امریکی جریدے ٹائم کی 19 اپریل 71 کی اشاعت میں ڈین کاگنز کی ایک رپورٹ چھپی تھی جس کا عنوان تھا ’کُشتیا کی جنگ‘۔ اس رپورٹ کی ایک تصویر میں کُشتیا جیل میں مکتی فوج کے پہرے میں کچھ پاکستانی فوجی بیٹھے ہیں۔ شکست خوردگی کی ہزیمت سے چُور۔ ڈیلٹاکمپنی 27 بلوچ کی 155 کی نفری میں سے یہی سپاہی تھے جو زندہ بچے۔ مگر ان کے علاوہ دو لوگ اور بھی تھے۔
کُشتیا پر حملے کے چند ہفتوں بعد کا ذکر ہے کلکتہ میں انڈین فوج کی قید میں لیفٹیننٹ عطاءاللہ شاہ کی نظر سے ایک میگزین گزرا جسمیں کُشتیا کا ذکر تھا۔ رپورٹ میں شامل ایک تصویر میں بنگالی باغیوں نے ایک پاکستانی فوجی کا بُریدہ سر ہاتھوں میں اٹھایا ہوا تھا۔ لیفٹیننٹ عطاء کو پہچاننےمیں دیر نہیں لگی۔ وہ 27 بلوچ کا سپاہی نہیں تھا۔ وہ وقار نسیم کا چہرہ تھا۔ کُشتیا کا وقارنسیم جو کہتا تھا کہ میں یہاں سے کیوں جاؤں، یہ لوگ تو میرے اپنے ہیں۔
کُشتیامیں 27 بلوچ پرٹوٹی آفت کی رات میں بچ جانےوالے دو اور لوگوں میں لیفٹیننٹ عطاءاللہ اور ایک سپاہی بھی تھے۔ یہ 27 بلوچ کی کہانی ہے۔ یہ لیفٹیننٹ عطاء اور وقارنسیم کی کہانی ہے۔ یہ کُشتیا کی کہانی ہے۔
جیسور سے 55 میل شمال کی سمت گنگا کے پانیوں سے سیراب ہوتے کُشتیا میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں تھا۔ ایک آلکس میں لہلہاتی دھان کی فصل اور اس کی کاشت کے رکھوالوں میں مزاحمت کے کوئی آثار نہ تھے۔اور پھر پچھلے سال دسمبر میں بھی تو 27 بلوچ کے سپاہی کُشتیا آئے تھے۔ مگر تب وہ الیکشن ڈیوٹی تھی۔
پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ اپنی نگرانی میں مکمل کروائے گئے انتخاب کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے بعد 27 بلوچ کی کمپنی واپس جیسور آگئی تھی۔ مگر جب اسی حق رائے دہی کا نتیجہ ایک حقارت کے ساتھ بنگالی عوام کے منہ پر مار دیا گیا تو حالات کو سنبھالا دینے یہی سپاہی دوبارہ کُشتیا بھیجے گئے۔
مگر اس دفعہ 27 بلوچ ایک اجنبی سرد مہر کُشتیا میں وارد ہوئی، جہاں انہیں خوش آمدید کہنے والا کوئی نہیں تھا۔ خاموش سنسان آنکھوں میں ایک بے اعتباری کی پرچھائیں کہ جیسے کچھ ہونے کو ہے۔ڈھاکہ میں بولے گئے آپریشن سرچ لائٹ کے دھاوے کی خبر کُشتیا پہنچ چُکی تھی۔ سارے میں بغاوت کی بوُ تھی۔
کُشتیا: کندھے پر لی اینفیلڈ تھری ناٹ تھری کی بندوق لٹکائے، مکتی باہنی گوریلا
تصویر:Anne de Henning
آپریشن سرچ لائٹ کے احکامات کی بجا آوری میں 27 بلوچ کا لڑاکا دستہ جیسور سے چھ جیپوں ایک ڈاج اور ایک ٹرک میں سوار ہو کر 25 مارچ کی رات ساڑھے گیارہ بجے کُشتیا پہنچا۔ یہ دستہ ڈیلٹا کمپنی کمانڈر میجر شیخ محمد شعیب، سیکنڈ ان کمانڈ کیپٹن صمد علی اور لیفٹیننٹ عطاءاللہ شاہ کے ساتھ ایلفا کمپنی کے کچھ جوانوں اور ان کے کمانڈر میجر محمد اسلم پر مشتمل تھا۔ کُل نفری قریباً ایک سو پچپن نفوس پر مشتمل تھی۔ میجر شعیب نے کمپنی ہیڈکوارٹر ضلعی سکول کُشتیا میں قائم کیا۔ کیپٹن صمد اور لیفٹیننٹ عطاءاللہ ایک پلاٹون لے کر پولیس لائن پہنچے اور وہاں موجود نفری سے ہتھیار رکھوا کر پولیس لائن کا کنٹرول سنبھال لیا۔ میجر اسلم نے اپنی پلاٹون کے ساتھ ٹیلیفون ایکسچینج کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ نائب صوبیدار ایوب چودہ جوانوں کے ہمراہ ریڈیو اسٹیشن پر قابض ہوگئے۔
سب کچھ بغیر کسی مزاحمت کے بحسن و خوبی انجام پا گیا۔ پولیس کی نفری پہلے ہی بغاوت کر کے جا چکی تھی اور سیاسی عہدے دار بھی کُشتیا سے فرار تھے۔ کمپنی کمانڈرنےفرسٹ لائٹ پر سب اچھاکی رپورٹ لےکر کرفیونافذ کردیا- 28 مارچ کوکرفیومیں تخفیف کردی گئی۔
کُشتیا سے نقل مکانی کرتا ہوا ایک خاندان۔ پیچھے دو مکتی باہنی کے گوریلے چلے آرہے ہیں۔
تصویر: Anne de Henning
اُنتیس مارچ کی طلوع ہوتی صبح نے کُشتیا کے لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر جاتے دیکھا۔ خاموش سُتے ہوئے چہروں پر سپاہیوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ شام تک یہ واضح ہوگیا کہ یہ ایک منظم نقل مکانی تھی، مگرکیوں؟ شام گئے ڈپٹی کمشنر اور سُپرنٹنڈنٹ آف پولیس 27 بلوچ کے کمپنی ہیڈکوارٹر آئے تو ساتھ ایک پرچی بھی لائے جس پر ایک عبارت درج تھی۔ ‘پاکستانی فوج کا جو کوئی بھی ساتھ دے گا مار دیا جائے گا’۔
ڈپٹی کمشنر نے آنے والے ممکنہ حملے سے میجر شعیب کو خبردار کیا۔ 27 بلوچ کی ڈیلٹا کمپنی کے کمانڈر نے اندازے کی سنگین غلطی کی کہ حملہ آور باغی ہتھیار اور بارود سے لیس مورچہ بند فوج کا کیا مقابلہ کریں گے۔ میجر شعیب نے ممکنہ خطرے کے پیش نظر کُشتیا کے مغربی پاکستانی ڈپٹی کمشنر وقار نسیم کو فوج کی حفاظت میں آنے کی ہدایت کی۔ وقار نے اسے ایک بے پرواہ ہنسی میں اُڑا دیا کہ یہ میرے لوگ ہیں، مجھے ان سے بھلا کیا خطرہ ہوگا! آنےوالےدنوں میں وقارنسیم نے اس خوش گمانی کی بھاری قیمت اداکرنی تھی۔
یہاں سے ہم باغیوں کی خبرلینے کُشتیا سےلگ بھگ چھبیس میل جنوب مغرب میں چوآڈنگا کےسرحدی قصبےکی اورپلٹتےہیں۔
ریلوے سٹیشن کے پاس کُشتیا کے باغی بنگلہ دیش کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے
تصویر: Anne de Henning
کُشتیا کے منحرف سپاہی پولیس لائن سے فرار ہو کر چوآڈنگا آگئے تھے۔ اب یہاں ٹائم میگزین کا ڈین کاگنز کہے گا کہ پولیس لائن سے چرائی تھری ناٹ تھری بندوقوں سے لیس اس فورس کو کُشتیا کے باغی طلبا نے ہنگامی بنیادوں پر گوریلا جنگ کے لیے تیار کیا اور جب ان کے ساتھ کُشتیا کے رضاکار تیشوں اور بھالوں کے ساتھ آملےتو پانچ ہزار نفوس پر مشتمل اس ’کسانوں کی فوج‘ نے فوجیوں پر ہلہ بول دیا۔ اصل کہانی کچھ مختلف ہے۔
چوآڈنگا ایسٹ پاکستان رائفلز کے 4 ونگ ہیڈ کوارٹر او رایکو پلاٹون کی آماجگاہ تھا۔ ونگ کمانڈر میجر ابو عثمان چودھری نے باغی ونگ کی پلاٹون اور کُشتیا سے آئی پولیس کی نفری پر مشتمل ایک ہنگامی حملہ آور فورس تشکیل دی۔ 29/30 مارچ کی درمیانی رات کشتیا میں27 بلوچ پر ہونے والا حملہ 4 ونگ ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغیوں نے کیا تھا۔ میجر چودھری کی زیرقیادت ہتھیاروں اورمارٹرگولوں سے لیس ساڑھے چھ سو جوان اور کُشتیا پولیس کی نفری تھی۔
میجر ابو عثمان چودھری
ونگ کمانڈر 4 ونگ ایسٹ پاکستان رائفلز
بنگلہ دیش کی طرف کی کہانی میں ایک انٹرسیپٹ کی گئی وائرلیس ٹرانسمیشن کا ذکر ہے۔ 14 ڈویژن کےکرنل سٹاف 107 بریگیڈ میجرکو کہہ رہے ہیں کہ تم لوگ سڑک چھاپ غنڈوں سے شکست کھاگئے ہو! بات کچھ کچھ سچ تھی کہ حملہ آور لشکر میں کشتیا اور نواحی علاقوں کے مقامی لوگ بھی برچھیوں اور لاٹھیوں سمیت شامل تھے۔27 بلوچ کی 155نفری کا سامنا پانچ ہزار کے لگ بھگ اس فورس سے تھا جن کے پاس مارٹر گنوں سے لے کر مشین گنوں رائفلوں اور ڈنڈے لاٹھیوں سمیت ہر طرح کے ہتھیار شامل تھے۔ راست تناسب میں ایک سپاہی کا سامنا 32 باغیوں سے تھا۔ میجر شعیب کو نتیجہ نکالنے کے لیے کسی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں تھی۔
رات بھر کی جاری جنگ کے بعد آنے والی صبح میں اپنے حصے کے زخم کھائے بچی کھچی پلاٹونیں واپس ضلعی سکول اکٹھی ہوئیں۔ یہ 70 جوان تھے۔ ریڈیو سٹیشن والے نائب صوبیدار ایوب کے سیکشن کا کچھ پتہ نہ تھا۔ اس بچی کھچی چوٹ کھائی فوج نے وائرلیس پر کمک اور فضائی حملے کے لیےبہت زور ڈالا مگر انہیں کہا گیا کہ باغیوں کے نرغے سے نکلتے ہوئے جیسور کی طرف پس قدمی کی جنگ انہوں نے خود لڑنی ہے۔ بنگالی سپاہ نےواپسی کے تمام راستے مسدود کردئیےتھے۔
27 بلوچ کا پس قدم جیپوں اورڈاج پر مشتمل لُٹا پُٹا قافلہ کُشتیا سے باہر تباہ شدہ پل پر لگی گھات کا شکار ہو گیا۔ میجر شعیب اور میجر اسلم اس معرکے میں کام آگئے۔ بوکھلائے ہوئے فوجی جدھر سر سمایا بھاگے۔ کچھ گھات پر لگی سپاہ کی گولیوں کا شکارہوئے، جو بچے وہ کُشتیا کے سُتے چہروں والے کسانوں کے ہاتھ لگےاور بےدردی سے قتل کیے گئے۔
میجر شیخ محمد شعیب
ڈیلٹا کمپنی کمانڈر
میجر محمد اسلم
ایلفا کمپنی کمانڈر
اس پوسٹ کے شروع میں ہم نے 27 بلوچ کے جو قیدی دیکھے وہ نائب صوبیدار ایوب کا گمشدہ سیکشن تھا۔ 29/30 مارچ کی رات ایسٹ پاکستان رائفلز کی جس ڈیٹیچمنٹ نے موہنی ہل پر واقع وائرلیس سٹیشن پر حملہ کیا اسکی قیادت صوبیدار منیرالزمان کے پاس تھی۔ اچانک ٹوٹ پڑنےوالی افتادمیں ششدر ایوب کا سیکشن بمشکل ریڈیو سٹیشن سے نکل سکا مگر تھوڑا دور جاکر نرغے میں آگیا اور قیدی بنا لیا گیا۔
صوبیدار منیرالزمان کی لڑائی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کُشتیا کے بعد کےدنوں میں ہمارے صوبیدار نے مکتی باہنی کے سیکٹر نمبر8 میں بوئرہ سب سیکٹر کا علاقہ سنبھالا۔ جون 1971 میں کاشی پور کے علاقے میں پاکستانی فوج سے لڑتے ہوئے منیرالزمان سونار بنگلہ پر نثار ہوگیا۔ اسے بعدازاں بنگلہ دیش کا فوجی اعزاز بیر بکرم دیا گیا۔
صوبیدار منیرالزماں، بیر بکرم
ایسٹ پاکستان رائفلز
ہماری کہانی ابھی باقی ہے
کُشتیا کے تخریب زدہ پُل کی گھات سے بچ نکلنے والوں میں لیفٹیننٹ عطاءاللہ بھی تھا۔ بہت بعد کے دنوں میں شرمیلا بوس نے اپنی کتاب کے لیے پاکستان میں عطاءاللہ کا انٹرویو کیا تو ہمارے لیفٹیننٹ کی یادداشت کے پردے پر بہت سے منظر پلٹ آئے۔
کُشتیا کے شکستہ پُل کی قربت میں عطاء اللہ کو ہوش آیا تو سپاہی اُسے جھنیڈہ پولیس سٹیشن لے جارہے تھے۔ وہاں جھنیڈہ کے جنگل میں اس نے چند بنگالیوں کو دیکھا کہ کیپٹن صمد کو ذبح کررہے تھے۔ پولیس سٹیشن جھنیڈہ میں کٹے بازو والا حوالدار معاذاللہ اور زخموں سے چُور نائیک اشرف بھی تھے اور ان کے علاوہ 27 بلوچ کے لگ بھگ دس جوان اور۔ کچھ ہی دیر میں ایک گاڑی ان کٹے پھٹے زخمیوں کو جھنیڈہ کے اسی جنگل میں لے جائے گی اور ایک ایک کرکے گھات میں بیٹھے وحشیوں کے حوالے کردے گی جو ان سے زندگی کی بچی کھُچی رمق بھی نچوڑ لیں گے۔
پتہ نہیں عطاءاللہ خوش قسمت تھا کہ بدقسمت کہ وہ بچ گیا اور اپنے صیادوں کے ہاتھوں کھیلتا بالآخر ہندوستانی فوج کی قید میں جا پہنچا۔
کیپٹن صمد علی
ڈیلٹا کمپنی 27 بلوچ
اسٹ پاکستان رائفلز کی قید میں
لیفٹیننٹ عطاء اللہ شاہ
کلکتہ میں ہندوستانی قید میں عطاءاللہ نے وہ میگزین دیکھاتھا۔ غالباً ٹائم تھا یا نیوزویک، اُسے ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ مُسکراتے بنگالی چہروں نےایک کٹا ہوا سر اُٹھا رکھا تھا کہ وہ ایک پاکستانی فوجی تھا۔ عطاءاللہ نے فوراً پہچان لیا، وہ فوجی نہیں بلکہ کُشتیا کا وقار نسیم تھا۔
19 اپریل 1971 کے ٹائم کے شمارے میں ڈان کاگنز ‘کُشتیاکی جنگ’ میں ہمیں بتاتا ہے کہ پاکستانی ہلاک ہونے والوں میں ایک نسیم وقار بھی تھا۔ 29 سالہ پنجابی جو گذشتہ جنوری میں کُشتیا کا اسسٹننٹ ڈپٹی کمشنر بن کے آیا تھا۔ ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے جب اسکی لاش دیکھی تو آدھا میل شہر کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرے۔
پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کی ویب سائٹ کی آنر رول پر ایک جگہ شہید وقار نسیم سی ایس پی کے لیے مخصوص ہے۔ وہ گئے وقتوں کےمشرقی پاکستان میں کُشتیا کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھے جو مکتی باہنی کے باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ افسر شاہی ویب سائٹ پر اپنے شہید سپوت کی کوئی تصویر نہیں ہے۔
وہ نیوزویک کا 12 اپریل 1971 کاشمارہ تھا۔ ٹونی کلفٹن کی مشرقی پاکستان پر رپورٹ میں شامل ایک تصویر میں بنگالی باغیوں کے مُسکراتے چہروں میں ہاتھوں پر اُٹھایا ایک کٹاہوا سر ہے۔
یہ کوئی فیڈرل سولجر نہیں بلکہ کُشتیا کا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر وقار نسیم سی ایس پی ہے۔ وہی وقار جس نے ایک لاپرواہ ہنسی میں میجر شعیب سے کہا تھا، یہ لوگ تو میرے اپنے ہیں، مجھے بھلا ان سے کیا خطرہ۔