“ایک منٹ، ایک منٹ” کلیم نے پٹرول بھرنے والے کو آواز دی جو پٹرول کے پائپ کو اپںی جگہ رکھنے جارہا تھا۔
“ جی” سرخ وردی میں ملبوس پٹرول پمپ کے کارندے نے سوالیہ انداز میں کلیم کی طرف دیکھا۔
“ذرا یہ نلکی ادھر لانا” کلیم نے پائپ کی طرف اشارہ کیا۔
حیران و پریشان کارندے نے جھجھکتے ہوئے نلکی کلیم کی طرف بڑھا دی ۔ کلیم نے نلکی کے سرے پر لگی ہوئی نمی کو ہتھیلی پر رگڑا اور “تھینک یو” کہہ کر نلکی واپس کردی۔ پٹرول پمپ کے ملازم کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی مگر وہ کچھ بولا نہیں۔
“ یہ کیا حرکت تھی” میں نے برہمی سے پوچھا۔
“ ابے تجھے نہیں پتا کیا مزہ ہے اس کی خوشبو میں” کلیم اپںی ہتھیلی کو سونگھ رہا تھا۔
“ خوشبو؟” میں سرتاپا سوال تھا۔ “ ابے یہ کوئی پرفیوم ہے؟”
“تیری سمجھ میں نہیں آئے گا” کلیم نے سرور کی حالت میں جھومتے ہوئے کہا۔
“ ٹھیک ہے ایک بوتل میں بھر کر رکھ لے، روز کپڑوں پر چھڑکا کر” میں نے جل کر کہا۔
لیکن کلیم اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ میرا اپنا حال ہے کہ پٹرول یا ڈیزل کی بو مجھے اپنے بچپن میں پہنچا دیتی ہے جب دادی مجھے پہلی بار گلی سے نکل کر پکی سڑک پر بال کٹوانے لے گئی تھیں اور وہاں سے ایک ٹرک گذرنے پر ایسی ہی “خوشبو” آئی تھی۔
اور پٹرول ہی نہیں ، ہر خوشبو، بلکہ ہر بو آپ کو کسی نہ کسی چیز کی یاد دلاتی ہے۔ لڑکپن میں ریڈیو سے اشتہار چلا کرتا تھا۔
“پھولوں کی خوشبو میں نہا کر ۔۔ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے۔ تبت ٹیلکم پاؤڈر، تبت ٹیلکم پاؤڈر”
فضا میں پھیلی یہ بوئیں ہمیں کسی اور ہی جہاں میں لے جاتی ہیں۔ لیکن یہ تجربہ ہر ایک کا مختلف ہوتا ہے۔ ہر کسی کی اپںی ناک کا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ ہر بو کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو خوشبو یا بو مجھے پسند ہو وہ دوسرے کو بھی اچھی لگے۔ بعض اوقات تو یہ دوسروں کو بہت ہی ناگوار بھی گزرتی ہے۔
مثلاً کل ہی کی بات ہے۔ مجھے آئس کریم کے مقابلے میں قلفی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ بیگم کئی دن سے کہہ رہی تھیں کہ فریج میں قلفی رکھی ہے ۔ یہ میرے کسی ہندوستانی دوست نے دی تھی۔یہ پلاسٹک کے پیالے میں تھی اور اس پر ہندی کے انداز میں انگریزی میں قلفی لکھا ہوا تھا۔ میں نے بڑے شوق سے اسے کھولا اور پہلا چمچ ہی منہ میں لیا تھا کہ ایک عجیب سے احساس نے طبیعت مکدر کردی۔ یوں لگا جیسے کسی مندر کی تیز اگر بتیوں کا چورا بناکر قلفی میں شامل کیا ہواہے۔ پتہ نہیں کون سی چیز تھی جس کی خوشبو یہاں ہندوؤں کی دکانوں میں بہت واضح محسوس ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں دوبئی میں ہندو دکاندار صبح دکان کھولتے ہی پوجا پاٹ کرتے ہیں ۔ سر پر بھببھوت ملتے ہیں اور مخصوص قسم کی اگر بتیاں جلاتے ہیں۔ مجھے خدانخواستہ ان کی عبادت یا اگر بتیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ یقیناً ان کے نزدیک بہت اچھی خوشبوئیں ہوں گی لیکن ہم پاکستانی اس کےعادی نہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے مزاروں پر جلنے والی اگر بتیاں اور چھڑکا جانے والے عرق گلاب دوسروں کو ایسے ہی ناگوار گذرتے ہوں گے۔
یہاں پاکستانی ہوٹلوں میں نہاری اور گرما گرم نان کی خوشبو سونگھ کر ہماری بھوک چمک اٹھتی ہے۔ لیکن ہمارے ایک عرب دوست نے ایک بار نہاری کی بو سونگھ کر کہا تھا کہ شاید کسی ٹوائلٹ کا دروازہ کھلا رہ گیا ہے۔ لیکن انہی لبنانیوں کے ریسٹورنٹ میں جہاں ہم بڑے شوق سے شیش کباب، عرائس ، شاورما وغیرہ کھاتے ہیں، ہماری باجی نے کھانے سے انکار کردیا تھا کہ یہاں دنبے کے گوشت کی بو پھیلی ہوتی ہے۔ باجی اور دولہا بھائی ممبئی سے آئے تھے۔ ہم انہیں ایک گجراتی ویجیٹیرین ریسٹورنٹ میں لے گئے جہاں کڑوے تیل اور ہینگ کی بو نے ہمارے سر چکرا دئیے تھے لیکن دولہا بھائی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ کہنے لگے “واہ! یہاں تو اپنے ممبئی کی خوشبو آرہی ہے”۔ وہ اس”خوشبو” کے عادی تھی۔ اور دوسری بار یہ ہوا تھا کہ میرا بھائی کراچی سے آیا تھا اور ہم اسے ساؤتھ انڈین ویجیٹیرین ریسٹورنٹ میں “تھالی” کھلانے لے گئے لیکن ریسٹورنٹ میں اس قدر ساؤتھ انڈین بو پھیلی ہوئی تھی کہ ہم فورا باہر نکل آئے اور پڑوس میں لبنانی ریسٹورنٹ میں چلے گئے جہاں گوشت کی بو ہمارے لئے ناگوار نہیں تھی۔
یہی حال یہاں عمارتوں کا ہے ۔ دوبئی ، شارجہ اور عجمان وغیرہ میں آپ کسی عمارت میں داخل ہوتے ہی بتا سکتے ہے کہ یہاں ہندوستانیوں بلکہ ہندوؤں کی اکثریت رہائش پذیر ہے۔ مخصوص سندھی اور گجراتی یا جنوبی ہند کے کھانوں کی بو پورے کوریڈور میں پھیلی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس عمارت میں فلپائنی رہتے ہیں تو آپ کا گزارا ناممکن ہے کہ وہ خشک مچھلی بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن ان کے کھانوں میں اس قدر عجیب سی بو ہوتی ہے کہ طبیعت متلانے لگتی ہے۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہمارے کھانوں سے دوسروں پر بھی کوئی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
مجھے کھانے پکانے کا شوق ہے اور کبھی کبھار بیگم سے کہتا ہوں کہ آج آپ آرام کیجئے، میں کھانا بناتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کئ بات ہے کہ میں نے قورمہ بنایا۔ کام سے فارغ ہو کر سوچا کچھ دیر باہر جاکر تازہ ہوا کھاتا ہوں۔ لفٹ میں نچلی منزل سے ایک نوجوان گورا اور گوری سوار ہوئے۔ لڑکی نے یہاں وہاں دیکھ کر نتھنے سکوڑتے ہوئے کہا “ Who cooked biryani” میں نے کہا یہاں میرے علاوہ اور کون ہے۔ بہرحال مجھے تمہارا پیغام مل گیا ہے۔ میرے کپڑوں سے بارہ مصالحے کی بو جو ان کے لئے یقیناً خوشبو نہیں تھی، آرہی تھی۔ میں نے واپس گھر جاکر پہلے ان کپڑوں سے نجات حاصل کی جو “تیری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ “ کی مثل بنے ہوئے تھے۔
بہرحال خوشبوؤں کا معاملہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔ خوش قسمتی سے جہاں میں رہتا ہوں یہ دوبئی کی مشہور کنسٹرکشن کمپنی “اعمار” والوں کی عمارت ہے۔ ان کی عمارتیں مہنگی ہیں لیکن اعلا ذوق کی حامل ہیں۔ جیسے ہی آپ عمارت میں داخل ہوں بہت ہی نفیس قسم کی “عود” کی خوشبو آپ کا استقبال کرے گی۔ ان کے غسل خانوں میں بہت ہی اچھے اور مہنگے والے “ہینڈ واش” رکھے ملیں گے۔ یہاں تک کہ آج کل کی نئی ضرورت “سینیٹائزر” بھی اتنے اچھے برانڈ کے ہیں کہ ہاتھوں سے دیر تک خوشبو آتی ہے۔
عرب امارات کے باشندے خوشبو، شہد، کھجور اور زیتون کے بہت شوقین ہیں اور اس پر بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں اور یہاں کئی خوشبوؤں، شہد اور کھجوروں کی قیمتیں ناقابل بیان ہوتی ہیں۔ اسی طرح اکثر مساجد بھی خوشبوؤں میں ڈوبی ہوتی ہیں۔ مقامی عرب خاص کر جمعہ کی نماز میں بہت اہتمام سے آتے ہیں اور خوشبو لگانا تو یوں بھی سنت نبوی ہے۔ ان کی خوشبوئیں البتہ بہت تیز ہوتی ہیں۔
مجھے پھولوں اور خوشبو میں موگرا اور گلاب بہت پسند ہیں ، چنبیلی کے پھول بھی کہیں ملتے ہیں تو بیگم کے لئے توڑ لاتا ہوں لیکن ہمارا ایک ساؤتھ انڈین انجینئر جب چنبیلی کا تیل سر میں چپڑ کر آتا ہے تو میرا سر چکرانے لگتا ہے۔ میرے موگرے ( موتیا) اور گلاب کو شاید گورے پسند نہ کرتے ہوں کہ وہ ڈیزی اور لیونڈر وغیرہ کے رسیا ہوتے ہیں۔
خوشبو صرف پھولوں، عطریات، کھانوں، عمارتوں اور لوگوں کی ہی نہیں کچھ اور چیزوں کی بھی ہوتی ہیں جن کا اپنا ہی ایک نشہ، ایک سرور ہوتا ہے۔ مثلاً نوزائیدہ بچوں میں سے جو ایک بے خود کرنے والی خوشبو آتی ہے اس کا شاید ہی کوئی نعم البدل ہو۔ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ زمین سے جو سوندھی سوندھی خوشبو اٹھتی ہے، کون ہوگا جسے یہ خوشبو نہ بھاتی ہو۔ اور ایک خوشبو ہوتی ہے نئی کتابوں کی جس کا مزہ صرف کتابوں کے شوقین ہی سمجھ سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو نئے نوٹوں کی خوشبو بھی بہت بھاتی ہے بلکہ کون ہے جسے یہ خوشبو نہ بھاتی ہو۔
بہت سے لوگ کافی کو اس کی خوشبو کی وجہ سے پسند نہیں کرتے لیکن میں کافی صرف اس کی مہک کی وجہ سے ہی پیتا ہوں۔ مجھے لگے ہوئے یعنی جلے ہوئے چاول پسند نہیں لیکن لگی ہوئی کھیر اتنی ہی اچھی لگتی ہے۔ بریانی، نہاری، حلیم کی خوشبو پر ہم جان دیتے ہیں لیکن میرے ایک کزن کی جان نکلتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کپڑوں سے ان کی بو نہیں جاتی اور اگر گھر میں یہ نعمتیں پکی ہوں تو دفتر والے سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ آج ہمارے ہاں کیا پکا ہے۔
خوشبوؤں کی مختلف پسند کا ایک قصہ یہ بھی سن لیجئیے۔
ہمارے دفتر میں ایک نیا گورا باس آیا۔ چونکہ اس کے گھر پر کوئی نہیں تھا جو اس کے بڑے سارے کتے کی دیکھ بھال کرے چنانچہ وہ اسے دفتر لے آیا۔ یہ دفتر کے قوانین کے خلاف تھا لیکن گوروں کو سات خون معاف ہوتے ہیں۔ خیر، تو یہ کتا باس کے کمرے میں نہیں رہ سکتا تھا کہ وہاں مختکف میٹنگز وغیرہ ہوتی تھیں چنانچہ باس نے اسے اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں چھوڑ دیا جہاں وہ سارا دن ایک کونے میں پڑا اونگھتا رہتا۔ ان ہی دنوں ہماری ایک فلپائنی ساتھی کوئی نیا پرفیوم لگا رہی تھی۔۔ دودن بعد کتے کی رہائش کا ٹھکانہ تو ہوگیا لیکن کمرے میں وہ بو بدستور موجود تھی۔ میں نے یونہی کہہ دیا کہ کتے کی بو آج بھی آرہی ہے۔ ہماری دوست نے کہا کہ مجھے تو نہیں آرہی۔ میں نے زور سے سونگھتے ہوئے کہا کہ دیکھو فضا میں یہ بو ہے۔ کہنے لگی یہ تو میرے پرفیوم کی “ خوشبو” ہے۔
خوشبو کا بہرحال یہ کمال ہے کہ اس کے ساتھ عموماً اچھی، خوش کن یادیں جڑی ہوتی ہیں۔ اکثر کوئی خوشبو گئے زمانے کی کوئی سہانی سی یاد دلا دیتی ہے۔ میری یادوں میں بھی ایسی کچھ خوشبوؤں ہیں جن سے یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ اتفاق سے ان میں سے اکثر کا تعلق کھانے پینے سے ہی ہے۔
مثلاً مجھے اپنے ہوش میں آنے کے بعد کا پہلا رمضان جب بھی یاد آتا ہے تو شربت روح افزا کی وہ مہک یاد آتی ہے جو پورے صحن میں پھیلی ہوئی تھی جو میری امی ایک بڑے سے برتن میں برف ڈالے بنارہی تھیں اور بڑے سے چمچ یا کفگیر سے شکر گھول رہی تھیں۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم بہار کالونی میں رہتے تھے۔
یہیں ایک گھر میں مٹھائیاں بنتی تھیں جن کی بیسن کے لڈو کی بو پوری گلی میں پھیلی ہوتی۔ اور یہیں شام کو سائیکل پر ایک بڑے میاں تازہ تازہ “علیگڑھ” کے پاپے، نان ختائیاں اور بسکٹ وغیرہ بیچنے لاتے جن میں سے ایک اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی ہوتی۔
پھر مجھے اپنے بچپن کے انڈیا کے دورے میں ہماری ایک دور پار کی دادی یاد آتی ہیں جن کا کھپریل کی چھت والا گھر گاؤں کے بالکل آخری کنارے پر تھا اور اس گھر کے ساتھ کوئی “ بھڑ بھونجا” چنے اور مٹر بھونتا تھا جن کی سوندھی خوشبو دور تک محسوس ہوتی۔ اور پھر مجھے اپنے جمشید روڈ والے اسکول کے قریب ایک ٹوٹے پھوٹے سے گھر کی وہ بیکری بھی یاد آتی ہے جو شام کو کیک پیسٹری کے ساتھ زیرے والے نمکین بسکٹ بناتا تھا اور اس کے قریب سے گزرتے ہی ہم جیب ٹٹولتے اور اگر ایک آنہ فاضل بچا ہو تو آنے کے درجن بھر تازہ بتازہ نمکین بسکٹ خریدتے جن کی خوشبو سوچ کر آج بھی مشام جاں معطر ہوجاتے ہیں۔ اور جب اور بڑے ہوئے تو صدر میں کیپیٹل سینیما کی گلی میں داخل ہوتے ہی کیفے گلوریا کی سبز چائے کی بھاپ اڑاتی خوشبو جسم وجاں کو تروتازہ کردیتی، چائے کا تو اپنا مزہ الگ تھا لیکن اس کی خوشبو سونگھ کر دور سے ہی طبیعت خوش ہوجاتی۔
یادوں کی ایسی کئی خوشبوئیں ہیں جو زندگی کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ آپ کی یادیں بھی ایسی کئی خوشبوؤں سے مہک رہی ہوں گی۔ زندگی کے سارے رنگ خوش رنگ نہیں ہوتے لیکن انہیں یاد کرکے کرنا بھی کیا ہے۔ مالک کا شکر ادا کرنے کے لئے جہاں اس کی بے شمار نعمتیں ہی وہیں دل وجان کو مہکانے والی یہ خوشبوئیں بھی ہیں۔
اور تم رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...