میڈیا کی شائع شدہ اور نشر شدہ خبروں کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے تاجر، طالبان کو 65کروڑ روپے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ادا کرچکے ہیں۔ جو معاملات ظاہر ہی نہ ہوسکے، اس کے علاوہ ہیں۔ کم ازکم چارتاجروں کو شہید کردیا گیا۔ کچھ کو ادائیگی کے باوجود رہا نہیں کیا گیا۔ ایک تاجر کے دوبیٹوں کو کمیٹی چوک راولپنڈی سے اغوا کیا گیا اور چھ کروڑ کے عوض چھوڑا گیا۔ جہلم میں ایک تاجر نے پچاس لاکھ کا تاوان دیا۔ پنڈی کے ایک ڈاکٹر اور اس کی ڈاکٹر بیگم سے پانچ کروڑ مانگے گئے ہیں۔ ایک معروف کمپنی کے مینیجر سے بھی مطالبہ ہوچکا ہے۔ تقریباً تمام معاملات میں بھتے کی ٹیلی فون کالیں قبائلی علاقوں سے موصول ہوئی ہیں، پشاور میں افغانستان کی ٹیلی فون سمیں کھلم کھلا فروخت ہورہی ہیں، نجی ٹرین کے مالکوں کو بھتے کی کال افغانستان سے ملی ہے، کراچی کے حالات اس کے علاوہ ہیں۔ ہزاروں دہشت گرد بھاگ کر دوسرے شہروں میں گم ہوچکے ہیں۔ لاہور کے چاروں طرف غیرملکیوں کی بستیاں بس چکی ہیں۔ نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ لاہور کی ایک مارکیٹ کے بغل میں ایک مخصوص لسانی گروہ نے اپنے الگ بیریئر (رکاوٹیں ) لگائے ہوئے ہیں۔
یہ ہے وہ ’’سازگار ماحول‘‘ جس کا ذکر وزیراعظم میاں نواز شریف نے ترکی کے دورے میں ترک تاجروں سے کیا ہے! ’’ترک سرمایہ کارپاکستان میں سازگار ماحول اور مراعات سے مستفید ہوں۔‘‘ وزیراعظم نے کہا۔ لیکن وزیراعظم صاحب کا جوارشاد معرکے کا ہے اور سنہری الفاظ سے لکھ کر آسمان پر ٹانکا جانا چاہیے، یہ ہے کہ ’’ہم مقامی اور غیر ملکی تاجروں کو یکساں سہولیات فراہم کریں گے ۔‘‘ یعنی جن ’’سہولیات‘‘ کا ذکر کالم کے شروع میں ہوا ہے، ان ’’سہولیات‘‘ سے صرف پاکستانی تاجر ہی نہیں، ترکی کے تاجر بھی لطف اندوز ہوں گے۔ واہ‘ جناب وزیراعظم واہ۔ ایک ماہیا شاید ایسے ہی مواقع کے لیے کہا گیا تھا ؎
چوگُٹھی دوانی اے
شملے دو رکھدا بابا، گھر بھُکی زنانی اے
لیکن تاریخ میں جو سوالیہ نشان بنے گا وہ اور ہے۔
ایک جرنیل دہشت گردی کی نذر ہوگیا، قوم کا اور خاص کر مسلح افواج کا مورال گر گیا اور وزیراعظم ایسے عالم میں اہلِ پنجاب پر مشتمل ایک وفد لے کر بیرون ملک چلے گئے۔ مہذب ملکوں میں حوالدار بھی ہلاک ہوجائے تو حکومتوں کے سربراہ باہر کے دورے منسوخ کردیتے ہیں۔ انسان سب برابر ہیں۔ سپاہی یا کرنل کی شہادت بھی سانحہ ہے۔ ان کے بیوی بچے بھی جرنیل کے بیوی بچوں سے کم نہیں روتے۔ لیکن ٹوسٹار جنرل کی شہادت سے فوج کا مورال ایک عام سپاہی یا افسر کی شہادت کی نسبت بہت زیادہ گرتا ہے۔ وزیراعظم کو آرمی چیف کے ساتھ کھڑا ہوکر جنازے میں شریک ہونا چاہیے تھا اور وہیں یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ مذاکرات ہوں گے لیکن خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے برعکس وزیراعظم نے پیغام دیا تو یہ دیا کہ ؎
نہ مدعی‘ نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزق خاک ہوا
حالانکہ یہ خون رزم گاہ میں برسا تھا اور ’’دست وناخنِ قاتل۔‘‘ صاف دیکھے جارہے تھے !
اخبارات چیخ رہے ہیں کہ بھتے کی کالیں قبائلی علاقوں سے موصول ہورہی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس گمبھیر مسئلے پر نون لیگ کی حکومت نے کیا لائحہ عمل طے کیا ہوگا؟ لائحہ عمل تو دور کی بات ہے، ن لیگ کی حکومت نے اس کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ اس معاملے میں ن لیگ کا وژن ماشاء اللہ اتنا ہی وسیع اور دوررس ہے جتنا زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کا تھا ع
متفق گردید رائے بو علی بارائے من
بھتہ اور تاوان مانگنے والے رقوم بینکوں میں جمع کرواتے ہیں اور اپنے آپ کو اتنا محفوظ خیال کرتے ہیں کہ بینک اور اکائونٹ نمبر کچھ نہیں چھپاتے؛ تاہم حکومت اس سارے معاملے
سے اس طرح بے نیاز اور بے فکر ہے جیسے اغوا ہونے والے اور بھتہ دینے والے پاکستانی نہیں، بھارتی ہوں! زرداری اور نوازشریف سے دس گنا زیادہ وژن تو محمود خان اچکزئی کا ہے جنہوں نے قبائلی علاقوں کے لیے بہترین تجاویز پیش کی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جو کچھ اچکزئی صاحب نے تجویز کیا ہے، اس کے علاوہ اس مسئلے کا اور کوئی حل ہی نہیں۔ انہوں نے اسمبلی میں برملا کہا کہ قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ کو جو اختیارات حاصل ہیں وہ اللہ میاں سے کچھ ہی کم ہیں۔ ان اختیارات کو لگام دینی چاہیے۔ قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیوں پر مشتمل ان کی اپنی اسمبلی بنائی جائے اور گورنر کے انتخاب کا حق فاٹا کے عوام کو دیا جائے۔ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے فرشتوں نے بھی اس زاویے سے قبائلی علاقوں پر غور نہیں کیا ہوگا۔ جہاں وژن، حکمت عملی اور آئی کیو کا عالم یہ ہو کہ وفاق کا وزیراعظم اپنے وفد میں صرف اپنے علاقے اور اپنے خاندان کے وفد لے کر دوسرے ملک کے سرکاری دورے پر چلا جائے اور جو حکومت بجلی کا وزیر مملکت ایک ایسے شخص کو بنائے جو اسمبلی میں ہر شخص سے ہر وقت لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار بیٹھا ہو، وہاں قبائلی علاقوں کے مستقبل کے بارے میں کیا فکر اور کیا ذہنی استعداد ہوگی؟ پانی اور بجلی کے وزیر مملکت کی ’’متانت‘‘ کے
حوالے سے اخبارات میں جو تفصیلی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، پڑھ کر انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ ایک معزز ممبر جب وزیر مملکت کے علم اور شیریں زبانی سے سیراب ہوچکا تو باہر آ کر اس نے صحافیوں سے پوچھا۔ ’’آپ پنجابی، اس طرح کے لوگ آخر کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘ صحافیوں کا جواب تھا: ’’یہ آپ نوازشریف صاحب سے پوچھیے۔‘‘
اور ترکی کے دورے میں ملک کے وزیراعظم ترکی کے معاہدے کس سے کروا رہے ہیں؟ پنجاب حکومت سے۔! کیا ان کی جماعت میں کوئی سرپھرا ایسا نہ تھا جو بتاتا کہ پنجاب کے علاوہ کسی ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہی ساتھ لے جائیے! خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ آپ کی معیت پر آمادہ نہیں، تو گورنر کو ہی لے جائیے۔ کچھ نمائندگی تو ہو۔
ایک بدقسمت مچھلی کنوئیں میں گر گئی۔ وہاں اس کی مینڈک سے گپ شپ ہونے لگی۔ مچھلی نے بتایا کہ دریا، بہت بڑا ہوتا ہے۔ مینڈک تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور پوچھا: ’’کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟‘‘ مچھلی نے جواب دیا۔ ’’نہیں، مینڈک بھائی جان! دریا اس سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے‘‘۔ اس پر مینڈک مچھلی کو لاجواب کرنے کے لیے پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ پچھلی دیوار سے جا لگا اور بولا: ’’اس سے زیادہ بڑا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں تو کنواں ختم ہورہا ہے۔‘‘ آج کا پاکستان لاہور کے ایک سرے سے شروع ہورہا ہے اور دوسرے پر ختم ہوجاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ترکی کے دورے کی تفصیلات پڑھ کر دیکھ لیجیے!!