تصویر میں نظر آنے والی کتوں کی نسل بہت عام ہے۔ یہ نسل پچھلی صدی میں ناپید ہو گئی ہوتی لیکن اس کو بچانے کا سہرا ایک کتے کے سر ہے۔
ٹوکیو یونیورسٹی میں زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر کے پاس ایک کتا تھا۔ پروفیسر ٹرین میں یونیورسٹی جایا کرتے۔ کتا صبح ان کو چھوڑنے سٹیشن تک جایا کرتا۔ واپسی کے وقت پھر سٹیشن پہنچ جاتا اور انتظار کرتا۔ ۲۱ مئی ۱۹۲۵ کو پروفیسر واپس نہیں پہنچے۔ پڑھانے کے دوران ہو جانے والے برین ہیمرج کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہاچیکو نامی کتے کو پروفیسر کی فیملی میں سے کسی اور نے پال لیا لیکن ہاچیکو نے اپنا معمول نہ چھوڑا۔ پروفیسر کے واپس آنے کے ٹائم پر یہ ٹرین سٹیشن پہنچ جاتا۔ عین واپسی کے وقت پر۔ گھنٹوں انتظار کرتا۔ اس بڑے سائز کے کتے کو سٹیشن پر اس طرح تنہا بیٹھے دیکھ کر اچھا سلوک بھی نہ کیا جاتا لیکن شاید اس امید پر کہ آج پروفیسر کی واپسی ہو، ہاچیکو نے اپنی روش نہ بدلی۔ اگلے دس سال روز سٹیشن پر موجود ہوتا۔ یہ وہ وقت تھا جب جاپان بدل رہا تھا۔ شہر بڑھ رہے تھے۔ اس سائز کے کتوں کی شہروں میں جگہ نہ تھی۔ اکیتا نسل صرف جاپان میں تھی اور اس کے صرف چند درجن کتے بچے تھے۔ جاپان میں ہونے والی خوراک کی کمی کے دور میں ان کو کھلاتا بھی کون؟ سالوں تک ہاچیکو کا روزانہ معمول دیکھ کر کسی نے اس کا پیچھا کیا اور اس کی کہانی دریافت کی۔ ۱۹۳۲ میں یہ کہانی اخبار میں چھپی۔ اس کے منظر عام پر آنے سے اس نے جاپانیوں کے دلوں کو چھو لیا۔ سٹیشن پر مالک کا انتظار کرتا ہاچیکو ہیرو بن گیا۔ یہ کہانی امپیریل جاپان کو بھی چاہئے تھی اور نیو کنفیوشس اقدار سے بھی مطابقت رکھتی تھی۔ یہ وفاداری کی کہانی تھی، موت کے بعد بھی مکمل وفاداری۔ اس کے مجسمے بنے، کتابیں لکھی گئیں، نظمیں اور کہانیاں۔ فلمیں اور پروگرام۔ ہاچیکو کو موت کے بعد پورا سرکاری اعزاز ملا۔ آخری رسومات میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
اکیتا نسل سے رومانس نے اکیتا نسل کو بچا لیا۔ اب ہر ایک کو یہی کتا چاہئے تھا۔ یہ کہانی امریکہ پہنچی اور پھر کتے کی نسل بھی اور جذبات بھی۔ یہاں پر بھی ڈزنی نے فلم بنائی اور یہ متاثر کن کہانی کلچر کا حصہ بن گئی۔ اب امریکی اکیتا اور جاپانی اکیتا دونوں نسلیں ہیں اور دنیا بھر میں ہیں۔ ہاچیکو سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب ۱۹۹۵ میں کسی پرانے ریکارڈ میں اس کے بھونکنے کی آواز ملی اور اس کو مرمت کر کے حاصل کیا گیا تو اس ریکارڈ کو سننے والوں کی تعداد کئی ملین تھی۔ اشتہار چلے اور کئی ملین لوگوں نے کتے کو بھونکتے سنا۔ آج ٹوکیو جائیں تو اس نام پر سٹیشن کے ٹرمینل اور سڑکوں کے نام بھی ہیں اور کانسی کے مجسمے بھی۔
وقت اور اقدار بدلنے کے ساتھ کہانی کی نوعیت بدل گئی ہے۔ وفاداری سے دوستی کی طرف۔ اپنے کلچرل فریم ورک میں اسے اب ایک دوست کتے کے طور پر فٹ کر لیا گیا ہے۔ ہاچیکو ایک اچھا کتا تھا لیکن اس کی کہانی کنزرویشن کے مسائل کا بھی بتاتی ہے۔
اس وقت دنیا چھٹی عظیم معدومیت کے دور سے گزر رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر انواع ختم ہو رہی ہیں۔ ان کو بچانے کی کوشش میں ہم اپنے جذبات سے کرتے ہیں۔ پانڈا پیارا لگتا ہے۔ بڑے میمل مرتا دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ ان کے مسائل اپنی جگہ لیکن ایکوسسٹم میں ان سے بھی زیادہ اہم کچھ چھوٹے جانور ہیں۔ خول والے سمندری جانور جو تیزابی سمندر کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں، جل تھیلیے اور رینگنے والے جانور، ریڑھ کی ہڈی کے بغیر انواع جن میں سے ستانوے فیصد انواع ایسی ہے جن کی تعداد نصف رہ چکی ہے۔ کئی جگہ پر زیادہ ہو جانے والی انواع کو مار دینا ہوتا ہے کہ ایکوسسٹم بچ جائے۔ ان کو بچانا بھی اس لئے ہے کہ ہر چیز ہزاروں نظر نہ آنے والے دھاگوں سے بندھی ہے اور ایک ٹوٹا دھاگہ بہت کچھ اور توڑ دیتا ہے۔
اچھے کتے بھی چاہئیں مگر رینگتے زہریلے کیڑے بھی۔ رومانس بھی اور حقیقت بھی۔
ہاچیکو کی کہانی
https://www.animalwised.com/the-true-story-of-hachiko-the-f…
سب کچھ کیسے جڑا ہے
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_652.html
کنزرویشن کی غیر رومانوی کہانی
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_36.html