال کے دوران روزانہ نو گھنٹوں تک ہفتے کے سات دن ان چوہوں کے جسم کو ان لہروں سے گزارا گیا۔ سائنسدانوں نے پایا کہ نر چوہوں کی عمر زیادہ لمبی ہوگئی ہے لیکن ساتھ ہی ان میں دل اور دماغ کا کینسر دوسرے چوہوں کی نسبت زیادہ پایا گیا۔ مادہ چوہیوں میں میں کوئی فرق نہیں دیکھا جا سکا۔
دوسری تحقیق میں بھی تابکاری سے متاثر نر چوہوں کی عمر دوسرے چوہوں سے زیادہ تھی لیکن ان میں کینسر کی شرح بھی زیادہ تھی تھی۔ اس تحقیق میں تابکاری سے متاثر مادہ چوہوں میں گلٹیوں کا کینسر بھی پایا گیا۔
اس تحقیق سے لوگوں نے اپنے نتیجے اخذ کر لیے کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی تابکاری سے کینسر ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ اس تحقیق کے اعدادوشمار کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ متاثرہ چوہوں کی تعداد بہت ہی کم یک ہندسوں (single digit) میں تھی۔
یل یونیورسٹی کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر سٹیون نویلا کے مطابق انتہائی کم تعداد اور نتائج میں عدم مطابقت ایسی تحقیقات میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے اور اس کے نتائج پر عملدرآمد کو محدود کر دیتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت دنیا بھر کے صحت کے حکام نے موبائل فون بیس اسٹیشنوں سے ممکنہ صحت کے اثرات سے متعلق سائنسی شواہد کی جانچ کی ہے۔ موجودہ تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موبائل فون بیس اسٹیشن اینٹینا سے برقی مقناطیسی لہروں کے کم آخراج سے انسانی صحت کو کوئی خطرات نہیں ہیں۔
فائیو جی کے بارے میں جعلی خبریں کون پھیلا رہا ہے
نیویارک ٹائمز اخبار کے مطابق فائیو جی کے بارے میں غلط معلومات کا ایک اہم ذریعہ روسی ٹی وی نیٹ ورک آر ٹی رہا ہے جو کہ دنیا بھر میں دستیاب ہے۔ اس چینل کے مطابق فائیو جی نیٹ ورک سے دماغی کینسر بانجھ پن، آٹزم، دل کے کینسر اور الزائمر کی بیماری سمیت بہت سارے خطرات لاحق ہیں۔ ان سارے دعووں کا صفر سائنسی ثبوت موجود ہے خاص طور پر اگر آپ غور کریں تو فائیو جی نیٹ ورک 2019 کے شروع سے ہی دستیاب ہوسکا ہے۔ ڈیلی گارڈین کے نامہ نگار ثم کولنگ کے مطابق اس چینل پر تجزیہ پیش کرنے والے ماہرین اور ان کے اداروں کا کبھی کسی نے نام نہیں سنا ہوگا
دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن فائیو جی نیٹ ورک کے بہت بڑے مداح ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ تیز رفتار انٹرنیٹ تک عالمی سطح پر رسائی کو کیسے منظم کیا جاسکے۔
رہی کینسر کی بات تو ہمیں ایسی چیزوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ کینسر کا سبب ہیں جیسے سورج کی روشنی شراب سگریٹ اور دوسری ایسی اشیاء۔
چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے ے نے ابھی سے ہی سکس جی نیٹ ورک پر تحقیق شروع کر دی ہے۔
یہ کالم لکھنے کے لیے سائینسی کالم نگار ڈاکٹر کارل کے کالم اور پوڈکاسٹ اور اس کے علاوہ معروف پاکستانی ماہر تابکاری طبیعات ڈاکٹر ریاض اکبر کی راۓ لی گی ہے۔